• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے تھر میں پاور پلانٹ اور مائننگ پروجیکٹ کا 50 فیصد کام مکمل ہونے پر وہاں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں ہونے والی تقریب کی کوریج کے لئے کراچی سے 30 سے 40 صحافیوں‘ کیمرہ مینوں اور فوٹو گرافروں کی ایک ٹیم تھر گئی ہوئی تھی‘ میں بھی اس ٹیم میں شامل تھا‘ گزشتہ کالم میں ان پروجیکٹس کی وجہ سے تھر میں ہونے والی شاندار ترقی کی کچھ تفصیلات پیش کی گئی تھیں جبکہ آج کے کالم میں ملک‘ اس کی معیشت اور عوام کے لئے ان پروجیکٹس کی اہمیت پر چند حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلے میں پروجیکٹ اور حکومت سے منسلک مختلف اعلیٰ حلقوں کی طرف سے ملنے والی معلومات کے مطابق مائننگ پروجیکٹ اور پاور پلانٹ پروجیکٹ پر دو بلین ڈالر خرچ ہوں گے‘ پاور پلانٹس دو قائم کیے جارہے ہیں جن میں سے ہر ایک پلانٹ 360 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا‘ پلانٹ جون 2019 ء سے بجلی تیار کرنا شروع کردیں گے‘ اس وقت نہ فقط مائننگ پروجیکٹ اور پاور پلانٹس کا 50فیصد کام مکمل ہوچکا ہے مگر تھر کے اس پلانٹ سے حیدرآباد کے نزدیک مٹیاری کے پاس ٹرانسمیشن لائن بچھانے کا کام بھی مکمل ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی اہم حقائق معلوم ہوئے ہیں کہ جب جون 2019ء سے یہ پاور پلانٹس بجلی پیدا کریں گے تو اس وقت بجلی کی قیمت 11.5 سینٹ فی یونٹ ہوگی جبکہ جب یہ پاور پلانٹس مائننگ والے پروجیکٹ ہر سال 22 ملین ٹن کوئلہ کان سے باہر نکالیں گے اور جب اس کوئلے سے بجلی تیار کی جائے گی تو اس کا ٹیرف کم ہوکر 6سینٹ فی یونٹ رہ جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں بجلی اتنے ٹیرف پر ملنے لگتی ہے تو یہ ملک کے اندر سستی ترین بجلی ہوگی‘ اتنی سستی بجلی استعمال کرنے سے عام لوگوں پر تو مالی بوجھ خاصا کم ہوجائے گا مگر ملک کے اندر جو کارخانے بجلی پر چلتے ہیں ان کا خرچ بھی بہت کم ہوجائے گا‘ اسی طرح ان کارخانوں میں جو سامان تیار ہوتا ہے ان کی قیمتیں بھی خودبخود کم ہوجائیں گی۔ اس وقت پانی سے بننے والی بجلی دوسرے طریقوں سے بنائی جانے والی بجلی سے بہت کم ہے‘ جیسے تربیلا ڈیم پر بجلی بنتی ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تھر کے کوئلے سے ان پاور پلانٹس میں بجلی بنے گی تو یہ بجلی تربیلا ڈیم اور ایسے دیگر ریزرو واٹر سے بننے والی بجلی سے بھی کہیں زیادہ سستی ہوگی۔ مجھے یاد ہے کہ جب شہید بے نظیر بھٹو کی حکومت نے اسی تھر کے کوئلے سے ٹھٹھہ کی بند رگاہ کیٹی بندر پر پاور پلانٹس لگاکر کوئلے سے بجلی بنانے کا پروگرام شروع کیا تھا تو اس پروگرام کے آگے کئی روڑے اٹکائے گئے‘ کئی حلقوں کی طرف سے مختلف مفروضوں پر اس پروجیکٹ کی مخالفت کی گئی‘ آخر کار ہانگ کانگ کے سرمایہ کار گارڈن وو جو اس پروجیکٹ پر کام کررہے تھے کو پراسرار طور پر یہ کام چھوڑ کر بھاگ جانا پڑا۔ منگل کو تھر کی کان میں ہونے والی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے سید مراد علی شاہ نے بھی بڑے دلچسپ انداز میں گارڈن وو کی طرف سے پروجیکٹ سے ہاتھ کھینچ لینے کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کے صدر آصف زرداری نے اس پروجیکٹ کا ذکر کرتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا کہ گارڈن وو بھاگ تو گیا مگر اب وہ مجھ سے ملنے سے بھی پرہیز کررہے ہیں۔ بہرحال گارڈن وو کے چلے جانے کے بعد امریکہ کی ایک کمپنی آگے آئی اور اس پروجیکٹ پر کام کرنے لگی‘ مگر اسی دوران پی پی حکومت کے بعد ان کی جگہ آنے والے وزیر اعظم نواز شریف نے اس پروجیکٹ کا باب بند کردیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دور میں‘ میں نے اس پروجیکٹ کو انتہائی تفصیل سے رپورٹ کیا تھا۔ اس پروجیکٹ کے ماہرین نے ایک بار مجھے بتایا کہ تھر میں کوئلے کے اتنے ذخائر ہیں کہ جس سے ملک بھر کی بجلی کی ساری ضروریات پوری کرنے کے بعد بجلی ہندوستان کو بھی برآمد کی جاسکتی ہے‘ اب ذمہ دار حلقوں نے انکشاف کیا ہے کہ تھر میں 75 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں۔ پی پی کی اس وقت کی حکومت کی طرف سے صحافیوں کی ایک ٹیم جس میں‘ میں بھی شامل تھا کو کیٹی بندر لے جایا گیا‘ اس مرحلے پر میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ گارڈن وو نے دنیا کے کئی ملکوں میں کوئلے پر بجلی گھر بنائے تھے‘ وہ اس کام کے ماہر تھے مگر ان کی عادت تھی کہ وہ یہ پاور پلانٹ کسی سمندری بندرگاہ پر قائم کرتے تھے اور اس بندر گاہ کو انتہائی جدید بندر گاہ بناتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم کیٹی بندر پہنچے تو واقعی کیٹی بندر کی شکل ہی تبدیل نظر آرہی تھی وہاں انہوں نے پاور پلانٹس اور انڈسٹریل اسٹیٹ بنانے کے سلسلے میں کئی نقشے آویزاں کیے ہوئے تھے‘ وہ دیکھ کر ہم حیران ہوگئے کہ یہاں تو کوئلے پر چلنے والے ایک‘ دو نہیں بلکہ زیادہ پاور پلانٹس بنائے جارہے ہیںاور ایک سے زیادہ وسیع انڈسٹریل اسٹیٹ بنائے جارہے ہیں جن میں شاید ہر قسم کی اشیاء بنانے کے کارخانے لگانے کا منصوبہ تھا‘ بہرحال اب تو یہ قصہ پارینہ ہوچکا ہے مگر میں وزیر اعلیٰ سندھ کے حوالے سے یہ ضرور رپورٹ کروں گا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں مسکرا کر کہا کہ پتہ نہیں ملک کے کن عناصر نے گارڈن وو کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اب میں اس وقت تھر میں جاری ان پروجیکٹس کے بارے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کے رویے کا ذکر کروں گا جس کی روداد وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی تقریر میں سنائی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر وفاقی حکومت اس منصوبے کی تکمیل میں مدد کرتی تو ہم 10 ہزار 500 میگا واٹ بجلی پیدا کرسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وفاق نے نہ فقط تھر سندھ کے ساتھ ناانصافی کی مگر اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی گئی‘ حتیٰ کہ اس رویے کی وجہ سے ہمارا پڑوسی ملک چین اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے سے کترا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس پروجیکٹ کا کنٹرول سندھ حکومت نے اپنے ہاتھوں میں لیا ہے اور وہ اپنا فرض پورا کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ جب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری اکٹھے اس منصوبے کو دیکھنے کے لئے یہاں آئے تھے تو اس وقت نواز شریف نے یقین دہانی کرائی تھی کہ اس پروجیکٹ کو مکمل کیا جائے گا مگر افسوس کہ مرکزی حکومت نے ابھی تک تھر کول منصوبے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اب تک منصوبے کے سلسلے میں کوئی مدد نہیں کی‘ ایسے اہم منصوبے کے بارے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مرکزی حکومت کے اس قسم کے رویے کو دیکھتے ہوئے سندھ کے کئی حلقے کئی سوال کررہے ہیں:کہ کیا وفاق سندھ کی ترقی کو دیکھنا نہیں چاہتا کیا سندھ کے کسی منصوبے کے نتیجے میں سارے ملک کے عوام کو ملنے والی سہولتیں بھی ان کو منظور نہیں‘ تو کیا یہ حلقے سوال کرتے ہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ پنجاب کی قیادت سندھ کے ساتھ وہی سلوک برقرار رکھنا چاہتی ہے جو ون یونٹ اور مارشل لائوں کے دوران روا رکھا گیا؟

تازہ ترین