• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح فاٹا میں بھی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز صدر مملکت کی منظوری سے پولیس ایکٹ1861ء نافذ کردیا گیا ہے اور عدالتی نظام میں بھی بنیادی تبدیلیاں کرکے اسی عدالتی نظام کے نفاذ کا حکم دے دیا گیا ہے جو ملک کے دیگر حصوں میں رائج ہے۔ تاہم فاٹا یعنی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے بنیادی اصلاحات کے آغاز کی یہ خبر بعض ذرائع کے حوالے سے جس طرح منظر عام پر آئی ہے اس نے پورے معاملے کو انتہائی مبہم اور پراسرار بنادیا ہے۔ اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدر مملکت ممنون حسین نے فاٹا میں اہم اصلاحات کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد وزارت سیفران نے اس کا اعلامیہ بھی جاری کردیا ہے۔ خبر کے مطابق نئی اصلاحات کے تحت پنجاب، سندھ، خیبر پختونخو اوربلوچستان کی طرح فاٹا میں بھی لیویز کے بجائے پولیس نظام نافذ کردیا گیا ہے۔ فاٹا کے لیویز دفاتر پولیس سے تبدیل کردیے گئے ہیں جس کے بعد فاٹا میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کا سربراہ لیویز کمانڈنٹ کی بجائے آئی جی پولیس ہوگا جبکہ نائب تحصیلدار سے کم عہدے کے کسی شخص کو سب انسپکٹر تعینات نہیں کیا جاسکے گا۔خبر میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ فاٹا کے عدالتی نظام میں بھی بنیادی اصلاحات کردی گئی ہیں جن کی رو سے فاٹا میں بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کے طرز کا نظام انصاف نافذ ہوگا۔خبر میں صدر مملکت کے اس حکم کا پس منظر واضح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ماہ رواں کی بارہ تاریخ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فاٹا اصلاحات کے ضمن میں اہم پیش رفت ہوئی تھی جس کے تحت حکومت نے برطانوی دور کے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے خاتمے کیلئے پارلیمنٹ میں نیا بل لانے کا فیصلہ کیا تھا۔تاہم فاٹا امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر)محمود شاہ نے جیو نیوز سے اس موضوع پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ حکومت نے یہ فیصلہ جلد بازی میں کیا ہے اور اس بارے میں پوری طرح غور وفکر نہیں کیا گیا۔محمود شاہ کا کہنا تھا کہ فاٹا میں کوئی پولیس تھانہ نہیں،بغیر کسی مناسب تیاری کے اتنے بڑے علاقے میں ایک دم اس قسم کا فیصلہ سمجھ سے باہر ہے۔انہوں نے ایسے فیصلوں کے لیے مکمل تیاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ کیا گیا تو بدامنی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ جبکہ ایک اور اخباری رپورٹ میں ایوان صدر کے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر مملکت نے قبائلی علاقوں میں لیویز فورس کی جگہ پولیس کا نظام متعارف کرانے کے کسی فیصلے کی منظوری نہیں دی۔ایوان صدر کے اس ذریعے کے بقول پولیس ایکٹ کو قبائلی علاقوں تک بڑھانے کی خبریں درست نہیں۔اس بارے میں باتیں ضرور چل رہی ہیں مگر کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔فاٹا سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی الحاج گل آفریدی نے ایک قومی روزنامے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم خود اس ایکٹ کے نفاذسے بے خبر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں انہوں نے ریاستی و سرحدی امورکے وفاقی وزیر سے بھی بات کی اور انہوں نے بھی اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم نے ایسی کوئی سمری ایوان صدر کو نہیں بھیجی۔اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ملک نجم الحسن نے بھی ایسے کسی ایکٹ کے نفاذ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو اچھا نہیں ہوا کیونکہ کسی تیاری کے بغیر اس اقدام سے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ اخبار کے مطابق جب معاملے کی وضاحت کے لیے وفاقی وزیر قانون اور وزیر سیفران سے رابطے کی کوشش کی گئی تو کامیابی نہیں ہوئی۔فاٹا اصلاحات جیسے اہم معاملے میںایسی صورت حال کا رونما ہونا وفاقی حکومت کے ذمہ داروں بلکہ خود وزیر اعظم کی فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ اصل حقائق کیا ہیں، اس بارے میں ابہام کا بلاتاخیر دورکیا جانا اور فاٹا اصلاحات کے ضمن میں نیم دلانہ، نمائشی ا ور عاجلانہ اقدامات کے بجائے ٹھوس، پائیدار اور مؤثر اقدامات کا عمل میں لایا جانا قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔

تازہ ترین