• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

17ستمبر کو این اے 120میں جو انتخابی معرکہ بپا ہوا، وہ ایک علامتی حیثیت اختیار کر گیا ہے کہ اِس میں جو حقائق، رجحانات اور سیاسی قائدین اور اسٹیبلشمنٹ کے طورطریق سامنے آئے ہیں، وہ ان خطرات کی نشان دہی کرتے ہیں جو آنے والے دنوں میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کو لاحق ہو سکتے ہیں۔ اِس ضمنی انتخاب سے پہلے بہت بڑا قانونی اور عوامی حلقہ اِس تاثر کا اظہار کر رہا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی فاضل بنچ نے جس بنیاد پر جھوٹا اور خائن قرار دیا، وہ بنیاد بہت کمزور ہے۔ صاحبانِ فہم و فراست یہ بھی کہہ رہے تھے کہ جن طاقتوں نے اُنہیں حقِ حکمرانی سے محروم کیا ہے، وہ ضمنی انتخاب میں ان کی جماعت کو فتح یاب ہونے نہیں دیں گی اور اس کے حصے بخرے کر کے دم لیں گی۔ اس اعتبار سے مسلم لیگ کی قیادت کے لیے یہ الیکشن ایک گمبھیر چیلنج بن گیا تھا،چنانچہ بیگم کلثوم نواز کو انتخابات میں اُتارنے کا فیصلہ ہوا جن کے لیے پوری جماعت میں جنرل پرویز مشرف کی بہیمانہ آمریت کے خلاف شاندار جدوجہد کی بدولت بڑا احترام پایا جاتا ہے۔ جناب نوازشریف اور ان کے قریبی رفقا اس بات پر مصر تھے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی ناانصافیوں کو انتخابی مہم کے دوران موضوعِ گفتگو بنایا جائے۔ غالباً شہبازشریف، چوہدری نثار علی خاں اور حمزہ شہباز اِس حکمتِ عملی سے اتفاق نہیں کرتے تھے، اِس لیے سابق وزیراعظم کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کو تن تنہا انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری اُٹھانا پڑی۔ بعض اخباری رپورٹوں کے مطابق پی ٹی آئی کی اُمیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو ’نادیدہ قوتوں‘ نے انتخاب میں بلے کی کامیابی کا مژدہ سنا دیا تھا اور اِسی بنیاد پر جناب عمران خاںنے ضمنی انتخاب کو عدلیہ کے حق میں ریفرنڈم قرار دیا تھا۔
اس ضمنی انتخاب میں تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ نون دونوں ہی کے اندازے درست نکلے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے 2013ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے، مگر ’نادیدہ قوتیں‘ اُنہیں کامیابی سے ہمکنار نہ کر سکیں، حالانکہ اُنہوں نے نون لیگ کے ووٹ تقسیم کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے اور ووٹ ڈالنے کے عمل کو سست روی کا شکار کیے رکھا اَور 44 اُمیدواروں پر مشتمل بیلٹ پیپر میں محترمہ کلثوم نواز کا نام تلاش کرنا مشکل بنا دیا جو غالباً 33ویں نمبر پر تھا۔ اِس تناظر میں نون لیگ کی جیت ایک بہت بڑے کارنامے سے کم نہیں تھی، مگر اس کی قیادت کی توقع کے برعکس ووٹر جوق درجوق گھروں سے باہر نہیں نکلے اور بارہ بجے تک قابلِ ذکر سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نون لیگی کارکنوں کے لیے ووٹروں کو یہ سمجھانا مشکل تھا کہ وزیراعظم کا حلقہ اِس قدر پسماندہ کیوں ہے اور یہاں گلیوں اور سڑکوں پر پانی کیوں کھڑا رہتا ہے۔ اِس کے علاوہ اخبارات میں اِس نوع کی رپورٹیں شائع اور ٹی وی چینلز پر نشر ہوئیں کہ ووٹر اگر شیر کی پرچی پولنگ اسٹیشن پر لے کر جاتے تھے، تو انہیں کہا جاتا تھا کہ آپ کا ووٹ درج نہیں۔ وہی شخص واپس آ کر بلے کی پرچی لے کر جاتا، تو اسے ووٹ ڈالنے میں اعانت فراہم کی جاتی۔ نون لیگ کے ووٹروں کو اُٹھا لینے کی پُراسرار داستانیں ابھی تک ارتعاش پیدا کر رہی ہیں اور انتخاب میں غیر قانونی مداخلت کی دہائی دے رہی ہیں۔ماضی میں شفاف انتخابات کے لیے سیاسی جماعتیں مطالبہ کیا کرتی تھیں کہ وہ عدلیہ اور فوج کہ نگرانی میں کرائے جائیں۔ بدقسمتی سے حلقہ 120کے ضمنی انتخاب میں یہی دونوں ادارے متنازع بنا دئیے گئے ہیں جن کا اعتبار قائم رکھنا قومی نقطۂ نگاہ سے حددرجہ ناگزیر ہے۔
