• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات کوئی راز نہیں کہ وطن عزیز کی سلامتی کوجو سنگین خطرات درپیش ہیں وہ بنیادی طور پر مندرجہ ذیل تین وجوہات کی بناپر ہیں 1۔ گزشتہ 16برسوں سے امریکی حکمت عملی کے تحت دہشت گردی کی جنگ لڑتے چلے جانا حالانکہ نائن الیون کے فوراً بعد ہی یہ بات عیاں ہوگئی تھی کہ اس جنگ کا امریکی ہدف خود پاکستان بھی ہے۔
2۔ وفاق اور چاروں صوبوں کا ایسی معاشی ومالیاتی پالیسیاں اپنانا اور برقرار رکھنا جن کے نتیجے میں قومی دولت لوٹنے والوں اور ٹیکس چوری کرنے والوں کو نہ صرف ناجائز مراعات ملتی رہیں بلکہ ان کی ناجائز دولت کو قانونی تحفظ بھی ملتا رہے۔ چنانچہ انسداد کرپشن کے بجائے احتساب کے نظام کو ہی مزید غیر موثر اور غیر شفاف بنا دیا گیا ہے۔
3۔ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی ، بچتوں کی شرح اور ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کے بجائے ملکی وبیرونی قرضوں،بیرونی امداد اور بیرونی ملکوں سے آنے والی ترسیلات پر انحصار بڑھانا کیونکہ ملکی وسائل بڑھانے کے لئے جو اقدامات اٹھانا ضروری ہیں ان سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہوتے ہیں۔
یہ بات روز اول سے ہی واضح رہی ہے کہ اس جنگ میں معاونت تباہی اور خسارے کا سودا ہے۔ اس جنگ سے پاکستان کی سلامتی ومفادات کوچند خطرات کا انکشاف کچھ روز قبل ہی حکومت نے کیا ہے ۔ حقیقت بحرحال یہ ہے کہ ان سمیت متعدد دوسرے خطرات کے شواہد نہ صرف نائن الیون کے فورا بعد نظر آگئے تھے بلکہ ان میں سے بیشتر اب سے سات برس قبل ہی حقیقت کاروپ بھی دھار چکے تھے ۔ گذشتہ 16برسوں میں ہم نے ان ہی کالموں میں کہا تھا :
1۔ افغانستان پر امریکی حملوں کا بنیادی مقصد دہشت گردی کا خاتمہ کرنا نہیں بلکہ اصل ہدف ( پاکستان سمیت) عالم اسلام ہے (16اکتوبر2001)
2۔ امریکہ کی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ افغانستان یا اس کے صرف ایک حصے پر خواہ ناپائیدار ہی صحیح مگر ایک من پسند حکومت مسلط کردی جائے اور وہاں امریکی فوجیں مستقل طور پر رکھی جائیں ۔ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کو جو نقصانات اٹھانا پڑسکتے ہیں وہ امریکی مراعات کو خسارے میں بدل دیں گے ( جنگ 30اکتوبر2001
3۔ امریکہ خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرناچاہتا ہے جس سے کشمیرکازکوبھی نقصان ہوگا ۔( جنگ ، 26فروری2002)
4۔ امریکہ یا بھارت اور اسرائیل کا ( پاکستان کے خلاف) گٹھ جوڑ اور افغانستان کے تعاون سے ان کی ریشہ دوانیاں واضح ہوچکی ہیں( 23ستمبر2003)
5۔ جوں جوں اس جنگ میں امریکہ کو پاکستان کی مدد کی ضرورت کم ہوتی جائے گی اس کا رویہ بدلتا جائے گا(جنگ20ستمبر2005)
6۔ امریکی حکومت اور اس کےادارے وتھنک ٹینک ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچارہے ہیں (3اپریل2007)
7۔ دہشت گردی کی جنگ میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لینے کی وجہ سے وطن عزیز میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں جن کے نتائج کا سوچ کر روح بھی کانپ جاتی ہے ( یکم مئی2007) اس تحریر کے چند ماہ بعد لال مسجد آپریشن اور بے نظیر کی شہادت کا سانحہ ہوا۔
8۔ امریکی افواج پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوسکتی ہیں۔(جنگ11مئی2010) اس تحریر کے ایک برس کے اندر امریکہ نے ایبٹ آباد میں فوجی آپریشن کردیا۔
