• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمالی سندھ میں ابھی پت جھڑ کا موسم آنا ہی چاہتا تھا کہ اسی ستمبر کی ایک دوپہر المرتضیٰ لاڑکانہ میں قیلولہ لیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو اس کے بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو نے نیند سے جگایا کہ ڈرائنگ روم میں ایک بریگیڈیئر بیٹھا ہے جو اسے لینے آیا ہے۔ بس یہی وہ دوپہر تھی جب اس نے اپنے باپ کو آخری بار دیکھا ۔ اس سے قبل یہ جون انیس سو تہتر تھی جب بھٹو فیملی کے تمام بچے گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک جگہ اور ایک وقت جمع ہوئے تھے۔ بینظیر عرف پنکی، اس سے صرف ایک سال چھوٹا مرتضیٰ عرف میر، صنم عرف سنی اور چھوٹا شاہنواز عرف شاہ۔
مرتضیٰ کا نام اپنے پڑ دادا غلام مرتضیٰ پر تھا کچھ لوگ کہتے ہیں جو بھٹوئوں کے اس وڈیروں کے خاندان میں سب سے زیادہ خود سر تھا اور ایک انگریز عورت سے معاشقے میں اسے ’’بھگا‘‘ کر لے گیا تھا اور ایک بڑے عرصے تک ملک بدری و دربدری میں رہا ۔ یہی دن تھے جب اس خاندان کا لیاری سے رشتہ ہوا ہوگا کہ انگریزوں کی حکمرانی کے دنوں میں انگریز عملدار کی بیوی کے ساتھ بھاگنے والے شخص کو پہلی پناہ شاید غلام محمد شیدی نامی ایک شخص نے دی تھی جسکا تعلق لیاری کے علاقے کھڈا سے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دادا اور شاہنواز بھٹو کے والد غلام مرتضیٰ خان کے انگریز عورت سے معاشقے کے علاوہ کئی شادیاں تھیں جن سے ایک میں سے شاہنواز پیدا ہوئے تھے۔
پدرانہ اور جاگیردارانہ سندھ کے بڑے خاندان میں بڑے بیٹے کی حیثیت میں میر مرتضیٰ بہت ضدی، خودسر، اپنی بات منوانے اور ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینے والا بچہ ثابت ہوا تھا پھر جیسے اس کی بیٹی فاطمہ نے ایک انٹرویو میں کہیں کہا ہے وہ اپنی ڈیسک کو بھی کسی کو چھونے نہیں دیتا تھا۔ لیکن بقول بینظیر بھٹو وہ گائوں اور لاڑکانہ میں وڈیروں کی طرح فیصلے بھی کیا کرتا۔ بینظیر بھٹو کی سوانح نگار اینا سووروا کے بقول جب یہ بہن بھائی چھوٹے تھے تو الماریوں میں چھپ کر سگریٹ پیا کرتے اور اپنے سروں پر گیلے تولیے اور ہاتھوں پہ دستانے پہنا کرتے تاکہ تمباکو کی بو ان کے بالوں اور ہاتھوں پر نہ رہے۔ مرتضیٰ بھٹو بینظیر سے فقط ایک سال چھوٹا تھا۔ بقول ان کے قریبی لوگوں کے کہ دونوں بہن بھائیوں میں مخاصمت بچپن سے ہی تھی۔ بقول بے نظیر بھٹو کی سوانح نگار کے کہ بھٹو خاندان کے ہر بچے کا اپنا نوکر اور اپنی الگ الگ آیا تھی اور مرتضیٰ کی اپنی گھر میں پرورش ’’سب سے بڑے بیٹے کی طرح‘‘ ہوئی تھی۔ جس طرح جاگیردار گھرانوں میں ہوا کرتی ہے کہ پگدار بیٹا۔
مرتضیٰ بھٹو نے مجھے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس کے والد کی طرف سے پہلا سیاسی ’’مشن‘‘ انیس سو ستر کے انتخابات کے بعد اس وقت کے فوجی آمر یحییٰ خان کی جنتا کے دو قریبی اراکین جنرل پیرزادہ اور جنرل عمر (موجودہ گورنر سندھ کے والد) کے پاس پیغام لے کر جانا تھا۔ 70ء کے انتخابات میں لاڑکانہ اور آس پاس کے اضلاع میں پیر پگارا کے کئی حروں نے ووٹ پی پی پی کو دیا تھا جس پر بھٹو نے ’’کچا حر‘‘ اور ’’پکا حر‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی تھی۔
لیکن مرتضیٰ بھٹو کی عوامی منظرنامے پر پہلی سیاسی سرگرمی لاڑکانہ کے بھٹو کے حلقے میں انتخابی مہم تھی جس میں اس نے پی پی پی کی سندھ میں ذیلی تنظیم سپاف یا سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی رکنیت بھی بھری تھی۔ اس زمانے کے کئی پرانے لاڑکانہ کے سیاسی کارکنوں کو اب بھی یاد ہے کہ ایک استقبالیہ اسے ممتاز بھٹو کے دوست اور لڑاکو مرغوں کے خفتی (خفت کی حد تک شوقین) مقامی وڈیرے عبدالرحمان لاکھو کی مشین پر دیا گیا تھا۔
