• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کا کالم اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے بہت سے ساتھی ہر سال بڑی کوشش و خوشامد کر کے سرکاری وفد میں شامل ہوکر سرکاری حج کرتے ہیں اور بڑے فخر سے اس کا اظہار کرتے ہیں جیسے انہوں نے مفت حج نہیں کیا کوئی بڑا معرکہ سر کیا ہو اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ اپنے دوستوں کو اس مفت حج کی حقیقت بتا دوں۔ جانے آج کل کیا پالیسی ہے سرکاری خرچ پر حج عمرہ کرنے والوں کے بارے میں اور اپنی بیماریوں کا سرکاری خرچ پر علاج کرانے والوں کے بارے میں،جس زمانے میں جنرل پرویز مشرف بر سر اقتدار تھے وزارت حج کے سیکرٹری جناب وکیل صاحب تھے ایک بار مجھے اپنے ایک عزیز کے حج کوٹے کی بحالی کے سلسلے میں سیکرٹری حج جناب وکیل صاحب کی خدمت میں حاضر ہونا پڑا، یقیناً وہ ایک بڑے خوش اخلاق اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے انہوں نے متعلقہ کام تو نہیں کیا۔ بڑی صفائی سے معذرت کرلی تھی لیکن مدارت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ اس زمانے کی بات ہے جب آزاد کشمیر میں زلزلے کی تباہ کاری ہوچکی تھی اور امدادی سامان لاہور کے لنڈے بازار میں بیچا جا رہا تھا ابھی چائے کا دور چل ہی رہا تھا کہ وکیل صاحب کے فون پر ایک تاجر صاحب کا فون آیا اور انہوں نے اپنے کچھ افراد کو سرکاری کوٹے پر حج کرانے کی بات کی جس پر سیکرٹری وکیل صاحب نے انہیں بہت واشگاف الفاظ میں یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ جناب آپ جیسے لوگ بھی اگر زکوٰۃ کے سرکاری پیسوں سے لوگوں کو حج کرانے کی سفارش کریں گے تو عام لوگوں کا کیا ہوگا ما شاء اللہ آپ کی تو خود اتنی زکوٰۃ نکلتی ہوگی کہ درجنوں افراد کو حج و عمرہ کرا سکتے ہیں جانے دوسری طرف سے کیا کہا گیا وکیل صاحب نے شکریہ کہہ کر فون رکھ دیا، اس کے بعد میں نے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ بینک جو رقم آپ کے اور ہمارے اکائونٹ سے یکم رمضان کو زکوٰۃ کی مد میں منہا کرتی ہے وہی رقم ہمارے پاس ہوتی ہے جس سے سرکاری خرچ پر علاج معالجہ ہوتا ہے چاہے وہ اندرون ملک ہو یا بیرون ملک حکومت ہمیں الگ سے اس مد کے لیے کوئی فنڈ نہیں دیتی ایسے ہی سرکاری طور پر حج کرنے والوں کا سارا خرچہ اس ہی زکوٰۃ فنڈ سے خرچ ہوتا ہے اس پر میں نے کہا یہ تو آپ کی ذمہ داری ہے اللہ تعالیٰ کو آپ کیسے حساب دیں گے کیونکہ خرچ تو چاہے کسی کے حکم پر ہو رہا ہو کرا تو آپ رہے ہیں اس پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے آپ یہ درست کہہ رہے ہیں ہمیں نوکری بھی تو کرنا ہے اور رہی اللہ کی بات وہ سب کچھ اچھی طرح جانتا ہے یہ کام کم از کم میں تو کبھی بھی خوش دلی سے نہیں کرتا جو حکم آتا ہے اسے میں وزیر صاحب کو بھیج دیتا ہوں یا حکم دینے والے سے کہہ دیتا ہوں کہ لکھ کربھیجو ہر حکم وزیر صاحب کو بھیجا جاتا ہے وہی اس پر اپنا حکم صادر کرتے ہیں انہیں سب کچھ معلوم ہے۔
جو رقم بینک زکوٰۃ فنڈ کے نام پر اپنے اپنے کھاتے داروں سے منہا کرتے ہیں اس کا اصل مصرف تو غریب غربا ہیں جن کی بہبود و بھلائی اور فلاح پر خرچ ہونے والی رقم صاحب نصاب لوگوں پر خرچ کی جاتی ہے جو خود زکوٰۃ نکالنے کے اہل ہوتے ہیں زکوٰۃ کا درست مصرف نہیں ہو رہا۔ بے روزگاری، غربت، جہالت اور پسماندگی کو ختم کرنے کیلئے ان اربوں کے فنڈز کا استعمال کیا جاسکتا ہے ملک میں پھیلی غربت و بدحالی اگر ختم نہیں تو کم ضرور ہوسکتی ہے لیکن ہمارے حکمران اور نوکر شاہی دونوں ہی مفاد پرستوں پر محیط ہیں۔