• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا پاکستان کا نظام حکومت چلانا اتنا ہی مشکل ہے کہ ہماری جمہوری کشتی ہمیشہ بیچ منجدھار پھنسی رہتی ہے اورہم ہر وقت کشکول اُٹھائے دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے رہتے ہیں اور جانے والے حکمراں پر ہر آنے والے حکمراں کی الزام تراشی ختم ہی نہیں ہوتی۔ اورہم اس سے آگے بڑھ کر ملک و قوم کی دیر پا تعمیر وترقی پرسوچنے کوتیار نہیں۔ آپ قیام پاکستان سے لے کر آج2017 ء تک اپنی سیاسی تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو ہماری سیاست کی بنیاد اقتدار کی رسہ کشی سے شروع ہو کر کھوکھلے جذباتی نعروں سے آگے نہیں بڑھتی۔ جمہوریت اور آمریت کے ٹکرائو کی ایک طویل داستان ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہم نے کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بیچا تو کبھی مذہب کے نام پر آمریت کو طول دیا۔ ہم نے کبھی ایشیاکوسبز کر دیا تو کبھی ایشیاکو سرخ کرنے کی کوشش کی۔ کبھی مذہب کے نام پر آمروں نے اپنی جیبیں بھریں اور قوم کو لاشوں کا تحفہ دیا اور جہیز میں دہشت گردی ملی اور اب سی پیک کے تناظر میں ترقی کا خواب دیکھا جارہاہے لیکن ہم اپنے طور اطوار بدلنے کو تیار نہیں۔ نتیجہ کیا نکلا، آج ہماری تمام سیاسی دکانیں بند ہوتی جارہی ہیں۔ نظام حکومت سے لے کر نظام زندگی تک سب کچھ مفلوج ہے اور دنیا ہمیں شک کی نظر سے دیکھنے لگی ہے، کیا ہمارے سیاست داں اس قابل نہیں تھے کہ وہ اپنے عوام کو دو وقت کی باعزت روٹی فراہم کرسکتے، بچوں کو مفت تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے، کسان اور مزدورکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُس کی محنت کا صحیح صلہ دیتے، عورت کی عزت، چادر اور چار دیواری کا تحفظ ہوتا۔ کیا وہ اس قابل نہیں تھے کہ اس ملک کے لاکھوں نہیں کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار اور صنعتی ترقی کے لئے بلاتفریق بہترین اور آسان مواقع فراہم کرتے جس میں چند خاندانوں کی اجارہ داری نہ ہوتی۔ کیا غریب کو چھت فراہم کرنا اتنا ہی مشکل ہے کہ وہ دربدر کی ٹھوکریں کھائیں، سوالات کا ایک سمندر ہے جو دماغ سے بپھری لہروں کی طرح ٹکراتاہے لیکن جواب نہیں ملتا، ذرا خود سے پوچھئے اپنے گریبان میں جھانکئے بے لوث دوستی کبھی خریدی نہیں جا سکتی ، چاہے یہ کسی انسان سے ہو، کسی حکمراںسے ہو یا کسی ملک سے ، غرض کا تعلق کبھی دیر پا نہیں ہوتا، مفادات کے شکار کبھی دوسروں کا بھلا نہیں کرسکتے، ایسے لوگوں کا زوال دیوار پر لکھا ہے۔ ہمارے حکمراں شاید یہی سیڑھیاں چڑھ کر اقتدار کی منزل کو پانے نکلے تھے، جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے، کوئی باہر بھاگ گیا، کسی کا تاریخ سے نام مٹ گیا، کوئی ہماری تاریخ کا بدنما داغ بن گیا۔ جو کوئی سچا کھرا تھا اسے عوام نے گھاس ہی نہیں ڈالی اور وہ گمنامی میں مر گیا۔ شخصیت پرستی کے شکار اس معاشرے سے تبدیلی کی اُمید لگانا گویا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں، نظام بدلے گا نہ عوام کی تقدیر نتیجہ صرف تباہی ہے آج نہیں تو کل۔ جب تک سرے محلوں، لندن فلیٹوں، جاتی اُمروں، بنی گالوں جیسی ایکڑوں پر پھیلی رہائش گاہوں اور فٹ پاتھ، درباروں، گرین بیلٹوں، بارش میں ٹپکتی جھونپڑیوں میں گرم سرد راتیں بسر کرنے والوں میں تفریق ختم نہیں ہوتی ہماری تقدیر بدلنے والی نہیں، یہ دکھ، یہ درد، یہ ٹیس اس لئے اُٹھ رہی ہے کہ ہم نے تازہ تازہ قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کا ’’تاریخ ساز انتخابی معرکہ ‘‘نمٹایا ہے۔
