• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عجیب سی صورتحال ہے۔ہماری ایک رفیق شانتی دیوی ایک عرصہ سے پوچھ رہی تھی اس سال اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس پر آسکوگے۔ میں اس کو ٹالتا ہی رہا۔ اب نیویارک میں اقوام متحدہ کا میلہ جاری ہے۔ شانتی بتارہی تھی، پاکستان کا وفد فور سیزن میں قیام پذیر ہے۔ میں نے پوچھا وہ پاکستان اور پی آئی اے کے ہوٹل روز ویلٹ میں کیوں نہیں ٹھہرے۔ اس کی معلومات کے مطابق گزشتہ سال جب سابق وزیر اعظم نواز شریف تشریف لائے تھے اس وقت ہی اگلے سال کی بکنگ کروالی گئی تھی مگر اب صورتحال مختلف تھی۔ وزیر اعظم عباسی نے بھی میاں صاحب کی پسند کو ترجیح دی۔ اقوام متحدہ کے اجلاس کے بعد وزیر خارجہ اور وزیر اعظم کے سیکرٹری فواد حسن فواد کچھ دن اور قیام کریں اور ہوسکتا ہے وہ روز ویلٹ میں قیام کریں۔ ہمارا تو اس دفعہ پروگرام بن نہ سکا۔ ملک کے اندر ہی زندگی بہت مصروف ہے اگر جاتا تو بہت سے دوستوں سے ملاقات رہتی۔ اپنے میاں عظیم سے میاں نواز شریف کے بارے میں خوب گپ شپ ہوتی ہے خیرسے امریکہ میں وزیر اعظم عباسی خاصے اچھے جارہے ہیں۔ ایک تو منفرد بات ان کا نکٹائی نہ لگانا ہے جو امریکی میڈیا کے لئے حیران کن ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ میں صرف ایرانی نکٹائی نہیں لگاتے۔ وزیر اعظم عباسی سے میڈیا پر سوال بھی ہوا کہ ٹائی کیوں نہیں لگائی۔ ان کا جواب بروقت اور خوب تھا وہ امریکی تعلیم یافتہ ہیں ان کا جواب تھا امریکی استاد کے مطابق نکٹائی شادی کے موقع پر ضروری اور سوگ پر لازمی ہوتی ہے۔ اب معلوم نہیں اقوام متحدہ کا اجلاس کس تناظر میں ہے۔ وزیراعظم بہت گہرے انسان ہیں اور میڈیا کے ساتھ کھیلنا جانتے ہیں، میں نے شانتی سے معذرت کی۔ پڑھنے اور پڑھانے کی مصروفیت کی وجہ سے محروم صحبت ہوں۔ وہ بھی ایک بے چین روح ہے، کہنے لگی اکتوبر دور نہیں، کینیڈا آنے کا پروگرام کنفرم کرو۔ وعدہ تو کیا ہے ہم مسلمان وعدے کے معاملے میں کچے پکے سے ہیں۔
وزیر اعظم نے واپسی پر لندن میں بھی مختصر قیام کرنا ہے۔ بیگم کلثوم نواز کی عیادت کرنی ہے۔ پھر ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس پر بھی بات کرنی ہے۔ لندن اب دوبارہ سے سیاسی حب بن رہا ہے۔
ادھر اپنے ملک میں سیاست اور لیڈروں کی ریاضت عروج پر ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی پنجا ب میں زوال کا شکار ہے۔ وہ اب جنوبی پنجاب پر توجہ دینے کا سوچ رہے ہیں۔ ہمارے کپتان عمران خان بھی دوبارہ سے خم ٹھونک رہے ہیں۔ ملکی سیاست کی حدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سیاسی لوگوں کے زبان و بیان میں بہت تلخی نظر آرہی ہے۔ بینظیر کے سپوت بلاول میدان مارنے کے دعوے تو بہت کررہے ہیں مگر سندھ کے اندر ان کو یکسوئی حاصل نہیں، ملک میں کوئی ایک سیاسی جماعت یکساں مقبول نہیں۔ سب سیاسی نیتا جمہوریت کا الاپ کرتے نظر آتے ہیں مگر کسی کا بھی سر ٹھیک نہیں۔