یہ اطمینان کی بات ہے کہ ضمنی انتخاب بڑی حد تک پُرامن ماحول میں اختتام پذیر ہوا، حالانکہ جذبات کو بھڑکانے والے عوامل بڑے سرگرم تھے۔ لبیک پاکستان کے کارندے وقفے وقفے سے نوازشریف کو ممتاز قادری کا قاتل قرار دیتے رہے جبکہ ملی مسلم لیگ کے پُرجوش کارکن بھارت کا جو یار ہے پاکستان کا غدار ہے کے نعرے لگاتے رہے۔ یہ دونوں جماعتیں تقریباً گیارہ فی صد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ غالب امکان ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں یہ جماعتیں بھرپور تیاری کے ساتھ حصہ لیں گی اور ووٹوں پر اثرانداز ہوں گی جس کے قومی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں کو ایک نیا چیلنج درپیش ہو گا اور انہیں اپنی طاقت کو مجتمع رکھنے کے لیے تدبر اور فراست سے کام لینا ہو گا۔ پیپلز پارٹی جو ایک زمانے میں پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا درجہ رکھتی تھی، وہ پنجاب میں اپنا اثرورسوخ کھوتی جا رہی ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کے اُمیدوار کو ضمنی انتخاب میں صرف 1414ووٹ ملے ہیں جو بڑی تشویش کی بات ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کو ضعف پہنچنے سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایک زمانے میں جماعت اسلامی قوم کو فکری غذا فراہم کرنے کے علاوہ انتخابات میں قابلِ ذکر ووٹ بھی حاصل کرتی تھی۔ ضمنی انتخاب میں اس کی کارکردگی بڑی مایوس کُن رہی۔ اس پر سوال اُٹھ رہا ہے کہ اس کی قیادت کو اپنی حکمتِ عملی کا کڑا جائزہ لیتے ہوئے ایک حقیقت پسندانہ اور اپنے اوّلین مقاصد سے ہم آہنگ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
مسلم لیگ نون جو اس وقت گوناگوں مشکلات سے دوچار ہے، اسے نوشتۂ دیوار پڑھتے ہوئے بلند حوصلگی، کشادہ ظرفی اور دانش مندی کا ثبوت دینا ہو گا کہ وہ دوسری جماعتوں کے ساتھ مفاہمت اور تعاون کے ذریعے پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکال سکتی اور عوام کی خوشحالی کے نئے نئے در وا کر سکتی ہے، مگر اس کی قیادت کے اندر کشمکش جاری ہے۔ یہ کشمکش توازن اور اعتدال کی راہ اپنانے سے ختم کی جا سکتی ہے۔ بلاشبہ وزیراعظم جناب نوازشریف کے ساتھ جنرل پرویز مشرف نے جو اہانت آمیز سلوک روا رکھا، اسے بھلا دینا کچھ سہل نہیں اور اس کی تلخ یادیں اُن کی قوتِ فیصلہ پر بھی اثرانداز ہوتی رہی ہیں، لیکن اُنہیں قوم کے عظیم تر مفاد میں فوج کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا اور شکوک و شبہات کی تنگ گلی سے باہر آ جانا چاہیے۔ ہماری فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے پچھلے دنوں پارلیمانی کمیٹی سے گفتگو کرتے ہوئے کھلے دل سے کہا ہے کہ میرے سابق وزیراعظم نوازشریف سے بھی اچھے روابط تھے اور موجودہ وزیراعظم کے ساتھ بھی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ خارجہ اور دفاعی پالیسیاں تشکیل دے اور ہم اس پر عمل درآمد کی ضمانت دیں گے۔ یہ بھی کہا کہ ہم بھارت اور افغانستان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اس سے قبل ان کا یہ اعلان بہت حوصلہ افزا تھا اور اپنے اندر گہری معنویت رکھتا تھا کہ جہاد کا اعلان صرف ریاست کر سکتی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ہم اپنی سرزمین پر کسی جماعت کو اپنے طور پر جہاد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان کا یہ دوٹوک اعلان بھی مستقبل کی صورت گری میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے کہ پاناما مقدمے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان تمام حوالوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قانون کی عمل داری اور دستور کی بالادستی کا عمل مشترکہ طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ نون کی قیادت میں ممکنہ انتشار کو روکنے کے لیے جناب نوازشریف اور ان کے خاندان کو نیب کی عدالتوں میں پیش ہو کر پوری تیاری کے ساتھ قانونی جنگ لڑنی چاہیے۔ انکسار اور عاجزی میں بے پایاں قوت ہے اور جناب شہبازشریف پارٹی کا نہایت بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ ان کی صدارت میں مسلم لیگ نون ایک ناقابلِ تسخیر سیاسی طاقت ثابت ہو گی اور خاندانی تعلقات بھی ارتقا پذیر ہوں گے۔ محترمہ مریم نواز کو ہارڈلائنر کے بجائے ایک معتدل اور متوازن شخصیت کا تاثر دینا چاہیے کہ وہ ان کی قیادت سازی میں اہم کردار ادا کرے گی۔

تازہ ترین