گزشتہ دنوں اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا ہمارے ایک بہت سینئر بیورو کریٹ دوست جو آج کل ریٹائر ہوچکے ہیں انہوں نے از خود ذکر نکالا کہ لوگوں کو شرم نہیں رہی جانے ہمیں کیا ہوگیا ہے حلال و حرام کو بھول گئے بس مال آنا چاہیے چاہے کیسے بھی آئے اور کیسا ہی ہو مال تو آخر مال ہی ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے کہ رشوت حرام ہے لیکن لینا ضروری ہے ہزاروں خواہشوں کو کیسے پورا کیا جاسکتا ہے حلال کی آمدنی سے تو ضروریات زندگی مشکل سے پوری ہوتی ہیں پھر سرکاری ملازم کو آخر ایک دن ریٹائرڈ بھی ہونا پڑتا ہے اس کے بعد کی زندگی کے لیے بھی تو آخر اس نوکری کے عرصے میں ہی بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ رہی سیاست دانوں کی بات تو وہ آتے ہی سیاست میں اس لیے ہیں کہ انہیں یہاں نام و نمود اور کاروبار کے لیے سہولتیں حاصل کرنا ہوتی ہیں اور میدان سیاست میں خرچ کیا ہوا سرمایہ بمع سود وصول کرنا ہوتا ہے ایمانداری سے تو اس کار خیر سے کچھ حاصل نہیں کیا جاتا جو ذرا مذہبی رجحان رکھتے ہیں چاہے وہ سیاست دان ہوں یا سرکاری ملازم گڑ تو کھاتے ہیں لیکن گلگلوں سے پرہیز کرتے ہیں ہمارے ایک ساتھی شراب کے بڑے رسیا تھے ایک بار ہم سرکاری کام سے یورپ گئے وہاں انہیں مفت کی ملتی تھی وہ خوب پیتے تھے ایک دن رات کے کھانے پر کسی دعوت میں شریک ہوئے میرے ساتھی پوری طرح ٹن تھے میں نے میز پر بیٹھتے ہی اپنے میزبان سے پوچھا کہ یہ ڈشز کس گوشت سے تیار کی گئی ہیں انہوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ آج کی دعوت کے لیے خصوصاً سور کے گوشت کا استعمال کیا گیا ہے میں تو فوراً ہی میز سے اٹھ گیا اور کھانا کھانے سے معذرت کرلی لیکن میرے ساتھی بھی اٹھے اور ان کا حال خالی لفظ سور سنتے ہی اتنا خراب ہوا کہ انہوں نے وہیں الٹیاں (قے) کرنا شروع کردیں اور مسلسل لاحول پڑھ رہے تھے میں نے حیرت سے پوچھا بھائی آپ کو کیا ہوا آپ تو شراب بڑے دھڑلے سے پیتے ہو وہ بھی تو حرام ہے تو پھر کیا ہوا سور بھی اتنا ہی حرام ہے جتنی کہ شراب۔ نہیں یار شراب، شراب ہوتی ہے اور سور تو سور ہے بالکل حرام ہے میں نے اس وقت ان سے بحث نہیں کی اور وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی کیونکہ کپڑے میرے بھی ان صاحب نے خراب کردئیے تھے مگر آج بھی برسوں گزرنے کے بعد یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آئی کہ شراب حرام ہونے کے باوجود جائز کیسے ہوگی اور سور کیوں حرام رہا یہ ایسی ہی بات ہے کہ رشوت کو ہم حلال سمجھ کر محنتانے کے طور پر حلال کرلیتے ہیں اور ایسے ہی کئی اور معاملات میں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کو جائز سمجھ لیتے ہیں اور بے دردی سے وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جس سے ہمیں فائدہ حاصل ہو رہا ہو چاہے اس کے بدلے کسی کی جان ہی کیوں نہ جارہی ہو ہم بحیثیت مسلمان نہ تو حقوق اللہ کا حق ادا کرتے ہیں اور نہ ہی ہم حقوق العباد پر کوئی توجہ دیتے ہیں بس ہماری آنکھوں پر چربی چڑھی ہوتی ہے ہمیں کچھ نظر نہیں آتا سوائے اپنے مفادات کے یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے وہیں کے وہیں چکرا رہے ہیں۔ بات ہو رہی تھی کیا اور کہاں جا پہنچی ہم جب اپنی جیب سے خرچ کر کے حج کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں تو پھر غریب غربا کو ملنے والی زکوٰۃ پر ڈاکہ کیوں ڈالیں ایسے ہی کروڑوں کی رقم ہوتے ہوئے ہم سرکاری خرچ پر اپنا علاج کیوں کرائیں۔ اللہ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے والا اور اپنی عبادات کو درست طریقے سے ادا کرنے والا بنا دے ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے، آمین۔

تازہ ترین