• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وجہ اچھی یا بری،بے نظیر اور خلافِ دستوربھی،آج کے دن حکومت اور اپوزیشن دونوں نواز شریف کے تصرف میںہیں۔ لڑائی، آسان یا مشکل، مختصر یا طویل، بات حتمی آنے والے دنو ںمیں وطنی سیاست کا محور نواز شریف ہی ۔ پاناما کیس کافیصلہ آتے ہی ،موجود اپوزیشن پارٹیاں غیر متعلق، بے واسطہ ہو چکیں۔بحیثیت اپوزیشن لیڈر نواز شریف کا مخاصمت، مخالفت اور جھگڑا جی ٹی روڈ تقاریر سے لیکرNA120کی انتخابی مہم بلکہ آج تک کے بیانیے تک، نشانے کی زد میں مخالف سیاسی جماعتیںکہیں بھی نہیں۔ جو کوئی بھی؟نام لینے سے احتراز و اجتناب ضرور، اپنا نقطہ نظر جمہور کو سمجھا دیا۔ آنے والے دنوں میں موجود ہ جمہوری سسٹم چلتاہے یا نہیں، موجودہ تمام سیاسی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی، تحریک انصاف سب کے سامنے راستے دو ہی، نواز شریف کی امامت میں صف بندی یا پھرمستقبل کی بننے والی کنونشن لیگ /ق لیگ میں نمایاں مقام کا حصول رہے گا۔ میری فکر ، پریشانی اتنی ، ریاست کےبعض پریمیر ادارے عوام الناس میں متنازع ہو چکے۔ عدلیہ یا دفاعی اداروں کے بارے میں کسی حمایت یا مخاصمت پر گروہ بندی کا تاثر عام رہناکسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ وطن عزیز کا نصیب اورکیا ٹیڑھاہوگا؟ فائق، طاقتور، معززریاستی ادارے) (APEX INSTITUTIONS بارے تنازعے پنپ رہے ہیں۔قومی بحران ہی کہ دوبڑی سیاسی پارٹیاں بمع لواحقین، متاثرین قومی اداروںپراعتماد اور بد اعتمادی کی جنگ میں آمنے سامنے صف آرا ہیں۔ ریاست کی تباہی کااس سے زیادہ آزمودہ ، آسان نسخہ اورکیارہتا ہو گا؟ دھرنا2014 سے لیکر پاناما2017، سب کے پیچھے ایک اسکرپٹ ہونا، طبیعت بوجھل کر جاتا ہے۔ 2014 میں ننگ دھڑنگی مہم کا بھلا کیا جواز تھا؟کیا افتادآن پڑی کہ نواز حکومت کا قلع قمع کرنے کے لئے مہرے میدان میں اتارے گئے؟تب سے نواز شریف کا جینا دوبھر ، بغیر توقف درگت بنائی گئی۔آخر کار ماورائے آئین اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا۔ادلے کا بدلہ، ن لیگ آگ بگولہ اعلانِ جنگ کر چکی ۔دوسری طرف ’’سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کا بیانیہ‘‘ ،حکمران جماعت کا چندطالع آزمائوں کی نادانی اور ہٹ دھرمی کے بدلے ریاست کے حساس سیکورٹی معاملات کو آڑے ہاتھوں لینا، کسی طورحوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔
ایک حکایت، دو عورتوں کے درمیان بچے کی ملکیت کا جھگڑا شدت اختیار کر گیا، قاضی القضا کی عدالت میں پہنچ گئیں۔بچے کی اصلی ماں ہونے کی دونوں دعوے دار ، قاضی صاحب مخمصوں کے گرداب میں، بالآخر فیصلہ سنایا ، جلاد کو حکم ملا،بچے کو دو حصوں میں کاٹ کربرابر تقسیم کر دیں۔ بچے کی اصلی ماں پکار اٹھی کہ ’’بچہ میرا نہیں، دوسری عورت کا ہے، خدا کے واسطے قتل نہ کریں اسکے حوالے کر دیں‘‘۔
