• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھلا کوئی اپنا اسکول کیسے بھول سکتا ہے۔ اور پھر وہ اسکول جس نے معیاری تعلیم کی بدولت ایک لوئر مڈل کلاسیے کی زندگی کو درمیانے درجے کے مڈل کلاسیے کی راحتیں نصیب کی ہوں۔ وہ اسکول جس نے طالبعلم کو ٹاٹ کی کلاس سے خوبصورت ٹائلوں والے صاف ستھرے دفتروں کی راہ دکھائی ہو، جس نے طالبعلم کو سردی گرمی کی سواری سائیکل سے اے سی گاڑی تک کا فاصلہ طے کرایا ہو، جس نے طالبعلم کو ایک چھوٹے سے شہر کی گرد آلود سڑکوں سے اسلام آباد کی کشادہ اور سرسبز شاہراہوں سے آشنا کرایا ہو، جس نے طالبعلم کی وہ مضبوط بنیاد رکھی ہو کہ سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے پڑھنے والا اور وہ اسکول کہ کسی ایک آدھ طالبعلم کی کامیابی اسکے کریڈٹ پر نہ ہو بلکہ دنیا بھر میں بکھرے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نام پیدا کرنے والے سینکڑوں موتیوں کی تعلیم کا کریڈٹ اس اسکول کے نام ہو، اس اسکول کو بھلا کوئی کیسے بھول سکتا ہے۔ کسی بھی دوسرے طالبعلم کی طرح مجھے بھی اپنے اسکول سے پیار ہے، میں نے تعلیمی میدان میں جو تھوڑی بہت کامیابیاں حاصل کیں اور مجھے اپنی زندگی میں آج جتنی بھی سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں وہ اس اسکول میں گزارے پانچ سالوں کی مقروض ہیں جہاں عاصی صاحب،نیک محمد صاحب، بشیر صاحب، رزاق ڈوگر صاحب، چشتی صاحب و دیگر اساتذہ جیسے شفیق، محنتی اور قابل استادوں نے ایک دور افتادہ اور چھوٹے سے شہر کی نسلوں کی نسلوں کو معیاری تعلیم سے روشناس کرایا۔
کسی اور شہر یا اسکول کا واقعہ ہوتا تو میں شاید سچ مان لیتا لیکن میرے اپنے اسکول اور اپنے شہر میں یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا اور سوشل میڈیا پر اسکو جس طرح کا مذہبی رنگ دینے کی کوشش نظر آئی، دل ماننے کو تیار نہ ہوا۔ بغیر تحقیق و تفتیش کے اس واقعہ کو سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت کا رنگ دینا بلا جواز تھا۔ اگر تحقیق اور تفتیش کے بعد یہ بات سامنے آئے کہ واقعتا مذہبی منافرت اس سانحے کی وجہ بنی تو پھر یہ ہمارے معاشرے کے انتہائی خوفناک رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ واقعہ کے بارے میں ملکی اخبارات میں جو رپورٹنگ ہوئی اس میں مذہبی منافرت کا ذکر نہیں لیکن بین الاقوامی اخبارات اور عیسائی مذہبی ویب سائٹس پر اسکا ذکر ضرور کیا جا رہا ہے۔ یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ جھگڑا مسلمانوں کے گلاس میں پانی پینے سے ہوا جبکہ مارنے والے طالبعلم کا موقف یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ جھگڑا مذہبی وجہ سے نہیں بلکہ موبائل کی ااسکرین توڑنے کی وجہ سے ہوا۔ جبکہ شیرون مسیح کے والدین کی طرف سے یہ موقف سوشل میڈیا پر سامنے آرہا تھا کہ ان کے بچے کو مسلسل مذہبی تعصب اور ہراساں کئے جانے کا سامنا تھا۔
