• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان کے لوگ بہت محب وطن ہیں، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر افتخار احمد نے ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے لوگ اِس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اُن کی اسمبلی نے پاکستان کے حق میں سب سے پہلے قرارداد پیش کی، اُردو بولنے والوں کو یہ ناز ہے کہ وہ پاکستان کی جدوجہد میں ہر اول دستہ رہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے ڈوگرہ راجہ کی فوجوں کو شکست دی اور خود پاکستان میں شامل ہوئے۔
اگرچہ ابھی تک اُن کو باقاعدہ صوبے کا درجہ حاصل نہیں ہوا مگریہاں کے لوگ یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ بہت محب وطن ہیں، رابطہ فورم انٹرنیشنل کی تقریب میں گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان بطور مہمانِ خصوصی، قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خلیل احمد، شعبہ انٹرنیشنل کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر منیر کاظمی اوراسٹرٹیجک امور کے ماہر ین نے مقالے پڑھے۔ حافظ حفیظ الرحمان 1965ء کی جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کیا اور یہ بھی بتایاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2 لیفٹیننٹ جنرل، 3 میجر جنرل، 22 بریگیڈیئر شہید ہو چکے ہیں اور پاکستان کو 156 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا، انہوں نے کہا کہ بھارت کراچی کے بعد بلوچستان میں سازش کررہا ہے اور وفاقی حکومت نے جو کمیٹی بلوچستان کے حوالے سے بنائی تھی وہ اُس کے ممبر رہ چکے ہیں اور بلوچستان میں 9روز گزار کر اس وقت اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ صورتِ حال بہت خراب ہوچکی تھی تاہم سول و عسکری قیادت کی ذہانت اور ہم آہنگی کی وجہ سے معاملات بہتر ہوتے چلے گئے۔ جمہوریت ملک کی بقا کی ضامن ہے، اس پر ہمارا کہنا ہے کہ جمہوریت اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب عوامی نمائندے عوام کے مفاد میں کام کریں اور بدعنوانی نہ ہو بلکہ عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ وائس چانسلر خلیل احمد کا کہنا تھا کہ دشمن چالاک و عیار ہے اور عددی اعتبار سے بھی زیادہ مگر ہم اس کا غرور کئی مرتبہ خاک میں ملا چکے ہیں، ہمارے خطے نے ڈوگرا راج کے خلاف 1947ء میں ہتھیار اٹھا کر، اِس خطے کو آزاد کرا کر پاکستان میں شامل کیا اور آئندہ بھی وطن کی خدمت سے گریز نہیں کریں گے۔ کرنل (ر) عبیداللہ ہنزائی جو محب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہیں کا فرمانا تھا کہ 1965ء کی جنگ میں لاہور، سیالکوٹ، قصور اور ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر دشمن نے جارحیت کی لیکن ہماری بہادر افواج نے دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔ 1971ء کی جنگ میں اس علاقے سے تعلق رکھنے والے 102 افراد شہید ہوئے، اِس علاقے کے کرنل شیرخان اور لالک جان نے سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر حاصل کیا، بریگیڈیئر اسلم کو ستارئہ جرأت ملا اور ہمارے 60 فوجیوں کو تمغہ جرأت کے اعزاز سے نوازا گیا۔ دہشت گردی میں ہمارے علاقے سے تعلق رکھنے والے 951 فوجی جوانوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اغیار کی سازشوں کو ناکام بنانے میں بھرپور حصہ لیں گے۔ سوالات و جوابات کے وقفے میں وہ بہت جذباتی ہوگئے اور کہا کہ خدا کاشکر ادا کرو کہ ہم پاکستان کی وجہ سے آزاد ہیں ورنہ فلسطین، مقبوضہ کشمیر اور برما کے مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھ کر کون ایسا شخص ہے جو خون کے آنسو نہ بہاتا ہو۔ ڈاکٹر محمد رمضان ڈین سوشل سائنسز قراقرم یونیورسٹی نے کہا کہ سرحدوں کی حفاظت فوج اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت قوم اپنے اتحاد سے کرتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر منیر کاظمی نے تاریخی حوالے دیئے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اُن کو عالمی امور پر کتنا عبور حاصل ہے۔ احمد خان اسٹرٹیجک امور کے ماہر جو اسلام آباد سے آئے تھے کا کہنا تھا کہ ایٹمی ملک ہونے کی وجہ سے دشمن حملہ کرنے سے روکا ہوا ہے، اس میدان میں پاکستان کی پیش رفت شاندار ہے جبکہ پاکستان دفاعی میدان کے علاوہ عوامی مفاد میں پیش بہا خدمات انجام دے رہا ہے، صحت میں کینسر کا علاج، زراعت میں ترقی اور توانائی فراہم کررہا ہے۔ مذاکرہ اِس لحاظ سے بھی منفرد تھا کہ پاکستان کے پُرفضا مقام پر منعقد ہوا۔ پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں میں جو پیش قدمی کی ہے اس کی وجہ سے پاکستان کی بیرونی سرحدیں محفوظ ہوگئی ہیں۔
البتہ دشمن اندرونی انتشار کے درپے ہے، پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہے۔ حال ہی میں پاکستان کے ایٹمی انرجی کمیشن کے سربراہ نے ویانا میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے پر دنیا بھر سے داد وصول کی ہے۔ پاکستان نے اِس میدان میں جو ترقی کی ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے حوالے سے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ دنیا بھر کیلئے مشعل راہ ہیں، اسی طرح ہمارادفاعی ایٹمی میزائل پروگرام جدید ترین اور محفوظ مانا جاتا ہے۔ پاکستان عالمی جوہری کمیشن کے تحفظات کو خاطر میں لا کر کام کرتا ہے اور عالمی جوہری کمیشن سے روابط مثالی ہیں، مگر اس سب کے باوجود پاکستان کے حالات اِس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام نہ ہو، کرپشن یکسر رک جائے۔ پاکستان کے عوام اور قائدین کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ پاکستان اس وقت جس دورسے گزر رہا ہے وہ اس کو مضبوط اور محفوظ بنا سکتا ہے بلکہ ایک عالمی طاقت اور مضبوط ممالک کی صف میں خود کو شامل کرسکتا ہے بشرطیکہ پاکستان کے عوام متحد رہیں، دشمن کھل کر سامنے آگیا ہے، ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان پر ہلکا ساکیمیاوی حملہ کیا جا چکا ہے، جیسا کہ چکن گونیا اور ڈینگی وائرس کا پھیلائو، اِس سلسلے میں ایک شخص پکڑا بھی گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان مزید چوکنا ہو اور اندرونی طور سے محفوظ بنے اور جو کرپشن دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اُس کو یکسر ختم کردے۔ پاکستان پیش بہا قربانیوں کے بعد حاصل ہوا اور اس کو قائم رکھنے میں قوم قربانی دیتی رہی ہے اور شاید اب سب سے مشکل اور نازک ترین مرحلہ آن پہنچا ہے۔ ضروری ہے کہ پورا پاکستان متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرے کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں جمع کرلیا گیا ہے، بھارت اُن کو ڈرٹی بم دینے تک کا عندیہ دے چکا ہے، لہٰذا صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ قومی یکجہتی ہو اور ملک کو دشمن کے ناپاک عزائم سے بچایا جائے۔

تازہ ترین