میں آج کل ایک کتاب’’جنگل میں جمہوریت‘‘ پڑھ رہا ہوں۔ اس کے مصنف ڈاکٹر حامد سلیم فزکس کے پروفیسر ہیں اور شاعری کو اس کتاب میں خوب لکھا ہے۔ جنگل میں جمہوریت انوکھا خیال ہے، جنگل میں تو بسیرا جانوروں کا ہوتا ہے، وہاں جمہوریت کی نہ ضرورت اور نہ ہی ضروری ہے مگرانہوں نے جنگل کے تمام جانوروں پر خوب نقشہ باندھا ہے۔ مجھے آج کل کے سیاسی حالات میں یہ کتاب خاصی دلچسپ لگی۔ ان کی شاعری کا بیانیہ طنزیہ ہے۔ وہ عہد حاضر کے سیاسی معاملات کو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں؎
ابر غفلت چھارہا تھا، بجلیاں تھیں گھات میں
آسمان سے آگ برسی موسم برسات میں
اک تغیر آچکا تھا صورت حالات میں
جانور جنگل کے سب جاگے اندھیری رات میں
اگرچہ انسان بھی حالات کے جبر کے نتیجہ میں جانور بن جاتا ہے اور ہمارےہاں تو حالات کا جبر بہت ہی ہے، پھر ملک کے اندر عام آدمی کے لئے مسائل ہی مسائل ہیں۔ ایک ملکی ادارے نے بجلی کی قیمت میں اضافہ کی نوید سنائی ہے اور اضافہ بھی گزشتہ دو سال سے، اس کا مطلب ہوا کہ بجلی استعمال کرنے والوں پر دو سال کے واجبات ادا کرنے لازمی ہوں گےاور یہ بھی نہیں معلوم کہ اس خسارہ کو اتنا عرصہ کیوں نظر انداز کیا گیا اور کسی ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہ ہوسکی۔میں بھی ملک بھر کے لوگوں کی طرح انتشار خیالی کا شکار ہوں۔ یہ کیفیت آپ کو کمزور کرتی ہے۔ ہمارے ایک دوست اقبال دیوان ا یک عرصہ تک سندھ کی نوکر شاہی کے بڑے افسر رہے۔ وہ ایک اچھے اور نیک میمن ہیں۔ انہوں نے ایک کلپ میں اپنے دوستوں کا احوال بیان کیا، ان کے ایک دوست بس میں سفر کررہے تھے ان کے ساتھ ایک مولانا بھی برا جمان تھے جو بہت پھیل کر بیٹھے تھے۔ ان کے دوست نے ان کو سمٹنے کا کہا تو حضرت جی ناراض ہوگئے اور کہنے لگے میں عالم اور فاضل ہوں، ان کے دوست نے معذرت کرلی اور ساتھ ہی اجازت طلب کرلی کہ وہ ان کی رہنمائی کریں۔ مولانا ان کی معافی سے متاثر تھے اجازت مل گئی کہ سوال کرو۔
ان کا پہلا سوال تھا، ایسی کون سی چیز ہے جو انسان دیکھے مگر خدا نہیں۔
مولانا نے طیش سے اپنے ہمسفر کو دیکھا ان کا ہمسفر بولا، حضرت پہلے میر ے چار سوال سن لیں اور غصہ اور جواب بعد میں اور بولا دوسرا سوال ہے ایسی کون سی چیز ہے جو انسان میں ہے خدا میں نہیں، مولانا پھر بھڑکے، ہمسفر نے ا ن کےسامنے ہاتھ جوڑے، حضور بس دو سوال اور ہیں پھر آپ ہی آپ، خیر مولانا راضی نظر آئے تو تیسرا سوال تھا ایسی کون سی چیز انسان کو ملےخدا کو نہیں اور بقر و خفہ دیتے ساتھ ہی سوال نمبر4بھی داغ دیا۔17الفاظ کا مربوط جملہ، جس میں ایک بھی نقطہ نہیں۔ مولانا کے چہرے پر قدرے ناگواری لگی مگر حوصلہ سے کہا تم بھی عالم لگتے ہو اب جواب بھی تم ہی سنادو، ہمسفر خوش ہوا۔
جواب دینے کے لئے ایک لمبا سانس بھر ا اور بولا ، حضرت جی خواب(سپنا) انسانوں کو آتا ہے، رب کو نہیں۔ مولانا نے حیرت سے آنکھیں جھپکائیں اور ہمہ تن گوش ہوئے۔ انسان میں عیب ہی عیب ہیں، رب میں نہیں، مولانا نے گردن سے داد دی، تیسرے سوال کا جواب تھا انسان کے لئے موت لازم، رب کے لئے نہیں اور آخری سوال کا جواب ہے کلمہ شریف جس میں کوئی نقطہ نہیں، مگر مکمل ہے۔ مولانا مسکرائے تم بھی بڑے عالم ہو! رام کرنا جانتے ہو۔ دونوں فریق راضی ہو کر جدا ہوئے۔ ادھر ہم کسی سے راضی نہیں حالات کچھ اس طرح ہیں
آرزو بےچین تھی دل مصلحت اندیش تھا
بکریوں کو شیر بننے کا عمل درپیش تھا

تازہ ترین