مرتضیٰ بھٹو جس نے ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے انڈر گریجویشن (کہ بھٹو کے تینوں بچے سوائے شاہنواز کے ہارورڈ پڑھنے آئے) کرنے والا مرتضیٰ بھٹو آکسفورڈ میں ماسٹرز کر رہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ ضیاء الحق نے الٹا اور مرتضیٰ کو اپنی ڈگری نامکمل ختم کرنا پڑی۔ کہتے ہیں کہ ماسٹرز میں مرتضیٰ کا تھیسز پاکستان کے نیوکلیئر بم سےمتعلق تھا اور ہارورڈ کے زمانے میں(بینظیر بھٹو کی سوانح نگار نے لکھا ہے) کہ مرتضیٰ نے امریکی سیاسی دانشور سیموئیل ہنٹنگ ٹن، جس نے 1993میں اپنا مشہور نظریہ ’’تہذیبی ٹکرائو‘‘ یا کلیش آف سولائزیشن دیا، کو ’’ویتنام کا قصائی‘‘ لکھا تھا۔ سیموئیل ہنٹنگ ٹن اس وقت ہارورڈ میں سیاسی علوم کا ڈائریکٹر تھا جو بعد میں صدر جمی کارٹر کا مشیر بھی بنا۔
کس نے جانا تھا کہ جانوروں کا شکار کرنے والا لیکن ہارورڈ اور آکسفورڈ میں پڑھنے والا میر مرتضیٰ بھٹو بندوق کی سیاست کرنے کا راستہ لے گا اور پھر اپنے ہی گھر سے چند سو گز کےفاصلے پر مارا جائے گا۔ ایک ایسا راستہ جو بینظیر بھٹو کے راستے سے بہت مختلف ہوگا۔ ’’ان کی کمزوری بندوق ہے اور ہمارا طاقتور ہتھیار امن اور عدم تشدد ہے ‘‘بے نظیر بھٹو نے اپنی پارٹی کے طالب علم رہنما فقیر اقبال ہیسبانی کے قتل کے موقع پر کہا تھا۔
مرتضی بھٹو نے مجھے بتایا تھا کہ اس کے جسم پر ناکام قاتلانہ حملوں میں لگنے والے بم کے ٹکڑے اور گولیاں اس کی اصل تعلیمی ڈگریاں ہیں۔ ایسے کئی ناکام حملے شاہنواز پر بھی ہوئے تھے۔ ایک حملے میں تو مرتضیٰ کی سالگرہ والے دن یورپ میں اسے کیک بظاہر اس کی دہشت گرد تنظیم الذوالفقار کے ہی ساتھی کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ وہ پہلے بلی کو کھلایا گیا جو موقع پر ہی ہلاک ہوگئی ۔اس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ اپنے والد کے حکم پر ہی ان دونوں بھائیوں نے ملک چھوڑا اور لندن میں اپنے اسیر اور معزول وزیر اعظم والد کی جان بچانے کو کمیٹی قائم کی تھی۔ جس میں بھٹو برادران کے علاوہ غلام مصطفیٰ کھر، جام صادق علی، نیّر حسین ڈار سمیت کئی لوگ شامل تھے۔ ’’بعد میں افغانستان بھی ہم لوگ اپنے والد کے حکم پر چلے گئے کہ اس کی خواہش تھی کہ ہم لوگ اپنی جدوجہد ہمسائے ملک سے شروع کریں اور اس کے لئے افغانستان ہی بہتر ملک تھا،‘‘ میر مرتضیٰ نے مجھے ،میرے دوست اور صحافی اویس توحید کو المرتضیٰ میں اسی انٹرویو کے دوران بتایا تھا۔ الذوالفقار پوری ایک تاریخ ہے۔ خوفناک اور المناک بھی۔ تو ریاستی تشدد کا جواب گوریلا دہشت پسندی سے دینے میں یقین رکھنے والوں کیلئے ایک مہم جوئی بھی۔ فوجی آمر ضیاء الحق پر دو مرتبہ جانی حملہ جس میں ایک شہر راولپنڈی سے اس کے طیارے پر ناکام میزائل داغے جانا شامل ہے اور لوگ اعظم جٹ اور ان جیسوں کی جی داری کے قصے بڑے شوق سے سناتے ہیں۔ نیز یہ بھی کہ ایک بار نوجوان شاہنواز بھٹو کو بم کی جھوٹی اطلاع کے الزام میں لندن پولیس نے گرفتار کیا تھا جس کی غالباً ضمانت جام صادق علی نے کروائی تھی۔ یہ بات مجھے نیّر حسین ڈار نے بتائی۔
لیکن ایسی کئی دہشت پسندانہ کارروائیاں تھیں جو مرتضیٰ کے ساتھیوں نے نہیں کی تھیں لیکن مرتضیٰ نے اس کا کریڈٹ لینے کو ایسی وارداتوں کے دعوے کئے تھے۔ ایسی کارروائیوں میں چوہدری ظہور الٰہی کا کہتے ہیں قتل بھی تھا جس کا دعویٰ مرتضیٰ نے کیا تھا اس میں جو نوجوان پھانسی چڑھے تھے وہ شامل ہی نہیں تھے لیکن ان سے زبردستی اعتراف کروایا گیا تھا۔ چوہدری ظہور الٰہی کو قتل شاید ان قوتوں نے کروایا تھا جنہوں نے گھیر گھار کر مرتضیٰ کو واپس لاکر قتل کروایا۔ پاگل کرے بات سیانے کریں بچار۔ تو پس عزیزو! کہیں کہیں لیاری کی دیواروں پر آج بھی یہ نعرہ کندہ ہے’’مرتضیٰ جلدی‘‘ ’’مرتضیٰ آیا، چھایا اور قتل ہوا‘‘

تازہ ترین