• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے سیاحت سے بے حد لگائو ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر سیاحت کی غرض سے مختلف ممالک جاتا ہوں۔ میں اب تک 60 سے زائد ممالک کے دورے کرچکا ہوں، میرا یہ یقین ہے کہ کتابیں پڑھنے سے آپ کے علم اور سیاحت سے آپ کے مشاہدے میں اضافہ ہوتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک مصنف کو کتابوں اور سیاحت سے ضرور لگائو ہونا چاہئے۔ اسلامی دنیا میں ترکی کے علاوہ جس ملک میں پاکستانیوں کو سب سے زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ مراکش ہے جس کی ایک وجہ فرانس کے تسلط سے مراکش کی آزادی کی تحریک میں پاکستان کا کردار ہے جس میں پاکستان نے اپنے مراکشی بھائیوں کا بھرپور ساتھ دیا تھا، اسی لئے مراکشی باشندے پاکستانیوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
1952ء میں مراکش پر فرانس کا تسلط تھا اور فرانس مراکش کو اپنی نوآبادیاتی تصور کرتا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر جب مراکش کے شاہ محمد پنجم کی طرف سے بھیجے گئے تحریک آزادی کے سرگرم رہنما احمد عبدالسلام بلفرج مراکش کی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے کیلئے کھڑے ہوئے تو وہاں موجود فرانسیسی نمائندے نے اُنہیں یہ کہہ کر خطاب کرنے سے روک دیا کہ ’’مراکش چونکہ فرانس کی کالونی ہے، اس لئے احمد بلفرج کو اس پلیٹ فارم سے بولنے کی اجازت نہیں۔‘‘ اجلاس میں شریک پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان نے جب ایک مسلمان رہنما کے ساتھ فرانسیسی نمائندے کا ہتک آمیز سلوک دیکھا تو انہوں نے احمد بلفرج کو پاکستانی شہریت کی پیشکش کی اور رات گئے اُنہیں پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ اگلے روز احمد بلفرج نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان چیئر سے خطاب کرکے مراکش کی فرانس کے تسلط سے آزادی کے حق میں آواز بلند کی جس نے مراکش کی تحریک آزادی میں نئی روح پھونک دی اور بالاخر 19 نومبر 1956ء کو مراکش، فرانس کے تسلط سے آزاد ہوگیا۔ آزاد مملکت کے قیام کے بعد مراکش کے بادشاہ محمد پنجم نے احمد عبدالسلام بلفرج کو مراکش کا پہلا وزیراعظم نامزد کیا۔ احمد بلفرج آج اس دنیا میں نہیں مگر وہ جب تک وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے، انہوں نے اپنے دفتر میں پاکستانی پاسپورٹ کی کاپی آویزاں کئے رکھی اور وہ ملاقات کیلئے آنے والے ہر شخص کو پاکستانی پاسپورٹ دکھاتے ہوئے بڑے فخر سے کہتے تھے کہ ’’مراکش کی تحریک آزادی میں پاکستان اور پاکستانی پاسپورٹ نے اُن کی بڑی مدد کی۔‘‘ احمد بلفرج کے تاریخی پاکستانی پاسپورٹ کی ایک کاپی میرے پاس آج بھی محفوظ ہے۔
مراکش اور پاکستان دو برادر اسلامی ممالک ہیں جو محبت و اخوت کے رشتے سے بندھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک او آئی سی کے سرگرم رکن ہیں اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات نصف صدی سے بھی زیادہ پرانے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں۔ مراکش دو حوالوں سے اسلامی دنیا میں مشہور ہے۔ عظیم جنگجو طارق بن زیاد کا تعلق مراکش سے تھا جنہوں نے جبل الطارق کے مقام پر اپنی کشتیاں جلاکر اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کو شکست دی تھی۔ طارق بن زیاد کی فتح یورپ میں اسلام کی آمد کا سبب بنی اور مسلمانوں نے 800 سال تک حکمرانی کی۔ اسی طرح عظیم سیاح ابن بطوطہ کا تعلق بھی مراکش سے تھا جن کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ 1333ء میں سندھ کے علاقے سیہون تشریف لائے، اس لحاظ سے مراکش کے لوگ اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان اور مراکش کے تعلقات چند عشروں پر نہیں بلکہ کئی صدیوں پر محیط ہیں۔ کاروبار کے سلسلے میں میرا کئی بار مراکش آنا جانا رہتا ہے اور میں پاکستان کے بعد مراکش کو اپنا دوسرا ملک تصور کرتا ہوں۔ مراکش سے گہری وابستگی کی بنا پر مراکش حکومت کی جانب سے مجھے 2005ء میں پاکستان میں مراکش کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے تعینات کیا گیا اور چند سال قبل مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے میری خدمات کے صلے میں مراکش کا قومی اعزاز ’’وسان علاوی‘‘ عطا کیا جو نہ صرف میرے لئے بلکہ پاکستان کیلئے بھی بڑے اعزاز کی بات ہے۔
