• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کو اقتدار دے دیا جائے کیونکہ نواز شریف نااہل ہوچکے ہیں اور اب اُن کے بعد سب سے مقبول لیڈر عمران خان ہی ہیں لہٰذا اقتدار پر اُنکا حق ہے۔ یہ بیانیہ دوہزار چودہ کے دھرنے کے دنوں میں چلنے والے بیانیہ سے سو فیصد مشابہت رکھتا ہے جب بقول عمران خان کے ایمپائر کی اُنگلی اٹھ جائے گی نواز شریف گھر چلے جائیں گے اور کچھ ٹی وی اینکرز کنٹینر پر کھڑے ہوکر عمران خان کا ہاتھ بلند کرکے اُنھیں وزیر اعظم پاکستان قرار دے دیں گے۔ اگر اس طرح کے نعروں تقریروں تحریروں پر ہی اقتدار دیئے جانے کا فیصلہ ہونا چاہئے تو پھر نہ انتخابات کی ضرورت ہے نہ قومی اسمبلی کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی جمہوری نظام کی اور بس مقبولیت کی بنیاد پر اقتدار بانٹا جاتا رہے۔ بقول دوستوں کے کہ عمران خان آج کے سب سے مقبول لیڈر ہیں مگر کیا میں یہ سوال پوچھ سکتا ہوں کہ یہ مقبولیت کسی بھی ضمنی انتخاب میں نظر کیوں نہ آ ئی اور تو اور خیبر پختونخوا میں بھی نہیں ہری پور کی نشست سے لے کر لاہور کے آخری معرکے تک کہیں تو یہ مقبولیت نظر آتی۔ کہیں تو عمران خان کا ووٹر عمران خان کو سرخرو کرتا یا ہر جگہ ہی دھاندلی ہوئی ہے توکراچی سے پشاور تک۔ اگر مقبولیت کی ہی بنیاد پر اقتدار دینا ہے تو سب سے پہلے اس پر عمل کراچی میں کیا جائے کراچی کی مقبول قیادت کے بارے میں لکھتے ہوئے کیوں قلم رُک جاتے ہیں کیا آصف علی زرداری کی پارٹی کی قومی اسمبلی میں تحریک انصاف سے زیادہ نشستیں نہیں کیا وہ ایک بڑے صوبے اور سینیٹ جیسے معتبر ایوان میں اکثریت نہیں رکھتے۔ تو پھر عمران خان کیوں ۔ ایسے سو ٹیکنو کریٹ جن کو عمران خان نے کہیں چھپاکر رکھا ہے کسی ایک کی جھلک تو کے پی میں نظر آتی کوئی ایک ادارہ تو کے پی میں آسمان کو چھولینے جیسی ترقی کرتا۔ ورلڈ کپ کی کامیابی پر اگر عمران خان کو وزارت عظمیٰ دینا ہے تو پھر یونس خان کو بھی صد ر بنایا جائے اگر اسپتال کی کامیابی پر اقتدار دینا ہے تو ایدھی فاؤنڈیشن کو بھی اقتدار دیا جائے اور وزیر سارے بڑی بڑی فلاحی تنظیموں سے لئے جائیں۔
بحیثیت صحافی میری سب سے پہلی ذمہ داری جمہوری نظام کے حق میں دلائل دینا ہے کیونکہ صحافت جمہوریت سے نکلی ہے اور جمہوریت کا سب سے بڑا بازو بھی صحافت ہے۔ بغیر کسی انتخابی کامیابی کے عمران خان کو اقتدار دینے کا مطالبہ بالکل ایسے ہی ہے کہ آپ شلوار قمیض میں ملبوس آمر لے آئیں ۔ ہاں اگر عمران خان الیکشن میں اکثریت حاصل کرتے ہیں اور پھر اُسکے بعد انہیں اقتدار نہیں دیا جاتا تو پھر جنرل یحییٰ خان کے دور کی مثالیں دینا جائز ہوجاتا ہے مگر آج اگر یہ بات کی جائے تو انتہائی غیر مناسب معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک قومی اسمبلی پہلے سے موجود ہے جو کہ عوامی ووٹ لے کر پانچ سال کیلئے مئی دوہزار اٹھارہ تک کے لئے وجود میں آئی اور اپنا کام انجام دے رہی ہے نہ کوئی فارورڈ بلاک کسی سیاسی جماعت کا ہے اور نہ ہی گزشتہ دوروں جیسی ہنگامہ آرائی تو پھر اس قومی اسمبلی سے منتخب ہونیوالا وزیر اعظم کمزور کیسے ہوگیا کیوں اُس کے بارے میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اُسکی کوئی حیثیت نہیں ۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی کیا حیثیت تھی آصف علی زرداری کے سامنے مگر پھر بھی قومی اسمبلی نے پانچ سال مکمل کئے اور اقتدار جیتنے والی پارٹی کو منتقل ہوا۔