اس انتخابی معرکے میں کم از کم پنجاب میں دو بڑی مضبوط اور سیاسی جدوجہد کی تاریخ سے بھرپور جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی سیاسی طور پر شہید ہوگئی ہیں، اور دو ایسی نئی جماعتیں جو بظاہر مذہبی بیک گرائونڈ رکھتی ہیں اُن سے آگے نکل گئیں، یہ انتخابی معرکہ اس لحاظ سے بھی اہمیت اختیار کرگیا تھا کہ یہ شریف خاندان کی سیاسی بقاکا ایک امتحان تھا۔ یہ حلقہ تیسری بار کے سابق ہونے والے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا سیاسی قلعہ بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ تاریخی معرکہ کیا صرف اور صرف شریف خاندان کی سیاسی بقا کی جنگ تھی یا اس کے نتائج سے ملکی سیاسی تاریخ کا ایک اور المیہ جنم لے گا؟ اس انتخابی معرکے کے نتائج کا بغور جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کازوال شروع ہوگیا ہے اور آنے والے دنوں میں ایک مضبوط سیاسی جماعت کے حصے بکھرے ہوں گے اور قوی امکان ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں اس جماعت کے کئی دھڑے ہو جائیں اور ایک دن( ن) لیگ بھی قصہ ماضی بن جائے اس میں قصور اسٹیبلشمنٹ کاہے نہ عدلیہ کا، یہ تلخ رویوں کی ایک طویل داستان ہے جو اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے۔ عوام مسلم لیگ (ن) کی قیادت خصوصاً میاں محمد نواز شریف کو اپنی امیدوں کا محور سمجھتے تھے اور اب بھی اکثریت ایسا ہی سوچتی ہے مگر عوام کوپل، سڑکیں، میٹرو نہیں قومی وقار، عزت، روزگار، تعلیم، صحت اور دیرپا ترقی کے ساتھ ساتھ خارجہ سطح پر مضبوط اور ٹھوس مؤقف رکھنے والی قیادت چاہئے تھی۔ سابق نااہل وزیراعظم نواز شریف اپنے چار سالہ دور حکومت میں ان تمام امور سے بالکل لا تعلق رہے بقول سپہ سالار پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ چار سال میں وزیر خارجہ کی عدم موجودگی سے پاکستان کو بہت نقصان اٹھانا پڑا اور یہی وہ جواب ہے جو میاں محمد نواز شریف گلی گلی محلے محلے مانگتے پھر رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا گیا اور یاد رکھئے کہ یہ جو تمام سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف نے سینیٹ میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 ء میں ترامیم کاحکومتی بل اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود ملی بھگت کرکے پاس کرایا ہے آنے والے دنوں میں اس جمہوری نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔
ایسی منافقانہ سیاست پہلے کبھی دیکھی نہ اب یہ چلے گی۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے ان سیاسی جماعتوں کے حرکتیں، سینیٹ کے معتبر ترین جمہوریت پسند چیئرمین رضا ربانی بل کے خلاف احتجاجاً ایوان سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں، تحریک انصاف کے سات سینیٹرزووٹنگ سے قبل ان کی واپسی کے مطالبے کی آڑ میں واک آئوٹ کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب قبلہ محترم سراج الحق پارٹی اجلاس کو اہم تصورکرتے ہوئے ملک وقوم کے مفاد میں سینیٹ کے اجلاس میں تشریف ہی نہیں لاتے، ایک ایسے اہم بل کی منظور ی کے موقع پر جو آرٹیکل 62,63 کے تحت نااہل ہونے والے شخص کو دوبارہ اپنی پارٹی کا سربراہ بنا سکتا ہے وہ عین موقع پر غائب ہو جاتے ہیں۔ ووٹنگ ہوتی ہے ترمیم کے حق میں 38 مخالفت میں 37 ووٹ پڑتے ہیں اور جناب میاں محمد نواز شریف عدلیہ کے فیصلے کے نتیجے میں آرٹیکل 62,63 کے تحت نااہل ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن کی دوبارہ قیادت کرنے کے اہل قرار پاتے ہیں۔
جمہوریت کاجنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔اندیشہ ہے کہ یہ ترمیمی بل موجودہ منافقانہ جمہوری نظام کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ نہ بچے گا عمران اور نہ ٹھیک ہو گا یہ نظام۔ اب تو سراج الحق بھی صادق اور امین نہیں رہے۔ اس جمہوریت کی اینٹ بجنے والی ہے مگر مفادات کے شکار سیاست دانوں کو قوم سے نہیں اپنی بقا سے غرض ہے۔ آفرین ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پر کہ جس نے اپنے سیاسی زوال کے باوجود جمہوریت کا ساتھ دیا اور اس بل کی مخالفت کی۔یہی جمہوریت پسندی ہے باقی سب ڈھکوسلہ۔

تازہ ترین