مراکش کے موجودہ بادشاہ محمد ششم الاوت سلسلے کے 18 ویں بادشاہ ہیں، ان کا تعلق خانوادہ رسولﷺ سے ہے اور حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم سے آراستہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ مراکش کے عوام اپنے دلوں میں آپ کیلئے انتہائی عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد حسن دوئم کی وفات کے بعد بادشاہت کا منصب سنبھالا اور ان کی تخت نشینی کی سالگرہ جسے ’’عید العرش‘‘ بھی کہا جاتا ہے، گزشتہ دنوں مراکش سمیت دنیا بھر میں بڑے جوش و خروش سے منائی گئی۔ مراکش کے بادشاہ محمد ششم کی تخت نشینی کی 18 ویں سالگرہ کی مناسبت سے میں نے کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا جس میں شرکت کیلئے مراکش کے سفیر محمد کرمون اسلام آباد سے خصوصی طور پر کراچی تشریف لائے۔ تقریب میں حکومت کی نمائندگی گورنر سندھ محمد زبیر، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی، صوبائی وزیر ناصر علی شاہ، ڈی جی نیب الطاف باوانی، ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل، سینئر نائب صدر عامر عطا باجوہ، مرزا اختیاربیگ، مختلف ممالک کے قونصل جنرلز، سفارتکاروں، سیاستدانوں، بزنس لیڈرز اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب کا آغاز مراکش اور پاکستان کے قومی ترانوں سے کیا گیا جس کے بعد مراکش کے پرچم کے طرز پر بنا کیک گورنر سندھ محمد زبیر، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے مراکش کے سفیر محمد کرمون کے ہمراہ مل کر کاٹا۔ اس موقع پر گورنر سندھ محمد زبیر اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنے مختصر خطاب میں پاکستانی عوام اور حکومت کی جانب سے مراکش کے بادشاہ اور عوام کو شاہ محمد ششم کی تخت نشینی کی 18 ویں سالگرہ پر مبارکباد دی اور کہا کہ مراکش اور پاکستان برادر اسلامی ممالک ہیں جو محبت و اخوت کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دونوں ممالک کے مابین تجارتی، ثقافتی اور سیاحتی تعلقات میں اہم کردار ادا کرنے پر میری کوششوں کو بھی سراہا۔ مراکش کے سفیر محمد کرمون نے اپنے خطاب میں گورنر سندھ محمد زبیر، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور دیگر مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے تقریب میں شرکت کرکے مراکش کے بادشاہ محمد ششم سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ دوران خطاب انہوں نے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان باہمی تعلقات کے فروغ پر بھی زور دیا۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ مراکش کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے میری پوری کوشش ہے کہ دونوں ممالک کے مابین تجارتی و باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوں جس کیلئے سرگرم عمل ہوں۔ اس موقع پر میں نے پاکستانی عوام اور اپنی جانب سے مراکش کے بادشاہ اور عوام کو تخت نشینی کی 18ویں سالگرہ پر مبارکباد دی اور کہا کہ پاکستانی عوام اپنے مراکشی بھائیوں کی خوشیوں میں برابر کے شریک ہیں۔ اس موقع پر میں نے دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارت و سرمایہ کاری کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ دوران تقریب میں نے شاہ محمد ششم کی جانب سے عطا کیا گیا مراکش کا قومی اعزاز ’’وسان علاوی‘‘ پہن رکھا تھا جسے شرکاء نے بے حد سراہا۔ تقریب کے اختتام پر مہمانوں کی تواضح مراکش سے خصوصی طور پر آئے ہوئے شیف کے بنائے گئے مراکشی کھانوں اور پودینے سے بنی مراکش کی خصوصی چائے سے کی گئی۔
طارق بن زیاد اور ابن بطوطہ کے ملک مراکش کو اللہ تعالیٰ نے بے انتہا حسن سے نوازا ہے، یہ ملک دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے اسلامی اور تاریخی اعتبار سے انتہائی کشش رکھتاہے۔ ہمیں چاہئے کہ سیاحت کے حوالے سے امریکہ اور یورپی ممالک کے مقابلے میں اسلامی ممالک کو ترجیح دیں جس سے نہ صرف اسلامی ممالک کی سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع میسر آسکے گا۔

تازہ ترین