ہاں عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھنے کی جلدی بہت ہے اور وہ یہ عہدہ عوامی مقبولیت کی بنا پر حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر کیا کبھی پی ٹی آئی نے سنجیدگی سے غوروفکر کیا کہ وہ ایوان اقتدار تک ابھی تک کیوں نہ پہنچ سکی جس طرح عمران خان وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں اسی طرح تقریباً تمام قیادت نے بھی اپنی اپنی وزارتوں کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور اس بنیاد پر متعلقہ لوگوں کا گروہ بھی ذہن نشین کیا ہوا ہے اور اُن سے پہلے سے ہی فوائد اٹھانے شروع کردیئے ہیں میں ایسے کئی لیڈرز کو ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ عمران خان کی یہ جلدی ملک کے لئے نقصان لارہی ہے فائدہ نہیں اسی لئے درسگاہ کا درجہ رکھنے والے کچھ معتبر صحافی عمران خان کو وزارت عظمی دینے کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ دیر ہونے کی صورت میں وہ زیادہ نقصان نہ پہنچائیں۔ مگر کیا اس موقع پر دیگر سیاسی جماعتوں کی حیثیت کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے ہوسکتا ہے اُن کے سوشل میڈیا کے گھوڑے شاید اتنا تیز نہ دوڑتے ہوں یا اُن کی میڈیا ٹیم میڈیا فنڈ خود ہی کھا جاتی ہو جس کے باعث وہ جماعتیں میڈیا پر اتنا زور دار تاثر نہیں دے سکیں جتنا کہ پی ٹی آئی نے دیا مگر ان جماعتوں کی سیاسی حیثیت کسی بھی طرح سے پی ٹی آئی سے کم نہیں۔ بڑے تجزیہ کار لاہور کے معرکے کے بعد پی پی پی کی سیاسی موت کا نعرہ لگارہے ہیں میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آج کوئی بھی سیاست دان انتہائی زیرکی سے اپنی چالیں چل رہا ہے تو اُس کا نام آصف علی زرداری ہے لاہور کے معرکے میں اگر پی پی پی اپنا زور دکھانے کی کوشش کرتی تو پی ٹی آئی جیت جاتی اور اگر پی ٹی آئی جیت جاتی تو پاکستان کی سیاست سے پی پی پی نے مائنس ہونا تھا نون نے نہیں کیونکہ نون کا پنجاب گڑھ ہے ہی۔ لہٰذا پی پی پی نے ایک ایسی تحریک چلائی جو ووٹر کو متاثر نہ کرسکے ورنہ سوچئے مسلسل لاہور میں ڈیرہ ڈالنے والے زرداری صاحب اور بلاول بھٹو کیوں اس موقع پر لاہور سے چلے گئے۔ ایک دفعہ زرداری صاحب نے کہا تھا کہ بیٹا کبھی کبھی بڑی جیت کے لئے چھوٹی ہار کو گلے لگانا پڑتا ہے۔
مسلم لیگ نواز کی قیادت پر رفتہ رفتہ مریم نواز کا زور بڑھتا جارہا ہے اور وہ اب مکمل طور پر نون کی قائد نظر آتی ہیں مجھے ایسا لگتا ہے مریم نواز خود قومی اسمبلی میں اس لئے نہیں آئیں تاکہ کوئی دوسرا عہدہ حاصل کرسکیں اور یہ عہدہ غالباً صدر پاکستان کا ہوسکتا ہے جو کہ موجودہ صدر کے استعفیٰ دینے کے بعد خالی ہوسکتا ہے کیونکہ مسلم لیگ نواز کے طاقت ور وزیر اعظم کے خلاف ہمیشہ سازشیں ہوئی ہیں لہٰذا اگر ضیاالحق پرویز مشرف یا آصف زرداری جیسی طاقت کا حامل کوئی صدر مملکت آتا ہے تو نون زیادہ پرسکون طریقے سے اقتدار چلاسکتی ہے۔ بظاہر یہ بڑی بیوقوفانہ بات لگتی ہے مگر اگر ذرا غور کیا جائے تو سمجھ آتی ہے۔ موجودہ صدر مملکت مریم نواز کی عمر میں دو سال کا اضافہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے پرویز مشرف نے جنرل انور کو آزاد کشمیر کا صدر بناتے وقت رعایت دی اور ریٹائرمنٹ کے فوری بعد دوسال کی پابندی ختم کردی۔ اگلی سینیٹ بھی نواز لیگ کی ہوگی لہٰذا مواخذہ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جب کہ سینیٹ کی سیٹوں پر نظر جمانے والی پی ٹی آئی اور پی پی کسی صورت موجودہ اسمبلیاں مارچ تک ختم نہیں ہونے دیں گی کیوں کہ اگلے الیکشن میں پی پی کو مشرف پگارا ایم کیو ایم اتحاد سے خطرہ ہے جب کہ عمران خان کو مذہبی جماعتوں سے۔ مریم نواز نے جس انداز سے مسلم لیگ نواز کی نوجوان قیادت کو متحرک رکھا یہ ہی سب سے بڑی وجہ بنی کامیابی کی میں نے خود دیکھا کہ گھنٹوں سینکڑوں لوگ مریم نواز کے استقبال کے لئے کھڑے رہتے تھے اور پھر وہ آتی ہاتھ ہلاتی تھیں چلی جاتی تھیں۔ مریم نواز نے اس دوران اپنا ایک سحر طاری کردیا تھا اور یہ سحر اب بڑھتا چلا جائے گا انھوں نے ثابت کردیا کہ ووٹ کی پرچی کی طاقت سازشوں کے پرچوں سے کہیں زیادہ معتبر ہے انہوں نے دکھا دیا کہ امپائر کی اُنگلی پر بھروسہ کرنے والوں کو ووٹر کے انگوٹھے نے رگڑ دیا اور بالآخر فتح یاب ہوا۔

تازہ ترین