• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے فیصلے سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد خالی ہونیوالی قومی اسمبلی کی نشست پر انکی اہلیہ بیگم کلثوم نواز الیکشن جیت چکی ہیں۔ غیر سرکاری نتائج آنے پر مریم نواز نے تقریر کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ضمنی الیکشن کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ غلط تھا، جسے ہم نہیں مانتے، جو سازشیں کر رہے تھے یہ اُنکی شکست ہے۔ جن میں وہ ادارے یا لوگ بھی شامل ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتے، گو مریم نواز الیکشن نتائج کے فوراً بعد لندن پہنچ گئیں لیکن این اے 120کے نتائج نے ن لیگ سمیت ان انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں اور الیکشن کمیشن کی مشکوک کریڈبلٹی پر نہ صرف سوالات اٹھائے ہیں بلکہ ان سب کیلئے سبق بھی چھوڑا ہے۔
حلقہ این اے 120کے ضمنی الیکشن میں کل ووٹرز کی تعداد 3لاکھ 21ہزار 786ہے جن میں سے مرد ووٹرز ایک لاکھ 79ہزار 642اور خواتین کے ایک لاکھ 42ہزار ایک سو 44ووٹ تھے جبکہ ایک لاکھ 26ہزار 860ووٹ کاسٹ ہوئے۔ ن لیگ کی امیدوار بیگم کلثو م نواز نے61ہزار 745ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ دوسرے نمبر پر آنیوالی پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے47ہزار 99ووٹ لئے۔ اس ضمنی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 39فیصد تھا۔ اگر اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو اس حلقے کے 60.52فیصد افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کیا۔ جن میں ایک لاکھ خواتین ہیں جو بطور احتجاج بھی ہوسکتا ہے۔ اسلئے یہ موقف قطعاً درست نہیں کہ لوگوں نے عدالتی فیصلے کو مسترد کرد یا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں تو ن لیگ کواب 30ہزار ووٹ کم پڑے اسطرح لیڈ جو 2013ء کے انتخابات میں 41ہزار سے زائد تھی وہ کم ہو کر 13 ہزار تک آگئی۔ یہ ن لیگ کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ اس مرتبہ لوگ سپریم کورٹ کے نظرثانی کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی حلف دے چکے تھے کہ وہ 30سالہ رفاقت اور بیگم کلثوم نواز کی بیماری کی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں جبکہ بہت سے ووٹرز یہ توقع رکھتے تھے کہ شہباز شریف کون لیگ کا صدر بنایا جائیگا۔ اسی نکتہ کی بنیاد پر سرکاری مشینری کا بھر پور استعمال ہوا، الیکشن کے اعلان کے بعد ترقیاتی کام بھی کروائے گئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ الیکشن جیتنے کے باوجود کارکنوں میں نہ صرف مایوسی ہے بلکہ وہ بڑی گہری خاموشی میں چلے گئے ہیں، اُنکی اکثریت کا خیال ہے کہ قومی اداروں سے محاذ آرائی نہ تو پارٹی کے حق میں ہے اور نہ ہی ملکی سلامتی اور استحکام کیلئے بہتر، انہیں ایم کیو ایم کے بانی کیساتھ ملاقاتیں اور امریکہ میں لابنگ فرم کی خدمات جن مقاصد کیلئے حاصل کی جارہی ہیں وہ بھی پسند نہیں۔ ایسی صورتحال سے لگتا یہی ہے کہ ن لیگ کا مستقبل تاریک ہے اور کسی وقت بھی ن لیگ کے اکثریتی لوگ کسی اور نام سے ایم کیو ایم پاکستان کی طرح میدان میں ہونگے۔
اسمیںکوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے انتھک محنت کر کے اپنے ووٹ بنک کو قائم بلکہ ووٹ حاصل کرنے کے تناسب کے لحاظ سے بہتر کارکردگی دکھائی۔ یاسمین راشد نے جسطرح گھر گھر جا کر الیکشن مہم چلائی اور جن خواتین نے ووٹ دینے کی ہامی بھری اُنکی اکثریت کو انکے خاوند جو ن لیگ کو ووٹ دینا چاہتے تھے خوف کے مارے اپنی خواتین کو ووٹ ڈالنے کیلئے نکالا ہی نہیں حالانکہ 2013ء کے الیکشن میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کا تناسب مردوں کے قریب تھا اس ضمنی الیکشن نے پی ٹی آئی کی قیادت کو ایک موقع دیا ہے کہ وہ اندرونی چپقلش ختم کرے، پارٹی کی تنظیم کی طرف بہت زیادہ توجہ دی جائے،نعروں، جلسوں اور جلوسوں میں صرف ہلڑ بازی نہ کی جائے بلکہ عملی طور پر ٹھوس بنیادوں پر ابھی سے ہر حلقے میں کام کیا جائے ورنہ ووٹ ڈالنے کا گراف بہت نیچے آ سکتاہے۔پیپلز پارٹی کیلئے ضمنی الیکشن کا سبق یہ ہے کہ لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ آصف زرداری نے ذاتی مفادات کیلئے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت خود پارٹی کو ختم کر دیا ہے اب اگر پی پی کے نظریاتی کارکنوں کو اوپر نہ لایا گیا تو یہ چند فیصد ووٹ ملنا بھی دشوار ہوگا۔اس ضمنی الیکشن اور اس سے پہلے ہونیوالے کراچی کے ضمنی اور بلدتی انتخابات کے نتائج جماعت اسلامی کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ ٹھنڈے دل سے اپنی ناکامی پر غور اور یکسوئی کیساتھ فیصلہ کیا جائے کہ انتخابی سیاست کرنی ہے یا عوامی خدمت کی سرگرمیاں جاری رکھنی ہیں۔ ان حالات میں تو عوام جماعت اسلامی کی خدمت خلق کی سرگرمیوں کو بھی مشکوک انداز میں دیکھنا شروع کر دیں گے۔ وہ توقع رکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ انتخابی سیاست کو چھوڑ کر خلق کی خدمات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائے اور اپنے اخلاقی وزن کو بڑھائے۔ یہی اُن کیلئے معتبر ہے۔اس ضمنی الیکشن میں تحریک لبیک اور ملی مسلم لیگ نے پہلی مرتبہ الیکشن میں حصہ لیکر اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے وہ آئندہ عام انتخابات میں ملک بھرمیں ایک منظم قوت کے طور پر نہ صرف ن لیگ کے ووٹ بنک کو کم کرنے میں کامیاب ہونگی بلکہ دیگر مذہبی جماعتوں کی دوغلی پالیسی کا بھانڈا بھی پھوڑیں گی۔
آخر میں الیکشن کمیشن کے گوش گزار چند باتیں جو نئی تونہیں لیکن ایک بار پھر کمیشن کو باور کرانا ضروری ہے کہ اسکی کریڈیبلٹی ہمیشہ مشکوک رہی ہے۔ اس ضمنی الیکشن میں بھی فافن نے ساڑھے چار سو سے زائد بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے۔ الیکشن مہم کے دوران سرکاری مشینری کااستعمال، ترقیاتی کام، وزرا کی کھلے عام ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کی شکایات الیکشن کمیشن میں درج کرائی جاتی رہیں مگر کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا گیا۔ گو پولنگ والے دن فوج نے بہت بہتر کنٹرول کیا مگر ووٹرز کی طرف سے ووٹ دوسرے علاقوں میں منتقل کرنے کی شکایات رہیں۔
پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کارکنوں کے درمیان چپقلش اور ہاتھا پائی کے واقعات غیر قانونی الیکشن کیمپ، پارٹیوں کی طرف سے ووٹرز کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنا اور اربوں روپے کے اخراجات الیکشن کمیشن کا منہ چڑھاتے نظر آئے۔ الیکشن کمیشن کی ناقص منصوبہ بندی اور بد انتظامی کی وجہ سے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے میں رکاوٹوں کا بھی سامنا رہا۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق 44نمبر کے امیدوار کاانتخابی نشان ہی بیلٹ پیپر پر پرنٹ نہ ہوا جس سے یہ الیکشن کالعدم ہو سکتا ہے۔الیکشن کمیشن سے عوام یہ پوچھنا چاہتے ہیں کیا اس نے ایسی کوئی ا سٹڈی کی کہ ایک بیلٹ پیپر پر اگر 50 کے قریب امیدوار ہوں توایک ووٹر کوووٹ کاسٹ کرنے میں کنتی دیر لگتی ہے ؟ اگر ایک پولنگ ا سٹیشن میں چار بوتھ ہیں تو کتنے ووٹرز کو انتظار کیلئے کتنی جگہ درکار ہے ؟ ایسے امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کے بیٹھنے کیلئے جگہ کا انتظام کیوں نہیں تھا؟ اس حلقے میں 29ہزار ووٹ ایسے تھے جنکے انگوٹھے کے نشان اور شناختی کارڈ نمبر نہیں تھے جنکی نشاندہی الیکشن سے پہلے کی گئی مگر الیکشن کمیشن کی طرف سے اس پر واضح فیصلہ کیوں نہ کیا گیا ؟خود سیکریٹری الیکشن کمیشن یہ فرما چکے ہیں کہ 12فیصد ووٹرز کی بائیو میٹرک تصدیق نہیں ہوسکی۔ اسطرح پورے پاکستان میں یہ تعداد ایک کروڑ 12لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ ہمیشہ ووٹر فہرستوں میں غلطیوں کی شکایات رہی ہیں مگر یہ درست نہ کی جاسکیں۔ کیا انکی موجودگی میں کسی طور پر فیئر، فری اور دھاندلی سے پاک الیکشن ہو سکتے ہیں ؟ ہمیشہ کی طرح اس ضمنی الیکشن میں بھی بیلٹ باکس، فارم 14اور15کیوں کم تھے ؟ 39 پولنگ اسٹیشن پر ایک سو بائیو میٹرک مشینیں استعمال ہوئیں جو شناختی کارڈ کی تصدیق نہیں کر سکیںتو یہ دھاندلی روکنے میںکیسے مدد گار ہو سکتی ہیں ؟ جسٹس عبادالرحمن نے ایک پٹیشن میں یہ ریمارکس دیئے کہ کاغذات منظور یا مسترد کئےجانے کا جواز نہ لکھنا ریٹرنگ آفیسرکا الیکشن قوانین کیساتھ ایک مذاق ہے۔ اس لئے اس ضمنی الیکشن میں الیکشن کمیشن کیلئے سب سے زیادہ سبق ہے اور وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دور نہیں کرتا تو ملک میں ایک سومرتبہ بھی الیکشن ہو جائیں کوئی بہتری نہیں آسکتی اور نہ ہی ہم ایسے کسی الیکشن کو فیئر، فری اور دھاندلی سے پاک کہہ سکتے ہیں !

تازہ ترین