• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پر طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے شریف خاندان کیلئے آئے دن مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ شریف خاندان کیلئے پاناما کیس کے فیصلے سے بھی زیادہ پریشان کن ہے۔ پاناما کیس میں بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کو نہ صرف نااہل قرار دے دیا گیا بلکہ ان کے اور ان کے بچوں کے ارد گرد احتساب اور قانون کا ایسا جال بچھا دیا گیا ہے، جس سے ان کا بچ نکلنا آسان نظر نہیں آتا۔ لوگوں کو یہ توقع تھی کہ میاں محمد نواز شریف کے بعد ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب اپنے سیاسی خانوادے ( Political Dynasty ) کو سنبھالیں گے لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقاتی رپورٹ شائع کرنے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے میاں شہباز شریف کا سیاسی مستقبل بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کے دوبارہ کھلنے سے دونوں بھائیوں کےلئے احتساب کا شکنجہ مزید سخت ہو جائے گا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ میاں نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو اپنی جانشینی سونپنا چاہتے ہیں یا نہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے مبینہ بہتر تعلقات کی وجہ سے شہباز شریف پر ہاتھ ڈالا جائے گا یا نہیں۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میاں شہباز شریف کے لئےخطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس ان کیلئے مزید مسائل پیدا کرے گا۔ یہ عوامل دونوں بھائیوں کے درمیان اختلاف رائے اور شکوک و شبہات کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور دونوں اپنی سیاسی بقا کیلئے ایک راستہ اختیار کر سکتے ہیں اور وہ راستہ کیا ہو سکتا ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) فی الوقت ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی سیاسی جماعت ہے لیکن اس میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ عوامی طاقت کے ذریعے حالات کو اپنی قیادت کے حق میں تبدیل کر دے۔ میاں محمد نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سے برطرفی کے بعد جی ٹی روڈ پر چار دن تک عوامی طاقت کا جو مظاہرہ کیا، وہ متاثر کن نہیں تھا۔ اس کا اثر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے دو بڑے جلسوں کے ذریعے زائل کر دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسٹریٹ پاور اس وقت عمران خان کے پاس ہے تو غلط نہ ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) اس سے زیادہ اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرے تو حالات تبدیل ہو سکتے ہیں، جو کہ ممکن نہیں۔ لہٰذا شریف خاندان اپنی سیاسی بقا اور ’’ احتساب کی گرفت ‘‘ سے مزید بچنے کیلئے سیاسی راستے یا عوامی طاقت پر انحصار نہیں کر یگا۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کی بھی اس طرح حمایت نہیں ہے، جس طرح اسے 2014 ء میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کے وقت حاصل تھی۔ سندھ میں نیب، ایف آئی اے اور دیگر وفاقی اداروں کی کارروائیوں نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین مفاہمت یا فرینڈ لی اپوزیشن والا رشتہ ختم کر دیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) ، جمعیت علمائے اسلام ( فضل الرحمن ) اور دیگر مذہبی و سیاسی جماعتیں بھی اس صورت میں عوامی حمایت مہیا کریں گی، جب مسلم لیگ (ن) خود سڑکوں پر آئے گی۔ یہ اتحادی جماعتیں شریف برادران کے ریسکیو کیلئے مسلم لیگ (ن) سے آگے نہیں جائیں گی۔ یوں مسلم لیگ (ن) اپنی قیادت کو بچانے کی خاطر دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت پر بھی مکمل انحصار نہیں کرے گی۔
میاں محمد نواز شریف کو پہلے کی طرح بیرونی قوتوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اگرچہ انہوں نے دنیا کے انتہائی طاقتور شاہی اور سیاسی خانوادوں کے ساتھ گہرے مراسم پیدا کئے ہیں اور عالمی سطح پر کچھ بااثر شخصیات ان کےلئے لابنگ بھی کر رہی ہیں لیکن انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ میں ان کا اثر و رسوخ وہ نہیں ہے، جو کچھ عرصہ قبل تھا کیونکہ عالمی سیاست کی بساط تبدیل ہو گئی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں کرپشن کے خلاف مہم کسی عالمی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ کرپشن کے خلاف یہ مہم چین یا جنوبی کوریا جیسی نہیں ہے۔ وہاں یہ دیسی ( Indiginous ) مہم ہے۔ عرب دنیا سمیت تیسری دنیا میں کرپشن کیخلاف مہم میں وہاں کے عوام بھی شامل ہیں لیکن اس مہم کے ڈانڈے کہیں اور بھی جا کر ملتے ہیں۔ گزشتہ ایک عشرے میں تیسری دنیا کے درجنوں طاقتور حکمراں اور بااثر سیاست دان اس مہم کا شکار ہو چکے ہیں۔ بدلتے ہوئے عالمی اور علاقائی حالات میں پاکستان ایک بار پھر عالمی مفادات کے تازہ ٹکراؤ کا مرکز بننے جا رہا ہے اور پاکستان اس تذبذب کا شکار ہے کہ وہ نئی صف بندیوں میں کس کے ساتھ کھڑا ہو۔ اس صورت حال میں سیاست دانوں کا وہ عالمی کردار نہیں بن سکا ہے، جس کی ضرورت تھی۔ جن عالمی قوتوں کے پاکستان سے مفادات وابستہ ہیں، انہیں بھی سیاست دانوں سے زیادہ توقعات نہیں ہیں۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) بیرونی حمایت پر بھی انحصار نہیں کر سکتی۔ ویسے بھی اس خطے کی حالیہ سیاست نے میاں نواز شریف کو عرب ممالک کی حمایت سے محروم کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور شریف برادران کے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ اپنے ریسکیو کیلئے پارلیمنٹ کو استعمال کریں۔ سینیٹ میں انتخابی اصلاحات بل۔ 2017ءکی منظوری اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے۔ میاں محمد نواز شریف پارلیمنٹ کے ذریعے ایسی آئینی ترامیم لا سکتے ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنے خلاف تنگ ہوتے ہوئے شکنجے کو توڑنے کی کوشش کرینگے۔ انتخابی اصلاحات بل 2017ءکے ذریعے وہ نااہلی کے باوجود اپنی پارٹی کی قیادت کر سکیں گے۔ یہ ایک ٹریلر ہے۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) بل کی متنازع شقوں کی منظوری میں کامیاب ہوگئی۔ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ پیپلز پارٹی آئندہ بھی ایسی آئینی ترامیم کی حمایت کر سکتی ہے، جو ’’ سیاست دانوں کو مزید طاقتور ‘‘ بنانے کیلئے کی جا سکتی ہیں۔ اس سے وہ حالات پیدا ہو سکتے ہیں، جنہیں کچھ حلقے ’’ اداروں کے ٹکراؤ ‘‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کیساتھ ساتھ حکمراںمسلم لیگ (ن) میں شامل سیاست دانوں کے تدبر کا امتحان ہو گا کہ وہ تصادم کو کیسے روکتے ہیں یا تصادم کے ماحول میں جمہوریت اور جمہوری عمل کا کس طرح تحفظ کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ داخلی حالات کیساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی حالات بھی سیاست دانوں کی تدبیروں کیلئے زیادہ سازگار نہیں ہیں۔

تازہ ترین