• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مرتبہ پھر دہرادوں کہ ہم سب محب وطن ہیں۔ اس بات میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ آپ مخمصوں میں تب پڑتے ہیں جب آپ وطن سے ہماری محبت کی تہہ تک پہنچ نہیں پاتے۔ کیا ہوا اگر ہم روڈ راستوں، گلی کوچوں، چوراہوں اور باغیچوں میں کوڑا کرکٹ اور گند کچرا ڈالتے ہیں۔ وطن سے ہماری بے انتہا محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ہر جگہ گند پھیلائیں تاکہ میونسپلٹی کا عملہ، جمعدار اور خاکروب روزگار سے لگے رہیں۔ ان کے بچے بھوکے نہ مریں۔ مگر بے جا تنقید کرنے والے ہم محب وطن لوگوں کی نیتوں پر شک کرنے سے باز نہیں آتے۔ بھائی ہماری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نے روڈ راستوں اور باغیچوں میں کوڑا کرکٹ ڈالنا چھوڑ دیا اور اپنا ملک صاف ستھرا رہنے دیا تو پھر صفائی پر مامور عملہ کیا کرے گا؟ مفت کی روٹیاں توڑتا رہے گا؟ ان کے رزق حلال کے لئے لازمی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ گندا ڈالیں اور گند پھیلائیں تاکہ میونسپلٹی کا عملہ رزق حلال کماتا رہے اور ملک میں گند پھیلانے والوں کو دعائیں دیتا رہے۔
تنقید کرنے والوں اور تجزیہ کاروں اور تجزیہ نگاروں کو زیب نہیں دیتا کہ ہماری بے لوث حب الوطنی پر انگلی اٹھائیں ہم محب وطن لوگوں کی بہت بڑی تعداد موٹرسائیکل چلاتی ہے۔ کیا ہوا اگر ہم دوران سفر سرخ بتی پر نہیں رکتے۔ نااہل سیاستدانوں کی وجہ سے ہم ہر کام میں دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ تعلیم، تربیت، ٹیکنالوجی اور صنعت وحرفت کے میدان میں وقت کے برق رفتار گھڑ سواروں نے ہمیں صدیوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ ہمارے لئے کیا ضروری ہے؟ سرخ سگنل پر رکنا، یا پھر سرخ بتی کی رکاوٹ توڑ کر آگے نکل جانا؟ وقت کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے آگے نکل جانے کے جنون میں کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ سگنل کی لال پیلی اور سبز بتیاں کیا چیز ہیں؟ ان کی اہمیت کیا ہے؟ جب بھی امیر امرا روڈ راستوں سے گزرتے ہیں تب لال،پیلی اور سبز بتیاں گل ہوجاتی ہیں اور وہ اشراف دن میں پچاس مرتبہ روڈ راستوں سے گزرتے ہیں۔ بم پروف گاڑیوں میں کبھی وہ خود تشریف فرما ہوتے ہیں اور کبھی ان کی بیگمات، بہو بیٹیاں، ولی عہد، بیٹے، داماد، حتیٰ کہ جب ان کے مالشیے بھی ان کی گاڑیوں میں آتے جاتے ہیں تب لال، پیلی اور سبز بتیوں والے سگنل بند کردئیے جاتے ہیں کہ وہ تیزی سے آگے نکل جائیں اور پھر دن میں پچاس مرتبہ بجلی آتی جاتی رہتی ہے۔ ٹریفک سگنل اکثر بند یا ناکارہ رہتے ہیں۔ اب آپ خود ہی سوچیں کہ ایسے ناقص سگنل کی اہمیت کیا ہوسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسی قوم کے لئے جو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو اور جو قوم برق رفتاری سے آگے بڑھناچاہتی ہو؟ موٹرسائیکلوں پر سوار ہم محب وطن اگر سرخ بتی کے اشارے پر نہیں رکتے تو اس امر کے پیچھے ہماری حب الوطنی کاجذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ ہم اپنے ملک کو تیزی سے تعلیم،تربیت، ٹیکنالوجی، صنعت وحرفت اور سائنس کے میدان میں دنیا سے آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ اس نیک مقصد کیلئے ہر محب وطن پر لازمی ہے کہ ان کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو پھلانگ جائیں۔ منزل مقصود تک پہنچنے کیلئے سرخ اور سبز بتیوں کو خاطر میں ہرگز نہ لائیں۔
میرے بھائیو اور بہنو! الزام تراشی کرنا بہت آسان کام ہے۔ سچے اور مخلص لوگوں کی نیت پر شک کرنابھی آسان کام ہے۔ مگر بات سمجھنا اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ ہر شخص اپنے طور طریقے سے محبت کا اظہار کرتا ہے اول درجے کے لوگ اول درجے کا اظہار محبت کرتے ہیں۔ دوئم درجے کے لوگ دوئم درجے کا اظہار محبت کرتے ہیں اور تیسرے درجے کے لوگ تیسرے درجے کا اظہار محبت کرتے ہیں۔ میرا شمار تیسرے درجہ کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں تیسرے درجے کا طالب علم ہوتا تھا۔ کرکٹ کی فرسٹ کلاس ٹیم میں کھیلنے کے لئے مجھے چانس نہیں ملتا تھا۔ دوسرے درجے کی ٹیم میں بھی میرے لئے گنجائش نہیں تھی۔ میں تیسرے درجے کی ٹیم کے لئے کھیلتا تھا۔ تیسرے نمبر پر بیٹنگ کرنے جاتا تھا اور تین رن بنانے کے بعد رن آئوٹ ہوجاتا تھا۔ میں ٹرین کے تھرڈ کلاس یعنی تیسرے درجے کے ڈبے میں سفر کرتا تھا اور اکثر منزل آنے سے تین اسٹیشن پہلے یا پھر تین اسٹیشن بعد میں ٹرین سے اتر جاتا تھا۔ میں ہوائی جہاز میں اس لئےسفر نہیں کرتا کیوں کہ ہوائی جہاز میں تھرڈ کلاس نہیں ہوتی۔ زندگی بھر تیسرے درجہ میں سفر کرتے ہوئے میں نے سیکھا ہے کہ فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس اور تھرڈ کلاس میں سفر کرنے والے ایک وقت پر منزل مقصود تک پہنچتے ہیں یا پھر کریش Crash ہوجاتے ہیں۔ اس وقت میں تیسرے درجہ کے محب وطن لوگوں کے حوالے سے بات کررہا ہوں لہٰذا پہلے اور دوسرے درجے کے محب وطن دل برداشتہ نہ ہوں۔ ان کے بارے میں ان شاء اللہ اگلے منگل کے روز حب الوطنی کی مثالیں دی جائیں گی۔
انگلی اٹھانے والے الزام تراشی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر ٹونٹی سے پانی پینے کےلئے ایلمونیم کے گلاس زنجیر سے بندھے ہوئے ہوتے تھے! یہ عمل ایک فلسفے کے تحت ہوتا تھا۔ فلسفہ سمجھنے کے بجائے زنجیروں سے بندھے ہوئے سلور کے گلاسوں پر اعتراض کیا جاتا تھا۔ تصویروں کے ساتھ اخبارات میں مضامین شائع ہوتے تھے۔ افسوس ہوتا تھا ایسے مضامین پڑھ کر اچھے خاصے، دیکھے بھالے دانشور زنجیر سے بندھے ہوئے گلاس کے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ وہ ایک راگنی الاپتے رہتے تھے ’’کیا ہم اس قدر گھٹیا قسم کے چور ہیں کہ ایلمونیم کا گلاس چرانے سے بھی باز نہیں آتے!‘‘ یہ دانشوروں کی سوچ تھی۔ وطن سے بے تحاشہ محبت کرنے والے ایک ہی گلاس سے قوم کو پانی پلانا چاہتے تھے۔ ہمارے بڑے بوڑھے فرماتے تھے کہ ایک ہی تھالی سے کھانا کھانے اور ایک ہی گلاس سے پانی پینے سے محبتیں بڑھتی ہیں اور بھائی چارے کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ جب تک لوگ زنجیر سے بندھے ہوئے گلاس سے پانی پیتے تھے تب تک ریلوے اسٹیشنوں اور ایئرپورٹوں پر ہنگامے نہیں ہوتے تھے۔ مسافر، مسافروں کو خیرآباد اور خدا حافظ کہنے والے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر ناچتے گاتے رہتے تھے۔

تازہ ترین