ہمارے شعرائے کرام کے ہاں عہد جوانی کا ذکر مختلف حوالوں سے ملتا ہے یہ دور یاد تو سبھی کو آتا ہے مگر اس کا تخلیقی اظہار اللہ کی دین ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں، عدیم ہاشمی نے کا تھا
یوں دبائے جارہا ہوں خواہشیں
جیسے اک عہد جوانی اور ہے
نجیب احمد کہتا ہے
یہ جوانی تو بڑھاپے کی طرح گزرے گی
عمر جب کاٹ چکوں گا تو شباب آئے گا
منیر نیازی نے کہا
کتاب زیست کا اک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا ،اک عذاب ختم ہوا
اور پیر و مرشد میر تقی میر کہتے ہیں
عہد جوانی رو رو کاٹا ،پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا
اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں اپنی عمر کا ہر دور بہت عزیز ہے۔ خوشیاں، غم، آنسو، قہقہے، کامیابیاں، ناکامیاں مجھے سب اچھی لگتی ہیں۔ مجھے جہاں اپنا عہد جوانی عزیز تھا وہاں عمر کا یہ حصہ بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ اصل بات وہ زاویہ نظر ہے جس سے آپ حالات و واقعات کو دیکھتے ہیں، اگر آپ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیں تو اس کے لئے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس ہی کافی ہے اور اگر ناشکری پر اتر ائیں تو آب حیات بھی آپ کو ناکافی نظر آئے گا، اگر خوش ہونا چاہیں تو بہت معمولی باتیں بھی آپ کو خوشی دے سکتی ہیں اور اگر آپ نے اداس رہنے کا تہیہ کر رکھا ہے تو بڑی سے بڑی خوشی بھی آپ کے رستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
میں دراصل آج اپنے عہد جوانی کی شوخیاں یاد کرنا چاہتا تھا اور یہ جو میں نے ابھی تمہید باندھی تھی وہ یقینا بلاوجہ تھی، تاہم میرا مقصد غالباًاسٹارٹ لینا تھا جو میں لے چکا ہوں، سو اپنے طالبعلمی کے زمانے میں میرا ایک دوست تھا جسے ہم مرزا مرزا کہتے تھے۔ ایک دفعہ میں چند روز کے لئے کالج نہ گیا تو اس نے میرے اور اپنے مشترکہ دوستوں کے سامنے کف افسوس ملتے اور آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے بتایا کہ عطاء گزشتہ روز اچانک قضائے الٰہی سے انتقال کرگیا ہے۔ اس پر دوستوں میں صف ماتم بچھ گئی (یہ میرا خیال ہے) مگر اگلے روز جب میں کالج پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے(یہ بھی میرا اپنا خیال ہے)اور انہوں نے مجھے مرزا کی کار گزاری سے آگاہ کیا۔اس وقت میں خاموش رہا لیکن اس واقعہ کے ایک سال بعد میں انتہائی غم زدہ چہرہ لئے کالج پہنچا اور دوستوں کو اس دردناک حادثے کی اطلاع دی کہ مر زا اپنی زمینوں پر گاؤں گیا ہوا تھا وہاں ایک اڑیل گھوڑے پر سواری کے دوران اس کا ایک پاؤں زین کے پائیدان میں پھنس گیا اور وہ کئی سو میٹر زمین پر رگڑ یں کھاتا بالآخر اپنے خالق حقیقی سے جاملا۔ میرا جی تو چاہتا تھا کہ مرزا کو اس سے بھی زیادہ دردناک طریقے سے ماروں لیکن اس وقت میری تخیل کی پرواز اتنی ہی تھی۔ یہ خبر سن کر پریشان تو سبھی دوست ہوئے لیکن مرزا کے ایک انتہائی قریبی دوست انوار نے تو زارو و قطار رونا شروع کردیا۔ اس نے اسی وقت سائیکل پکڑی اور مرزا کے گھر پہنچ گیا۔ دستک دینے پر مرزاکا چھوٹا بھائی باہر نکلا انوار نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا”بے حد افسوس ہوا اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطاء فرمائے“اتفاق سے ان کے کسی عزیز کا چند روز پہلے انتقال ہوا تھا، چنانچہ مرزا کے بھائی نے کہا”اللہ کو یہی منظور تھا“اس پر انوار نے ”مرحوم“کی صفات بیان کرنا شروع کیں اور اس کسرتی جسم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا”کیا باڈی تھی“ اللہ جانے کیا وجہ تھی کہ مرزا کے بھائی کو یہ تعریف اچھی نہیں لگی اور اس نے انہیں دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ وجہ ہمیں بعد میں معلوم ہوئی مگر اس کا یہاں ذکر چنداں ضروری نہیں۔
میں جس کالج کا طالبعلم تھا حسن اتفاق سے اس کالج میں میری تعیناتی بطور لیکچرار ہوئی وہاں میرے ایک کولیگ تھے ۔میری ہی طرح کم رُو، پستہ قد اور چہرہ بہت وسیع و عریض لگتا تھا یہ انہوں نے بعد میں لگوایا ہے۔ موصوف شاعر بھی تھے ،صرف شاعر نہیں بلکہ شاعری میں عجیب و غریب تجربات بھی کرتے رہتے تھے ،چنانچہ میں کہا کرتا تھا کہ آپ شاعر نہیں سائنسدان ہیں جس پر وہ اپنی معصومیت کی وجہ سے بہت خوش ہوتے تھے۔ ایک دن وہ کالج آئے تو سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور پٹی پر تازہ خون نظر آرہا تھا ،وہ کہیں سائیکل سے گر گئے تھے جس کے نتیجے میں انہیں یہ چوٹیں آئی تھیں۔ سٹاف کے بہت سے لوگ ان کے کمرے میں جمع تھے اور ان سے اظہار ہمدردی کررہے تھے۔ میں کمرے میں داخل ہوا اور انہیں مخاطب کرکے کہا ”اوہو آپ کو تو بہت چوٹیں آئی ہیں، کیا مشاعرہ پڑھ کر آرہے ہیں؟“اس پر وہ شدید غصے کی حالت میں میری طرف لپکے مگر میں ان دنوں کافی تیز دوڑ سکتا تھا، عہد جوانی یونہی تو یاد نہیں آتا۔
مجید نظامی صاحب نے جب نوائے وقت سے علیحدگی کے بعد ندائے ملت نکالا تو میں ان کے ساتھ ندائے ملت میں چلا گیا۔ وہاں شروع شروع میں تنخواہیں وقت پر نہیں ملتی تھیں اور جب ملتی تھیں تو قسطوں میں ملتی تھیں۔ اس کے لئے بھی اخبار کے جنرل منیجر رانا نور پرویز کے دفتر میں انہیں سلام کرنے جانا پڑتا تھا اور ان کی حسب توفیق تعریف و توصیف کرناپڑتی تھی۔ ایک روز طبیعت ہجو گوئی پر مائل ہوئی تو میں نے چند شعر لکھ کر اس کی کاپیاں سارے دفتر میں تقسیم کردیں اور ایک کاپی مجید نظامی صاحب کو بھی بھیج دی۔ یہ مجید صاحب کی خوش ذوقی تھی کہ وہ میرا کلام بلاغت نظام پڑھ کر بدمزہ نہ ہوئے بلکہ ایک اطلاع کے مطابق انہوں نے اس کی داد بھی دی ، وہ شعر یہ تھے۔
کل رات قرض خواہوں کو مشکل سے ٹال کر
دفتر جو پہنچے سب نے دی تنخواہ کی خبر
تنخواہ لینے پہنچے تو بولا یہ کیشیئر
فی الحال کتنے پیسوں میں ہوجائے گی گزر
میں نے کہا کہ میرا تو جینا عذاب ہے
ہاتھوں سے قر ض خواہوں کے مٹی خراب ہے
ہنس ہنس کے کیشیئر نے میری داستاں سنی
پھر یہ دیا جواب کہ اب چھوڑ شاعری
بنتے ہیں چار سو تیرے فی الحال چار رکھ
”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ“