• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب مسلم لیگ ن کی مضبوطی تصور کیا جاتا ہے۔مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے والے پنجاب پرحکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔پنجاب سے مسلم لیگ ن کو ہرانا مخالفین کا اصل ٹارگٹ ہوتا ہے ،مگر گزشتہ 30سالوں میں ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔مشرف آمریت میں بھی مسلم لیگ ن کے منتخب نمائندوں پر مشتمل مسلم لیگ ق بنائی گئی تھی۔مارشل لا کے بدترین حالات میں بھی مسلم لیگ ن لاہور سے چھ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔اس حوالے سے پنجاب اور مسلم لیگ ن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔انتخابی سیاست میں پنجاب کے حکمران کو ملک کا اصل حکمران سمجھا جاتا ہے۔نوازشریف نے مسلم لیگ ن کے قیام کے بعد منتخب نمائندوں کو اپنی وجہ مضبوطی بنایا اور پنجاب میں شیر کا ووٹ بنک بڑھایا۔جس کے بعد گزشتہ 9سالوں کے دوران نوازشریف کے بھائی شہباز شریف نے انتظامی مہارت اور ترقیاتی کاموں کا جال بچھا کر پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔جب بھی کارکردگی کا سوال آیا پنجاب حکومت تمام صوبوں سے آگے کھڑی نظر آئی۔عوامی رائے کا کوئی بھی سروے دیکھ لیں پنجاب حکومت نے گزشتہ دو ادوار میں کامیابی کے نئے معیار مقرر کئے۔پہلی دفعہ تھا کہ مسلم لیگ ن 2013کے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب سے بھی کامیاب ہوئی۔نوازشریف کی قیادت اور شہباز شریف کی بہترین کارکردگی نے مسلم لیگ ن کو پنجاب کی واحد اکثریتی جماعت بنادیا۔آج پنجاب اسمبلی کے 304اراکین صوبے میں مسلم لیگ ن کی مضبوطی کے ضامن ہیں۔
مگر ان سب بالا حقائق کے بعد ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ایک ایسا سفر جس کا مقصد سیاستدانوں کو بدنام کرکے عوام کا جمہوریت سے اعتماد اٹھاناہے۔آصف زرداری کی پیپلزپارٹی تو پہلے ہی اس کام کو آسان کرچکی تھی ۔مگر اس کے بعد نمبر تھا مسلم لیگ ن کا۔سیاستدانوں کو بدنام کرنے کی مہم سے پہلے ضروری تھا کہ جمہوریت کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر کا بندوبست کیا جائے۔نوازحکومت کے خلاف دھرنا سیاست سے پہلے پنجاب کو کمزور کرنے کا منصوبہ تیا ر کیا گیا۔مسلم لیگ ن کے سب سے موثر ہتھیار کو بے کار بنانے کے لئے سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے کسی منصوبے کا انتخاب کیا گیا۔رکاوٹیں ہٹانے کے لئے جانے والی پنجاب پولیس لاشوں کا تحفہ لے کر لوٹی۔
لاہور میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی حکومت میںاتنے بڑے واقعہ کو بھرپور میڈیا کوریج نصیب ہوئی۔پولیس کے کچھ متنازع ایکشنز کی بدولت سارا ملبہ پنجاب حکومت کے کندھوں پر آگیا۔کینیڈین پلٹ علامہ صاحب نے الزام عائد کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں۔اس پر زیادہ تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر عقل اسے تسلیم نہیں کرتی ۔بھلا کیا کوئی اپنے آشیانے کو خود بھی آگ لگاتا ہے۔بہرحال سانحہ ماڈل ٹاؤن کی چنگاریوں کو ایسی ہوا دی گئی کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف اپنے سب سے مخلص اور بااعتماد پرنسپل سیکرٹری سے محروم ہوگئے۔سازش میں ہمیشہ اعصاب کا امتحان ہوتا ہے اور جو شخص اپنے اعصاب پر قابو رکھنے میں کامیاب ہوجائے تو اصل فاتح وہی کہلاتا ہے۔سازش کے دوران اعصاب پر پہلا حملہ یہی ہوتا ہے کہ آپ کو آپکے مخلص اور قابل اعتماد دوستوں سے محروم کیا جاتا ہے۔تاکہ آپکو تنہاکرکے کمزور کردیا جائے۔ڈاکٹر توقیر شاہ جیسے ایماندار اور زیرک ساتھی کی قربانی کے ساتھ ساتھ رانا ثنا اللہ کو پنجاب کابینہ سے دور کردیا گیا۔وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس اب دو شیلڈز ختم ہوچکی تھیں۔اب ہر معاملے کا وہ براہ راست ٹارگٹ تھے۔ڈاکٹر توقیر شاہ اور رانا ثنا اللہ کے بعد معاملہ شہبا ز شریف کے استعفیٰ تک جا پہنچا۔96Hماڈل ٹاؤن سے شاوالی کی آخری چیک پوسٹ تک انصاف فراہم کرنے والے شہباز شریف بھنور میں پھنسے ہوئی دکھائی دئیے۔مظلوموں کی آہ پر لبیک کہنے والا خود اتنی بڑی سازش کا شکار ہوچکا تھا مگر حالات بگڑتے جارہے تھے۔پھر کینیڈین پلٹ علامہ نے عمران نیاز ی کے ساتھ مل کر سانحہ ماڈل ٹاؤن پر طویل دھرنا دیا۔دھرنے کا ایک حصہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات بھی تھیں مگر اصل نشانہ پنجاب ہی تھا۔بہرحال اس سارے واقعہ کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے خلاف ہونے والی سازش کا آغاز لاہور سانحہ ماڈل ٹاؤن سے ہوا۔آج نوازشریف کی نااہلی اور ان کے خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کے بعد ایک بار پھر شہباز شریف نشانے پر ہیں۔لاہور ہائیکورٹ سے ختم ہونے والے حدیبیہ ریفرنس کو تین سال بعد کھولنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد ایک مخصوص وقت میں معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا ہوتا ہے۔اس کے بعد کیس پر اپیل غیر موثر ہوجاتی ہے۔مگر قانون کے تمام تقاضے بالائے طاق رکھ کر حدیبیہ کیس کو کھولنے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے۔
اگر ایسا ہوا تو یہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور آزادانہ انصاف کی فراہمی پر ایک سوالیہ نشان ہوگا۔ابھی حدیبیہ کی گرد بیٹھنے نہیں پائی تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ایک متنازع رپورٹ کو پبلک کرنے کا حکم صادر کردیا گیا۔ایک ایسی رپورٹ جس پر منتخب حکومت کو شدید تحفظات ہیںاور حقائق کو مسخ کرنے کاالزام بھی لگایا گیا ہے۔رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب،وزیرقانون رانا ثنا اللہ اور ڈاکٹر توقیر شاہ کے گرد گھومتی ہے۔جس کا مقصد شریف خاندان مائنس فارمولے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔مگر قر آن پاک کی سورہ بقرہ کی ایک آیت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ "ایک چال تم چلتے ہو اور ایک چال ہم چلتے ہیں،کامیاب ہمیشہ اللہ ہی کی چال ہوتی ہے،بے شک اللہ ہرچیز پر قادر ہے"۔
آج نوازشریف کی وکٹ گرانے کے بعد اسے مٹانے کی کوشش عروج پر ہے۔مگر نوازشریف مسلم لیگ ن کی پہلی وکٹ ہیں۔اگر اسے مٹانے کی کوشش کے آگے مضبوط بند نہ باندھا گیا تو پھر گیارہ کے گیارہ کھلاڑیوں کی قطار لگے گی اور کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی اور نوازشریف کی قیادت مسلم لیگ ن کو بھنور سے نکال سکتی ہے ،وگرنہ شریف خاندان کے لئے وہ صورتحال جلد آنے والی ہے جب آگے کنواں ہوگا اور پیچھے کھائی۔کیونکہ پانامہ کیس کو ہوا دینے والے،جے آئی ٹی کی ڈوریں ہلانے والے آج سانحہ ماڈل ٹاؤن میں نئی روح پھونکنے کی تیاری مکمل کرچکے ہیں ۔مگر باہمی اتفاق اور حکمت سے تمام سازشوں کارخ موڑا جاسکتا ہے۔
اپنے حصے کی چال تم چل بیٹھے
ہمارے منتظر رہنا کہانی ختم کرنی ہے

تازہ ترین