اس پس منظر میں یہ بات افسوناک ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی دہشت گردی سے جنگ امریکی ایجنڈے کے مطابق ہی لڑی جاتی رہی ہے۔ ہم نے اب سے تین برس قبل ان ہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ استعماری طاقتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے ، اہم ریاستی اداروں اور عوام میں اعتماد کا بحران بڑھے، معیشت میں بگاڑ آئے اور حکومت کمزور ہو( جنگ11ستمبر2014) گزشتہ تقریباًڈیرھ برس سے ایک حکمت عملی کے تحت پاناما اسکینڈل کو پاکستان میں اوڑھنا بچھونا بنالیا گیا ہے جس سے ملک عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہوا ، ریاستی اداروں میں تناو کی کیفیت بڑھی، ادارے کمزور ہوئے ، معیشت میں تیزی سے مزید خرابیاں پیدا ہوئیں اور عوام میں مایوسی وبددلی بڑھی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس ہیجانی کیفیت کو پاکستان مخالف پالیسی بیان دینے کے لئے منتخب کیا۔ حکومت اور قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ پالیسی بیانات سے یہ تاثر ابھررہا ہے کہ ہم افق پر ابھرتے ہوئے خطرات کی سنگینی کوپوری طرح تسلیم نہیں کرپا رہے ۔
اب سے 8برس قبل ہم نے ان ہی کالموں میں لکھا تھا کہ 25نومبر2009کو امریکہ اور بھارت کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کوتباہ کرنے میں عملی تعاون کریں گے (جنگ8دسمبر 2009) ایران نے کچھ عرصہ قبل اپنی یہ دھمکی دہرائی ہے کہ اس کی افواج پاکستان میں داخل ہوکر کارروائیاں کرسکتی ہیں۔ امریکہ بھارت اور افغانستان گٹھ جوڑ کے نتیجے میں افغانستان کے ساتھ ہماری مغربی سرحد غیر محفوظ ہوگئی ہے ۔ ایران نے بھارت ، ایران اور افغانستان کے درمیان ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور تجارتی راہداری کے معاہدے پر کچھ عرصہ قبل دستخط کئے ہیں۔ اس سے بھارت کو افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی مل جائے گی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان دینے کے لئے تیار نہیں تھا ۔ اس سے افغانستان کا پاکستان پر انحصار بھی کم ہوجائے گا۔ افغانستان کے صدر نے4جولائی2017کوفخریہ کہاکہ اب پاکستان پر تجارتی انحصار نہیں رہا ۔
امریکہ کوخطے میں اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے لئے اب بھی پاکستان کی مدددرکار ہے چنانچہ وہ فی الحال پاکستان کا غیر نیٹو اتحادی درجہ ختم کرسکتا ہے ، ڈرون حملوں میں اضافہ کرسکتا ہے ، عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز کو منفی اشارے دے سکتا ہے ۔ یہ خطرہ بھی ہے کہ خطے کے کسی ملک میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی کروا کر اس کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جاسکتا ہے ۔ کچھ بیرونی طاقتیں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائی کرانے اور بلوچستان میں پاکستان مخالف جذبات ابھارنے کے لئے متحرک نظر آرہی ہیں۔ سی پیک کے خلاف بھی سازشیں ہورہی ہیں۔ پاکستانی معیشت کا صرف4ملکوں سے آنے والی ترسیلات پر انحصار بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ خدشہ ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ اقدامات کی آڑ میں امریکہ ان ترسیلات میں تیزی سے کمی کراسکتا ہے جو ہماری معیشت سنبھال نہیں پائے گی ۔ پاکستان کے مفادات کے تحفظ اور معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ہم نے اپنے 8ستمبر2017کے کالم میں تجاویز پیش کی ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرناہوگا کہ آنے والے برسوں میں امریکہ کارویہ مذید معاندانہ ہوجائے گا چنانچہ یہ ازحد ضروری ہے کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاکر معیشت کو پائیدار بنیاد پر مستحکم کرلیا جائے ۔ اس ضمن میں اقدامات اٹھانے کے لئے وفاق اور چاروں صوبے تیار نہیں ہیں جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے تواتر سے یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان کے خلاف اقدامات اور پالیسیوں سے امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچے گا ۔ اس ’’ معصومانہ ردعمل‘‘ کے نتائج پریشان کن ہونگے نیوگریٹ گیم کے مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ ہر قیمت ادا کرنے کے لئے تیار نظر آتا ہے۔ ہم تو یہی کہیں گے ’’ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑتو‘

تازہ ترین