کیا مادر ِوطن کو بھی کوئی ایسا دردمند ملے گا جواقتدار اور اختیار کی بھیانک جنگ سے دستبردار ہو جائے؟ریاست پر حقوقِ ملکیت جتلانے والے اختیارات و اقتدار کے حصہ دار، اپنے حصہ پر قبضہ رکھنے کے لئے وطنِ عزیز کو دولخت رکھنے پرکیوں مُصر ہیں؟ بدقسمت قوم،47سال پہلے ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ پر بچے کو دولخت ہوتے دیکھ چکی۔ ’’اُدھرہم نہ اِدھر تم‘‘ ، کمال بے اعتنائی اور ہٹ دھرمی سے وطن عزیز روندڈالاگیا۔حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں بڑی ذمہ داری عسکری قائدین پر ڈالی گئی۔سبق کون ، کیوں، کیسے سیکھا جائے؟ خاکم بدہن، کیا تاریخ دہرانے کو؟ مسلم لیگـ ن، آج کی تاریخ میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، اسکے چاہنے، ماننے والوںکی شعلہ افشانی کا بڑے اداروں بارے شعلہ جوالا بننا، بربادی کا پیش خیمہ ہی سمجھیں۔ غلط فہمی نہیں کہ سالوں سے امریکہ اور بھارت وطن عزیز میں انتشار ، افراتفری ، انارکی عام کرنے میں کمر بستہ ،کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں۔وطن دشمن طاقتیںعرصے سے تاک میں، اپنا حصہ ڈالنے میں ہمیشہ مخیر، ایسے حالات میں مذموم مقاصد کو پروان چڑھانا بنتا ہے۔مشرقی پاکستان کو بھی بالآخر بھارت ہی نے فتح کیا تھا، زخم ابھی ہرے ہیں۔عرصے سےتکرار رہی ہے، ’’فیصلہ کوئی بھی ہوتا،نواز شریف بری الذمہ ٹھہرتے یا ذمہ دار، فیصلے نے قوم کو فقط تتربتر کر نا تھا‘‘۔صورتحال، فکر اور سوچ سے زیادہ گمبھیر،آج سیاسی عدم استحکام ڈیرے ڈال چکا ہے۔ انواع واقسام کی خاص و عام اشرافیہ کا اوڑھنا بچھونا سوشل میڈیاعرصے سے جلتی پر پیڑول کا کام کر رہا ہے۔شروعات نواز شریف کی تضحیک سے ہوئیں۔ جوابی وار ، وہی سوشل میڈیا اداروں کی تضحیک، توہین، مخالفت پروپیگنڈہ میں بھی زور اور شدت پکڑ چکاہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان گاہے بگاہے اپنے خلاف پروپیگنڈے کی موجودگی پر اپنے ریمارکس میںبرملا اظہاربھی کرتے رہے۔یقیناًعسکری ادارے بھی متاثرہورہے ہیںکہ قوم تقسیم ہو چکی ہے۔لیگی رہنمائوں کی ’’پہلے اپنے گھر کی صفائی‘‘ پر تکرار، ریاست پاکستان کے سیکورٹی پراڈئم پر کڑا وارہے۔ لیگی قائدین کس طرف جا رہے ہیں کیا بھارت سچ بول رہا ہے، لعنت ہے ایسی سیاست پر۔ایسا بیانیہ نہ صرف ہماری دفاعی صلاحیتوں کو محدود کر رہا ہے، قومی سلامتی کے کئی دوسرے معاملات کوبھی نقصان پہنچائے گا۔ یہ بیانیہ تو بھارت اور امریکہ کا ہے، ن لیگ کیوں بغلگیر ہو چکی ۔بھارت میں جشن کا سماں ہے۔چوہدری نثارکی اپنی پارٹی پر بروقت گرفت خوش آئند، وقتی سیاسی فائدہ اورمفاد میں قومی سلامتی امور پر حملے ناقابلِ برداشت ہیں۔اس پیرائے میں ڈان لیکس پہلے ہی خاطر خواہ نقصان پہنچا چکی ہیں۔ دو رائے نہیں کہ قومی سلامتی کے معاملات پرہمارے عسکری اداروں کی جانکاری غیر مبہم، زودفہم، واضح اور خالص ہے۔ سیاستدان طالع آزمائوں کے ستائے ضرور،قومی سلامتی معاملات کوپھر بھی آڑے ہاتھوں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اداروں کو بہرحال اپنی ادائوں پر غور کرنا ہو گاکہ بڑے ذمہ دار خود ہیں۔موجودہ سیاسی عدم استحکام نے بالآخر ریاستی عدم استحکام کو جنم دینا ہے۔سب سے زیاد ہ نقصان اداروں کا کہ تنازع کا حصہ نظر آ رہے ہیں۔ اگر اداروں کا کنڈکٹ صاف شفاف، غیر جانبدار، واضح رہتا ،توعام پاکستانی نے قیادت اور پارٹی مفادات سے بالاتر، اداروں کے بارے میںغیر جانبدار رہناتھا۔ حلقہ120کے انتخابی دنگل اور خصوصاً حتمی نتیجہ آنے سے پہلے، سینکڑوں ہزاروں عام آدمیوں کا اداروں کی مخالفت اور حمایت میں کھلے عام نعرے بازی کرنا،خطرے کی گھنٹیا ں ٹن ٹن پکار رہی ہیں۔ خطرات میں گھرے وطن عزیز میں دلجمعی سے اس قسم کے انتشار، افراتفری اور ٹکرائو کو پروان کیوںچڑھایا گیا؟ وطن عزیز میں سب سے زیادہ مستفید ہونے والے سیاستدان، ادارے، اشرافیہ میںسے کوئی ہے جواپنےلالچ طمع، مفادسے دستبردار ہو جائے۔ سیاسی عدم استحکام جس نے قومی سلامتی کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا ہے، سدباب ہو پائے گا ؟ شریف خاندان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا تصورنہ صرف قبیح ،ناممکن ہے۔شریف خاندان کوتہہ تیغ کرنا ،انصاف ،قانون اور آئین کے مطابق بھی رہاتو دائمی ٹکرائو اور فسادآنے والے وقت میں رنگ جمائے رکھے گا۔
بھیڑئیے اور میمنے کی بچپن میںپڑھی کہانی آج بھی سبق آموز۔ بھیڑئیے نے میمنے کو جنگل میں ندی کنارے پانی پیتے دیکھا تو ہڑپ کرنے کا ارادہ بنا لیا،تحکمانہ بولا،ـ’’دیکھا نہیں میں پانی پی رہا ہوں، تم میرا پانی جوٹھا کر رہے ہو‘‘۔میمنے نے کسمپرسی سے جواب دیا ’’پانی کابہائو تو جناب کی طرف سے میری جانب، جوٹھا کیسے ؟‘‘ بھیڑیا کھسیانا ہوئے بغیرگرجا،’’تم نے مجھے پچھلے سال گالی دی تھی‘‘۔ میمنا منمنایا،’’جناب میری عمر چھ ماہ، پچھلے سال تو پیدا ہی نہیں ہوا تھا‘‘ ۔بھیڑیا لپکا،’’پھر وہ تمہاری ماں ہو گی‘‘ ، پلک جھپکتے ہڑپ کرلیا۔خاطر جمع، نواز شریف میمنا نہیں، ہڑپ کرنا ممکن مگرہضم کرنا مشکل رہے گا۔ اب جبکہ پانامہ فیصلہ آ چکا، سوال اہم، بفرض محال نواز شریف کے پا س اقامہ نہ ہوتا تو سزا کس جرم پر ملنا تھی؟ کیانواز شریف صاحب کی والدہ محترمہ کا اقامہ پھرولا جاتا۔ یوں لگتا ہے کہ والدہ کے اقامے پر بھی نا اہل نواز شریف ہی نے ہوناتھاکہ شریف خاندان کے ہر فرد کوچن چن کر صفحہ ہستی سے مٹانا مقصد تھا۔ یہی بات عمران خان بار بار دہرا رہا ہے’’اگر مجھے اقتدار میں لانا ہے تو پہلے شریف خاندان کو ملیا میٹ کرو۔‘‘
مملکت ِ خداداد اسلامیہ کی سب سے زیادہ ضرورت افواج پاکستان کو کہ انکا وجہ وجود ہی مستحکم پاکستان سے لف ہے۔ ترکی، پاکستان، ایران مضبوط فوج رکھنے والے تینوں ممالک امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں ۔ بین الاقوامی جیو پالیٹکس اور ابھرتے نئے واقعات کے تناظر میںتینوں افواج نشانے پر ہیں۔ حفاظت اور مضبوطی سیاسی منتخب حکومت نے دینی تھی۔ موجودہ وطنی سیاسی عدم استحکام نواز شریف، عمران خان اور زرداری کسی بھی سیاستدان کو ماورائے آئین عدالتی فیصلوں کی آڑ میں زبردستی فارغ کرنے پر تباہی کو محنت شاقہ سے گھر لانا رہے گا۔کیا عسکری قیادت کو معلوم ہے کہ سیاسی عدم استحکام کا سب سے بڑا نقصان بلکہ پہلا وار افواج نے سہنا ہے۔کیا پاکستان ہوسِ اقتدار و اختیارات کی ایسی جنگ جو سیاسی عدم استحکام میں دھکیل جائے، متحمل ہو سکتاہے؟بین الاقوامی ہاتھی ایک دوسرے پر چنگھاڑ رہے ہیں۔ایسے حالات میں جبکہ ہاتھیوں کی لڑائی بہت جلد پاک سرزمین پرمنتقل ہونے کو، اداروں اور سیاسی جماعت لڑائی میں ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلاکررہے ہیں۔ اے میرے پیارے ہم وطنو! قیامت تُل چکی،آگ بجھانے والے پانی کی بجائے، اپنے اپنے حصہ کا ہائی اوکٹین ڈالنے کے لئے بڑھ چڑھ کر موجود، گھڑی بھلاکیسے ٹلے گی؟

تازہ ترین