اگرچہ انتظامیہ فوری طور پر حرکت میں آئی اور بتایا جا رہا ہے کہ ڈی سی و ڈی پی او نے فوری طور پر معاملے کی سنگینی کے مطابق اقدامات کئے، لیکن ہماری انتظامی مشینری کی ساکھ پر جو سوالیہ نشانات ہیں اسکی وجہ سے یہ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ معاملے کے حقائق نہیں چھپائے گئے، خصوصا اگر واقعہ مذہبی نفرت کا نتیجہ تھا۔ خواہش اور امید کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ واقعہ موبائل کے جھگڑے یا کسی دوسری معمولی وجہ کی بدولت پیش آیا لیکن اگر یہ واقعی مذہبی منافرت کا نتیجہ تھا تو پھر فوری طور پر حکومتی اور معاشرتی سطح پر اسکی سنگینی سمجھتے ہوئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اول، معاشرے سے مذہبی تعصب کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس واقعہ کے متعلق کسی سیاستدان کی صائب رائے اخبار میں چھپی کہ معاشرے سے مذہبی تعصب کم کرنے کیلئے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہم جب اسی اسکول میں پڑھتے تھے تو برصغیر کی تاریخ اور مذہبی حوالے سے جو بیانیہ بچوں کو پڑھایا جاتا تھا اس میں اچھا خاصا مذہبی منافرت کا رنگ موجود تھا، سلیبس تو ایسا تھا ہی لیکن امتحان کی تیاری کیلئے جو ٹیسٹ بکس ملتی تھیں وہ سونے پر سہاگے کے مصداق تھیں۔ اس حوالے سے معاشرتی اصلاح کیلئے نہ صرف نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے بلکہ جید علما کرام کو بھی کردار ادا کرنا چاہئے۔ دوم، پاکستان کے تمام شہری خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں برابر کے شہری ہیں اور حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ جو شہری مذہبی یا معاشرتی تفریق کی وجہ سے معاشرے کے دیگر گروہوں سے پیچھے رہ گئے ہیں انمیں تعلیم کے فروغ اور قابل بچوں کی حوصلہ افزائی کیلئے خصوصی پیکج متعارف کرائے جائیں۔ سوم، سرکاری اسکولوں میں استادوں کی غیر حاضری اور گھوسٹ اسکولوں کے خاتمے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ اگرچہ زمینی معلومات کے مطابق، شہباز شریف کی حکومت نے اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پایا ہے لیکن مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر اس کلاس میں استاد موجود ہوتا یا پرائیویٹ طور پر شیرون مسیح اور مارنے والا بچہ موجود نہ ہوتے، جیسا کہ بتایا جا رہا ہے کہ دونوں اسکول میں رجسٹر نہیں تھے، تو یہ واقعہ نہ ہوتا۔ ہمارے زمانے میں ہر کلاس کے دس بارہ سیکشن تھے اور صرف دو چار سیکشنز، جن میں اچھے استاد ہوتے تھے، میں ہی اچھی تعلیم دی جاتی تھی، باقی سیکشنز کا حال بہت برا تھا۔ استاد یا تو دلچسپی نہیں لیتے تھے، یا انہیں خود پڑھانا نہیں آتا تھا، یا پھر خانہ پُری کی حاضری لگاتے تھے اور کلاس سے غائب رہتے۔ اب کہا جاتا ہے کہ سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم پہلے جیسا نہیں رہا۔ اور آخری بات، کہ اس واقعہ کی وجہ جو بھی ہو واقعہ بہرحال معمولی جھگڑے کا تھا جس میں لات یا گھونسہ ایسی جگہ لگ گیا کہ موت واقعہ ہو گئی، سو اس واقعہ کو اسی تناظرمیں لینا چاہئے، استادوں اور ہیڈماسٹر کو مقدمے میں شامل کرنا بھی انتظامی پھرتیاں ہی تصور ہو گا، انکے خلاف محکمانہ غفلت کا کیس تو بن سکتا ہے لیکن بغیر کسی حقیقی کردار کے انکے خلاف فوجداری مقدمے نہیں بننے چاہئیں۔ اگر حکومت اس طرح کے اقدامات پرتوجہ دے تو آئندہ اسطرح کے واقعات سےبچا جا سکتاہے۔

تازہ ترین