• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کے حلقہ 120کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہونے پر ایک پرانے دوست مظہر ترمذی کا ایک وہ شعر یاد آگیا جو شاید انہیں بھی یاد نہ ہو:
موسم گزر گیا تو نمائش کے واسطے
چھلکے سجے ہوئے ہیں پھلوں کی دکان میں
جن موسموں میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے پھل پک رہے تھے وہ زمانے بہت مختلف تھے۔ ’’ایشیا سرخ ہے‘‘ یا ’’ایشیا سبز ہے‘‘ کے نعرے جس زمانے میں کلائمیکس پر پہنچے تھے ان کے پس منظر میں وہ خواب تھے جو ساٹھ کی دہائی میں بوئے گئے تھے۔ قطع نظر آزادی اور خون آشام تقسیم کے، ساٹھ کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے معاشرے میں کافی ٹھہراؤ آچکا تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں لٹے پٹے مہاجرین غیر مسلموں کے چھوڑے ہوئے دیہاتوں میں ایسے بس چکے تھے جیسے وہ ہزاروں سالوں سے یہیں بس رہے ہوں۔ تیسری صدی قبل از مسیح کے موریہ حکمرانوں نے جس طرح کے خود کفیل دیہات بسائے تھے وہ بیسویں صدی کے نصف تک اسی ڈگر پر چل رہے تھے۔ ملک کی نوے یا پچانوے فیصد آبادی انہی نیم خوابیدہ دیہاتوں اور قصبوں کی مکین تھی۔
ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کی قد آدم تصویریں حجاموں کی دوکانوں کے اندر چسپاں ہوتی تھیں اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے گن گایا کرتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نسیم حجازی، ایم اسلم اور رئیس جعفری کے ناول آنہ لائبریریوں یا کسی جماعت اسلامی کے رفیق اسکول ماسٹر کے حوالے سے نئی نسل تک پہنچ رہے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب اے آرخاتون، زبیدہ خاتون، رضیہ بٹ اور سلمیٰ کنول کے ناول یو پی کی اشرافیہ کی زندگی کے عکاس بن کر قصبوں اور دیہاتوں کے ذہنوں میں تہذیب کا ایک مختلف تصور پیش کر رہے تھے۔ اور یہی وہ دور تھا جب لاہور کی فلم انڈسٹری عروج پر تھی، زیادہ تر پنجابی فلمیں جاگیرداروں کے خلاف اور اردو فلمیں یو پی کی اشرافیہ کے گرد گھومتی تھیں۔ غرضیکہ سماجی ذہن میں نئے رومانی اور اسلامی خواب نمو پا رہے تھے۔ ان خوابوں کی تشکیل و ترتیب میں میکسم گورکی کی ’ماں‘اور دوستووسکی کے ’ذلتوں کے مارے لوگ ‘ بھی شامل ہو چکے تھے۔ ہاں ! منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر اور ساحر لدھیانوی بھی منظر نامے کا جزو تھے، فیض احمد فیض، ن۔ م۔ راشد اور مجید امجد اعلیٰ ادبی حلقوں تک محدود تھے۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں پیپلز پارٹی معرض وجود میں آئی اور جماعت اسلامی نے ایشیاء سبز کے نعروں سے ابھرتے ہوئے بائیں بازو کا توڑ کرنا شروع کیا تھا۔ عالمی سطح پر بھی دنیا مختلف تھی۔ چین، روس ، ویت نام اور کیوبا کے انقلاب دلوں کو گرما رہے تھے۔
ستر کی دہائی میں ساٹھ کی دہائی تک میں بوئے خوابوں کی فصل پک چکی تھی۔ 1970کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی فتح کی صورت میں درمیانے طبقے کے بہت سے لوگ اسمبلیوں میں پہنچ کر عوامی امیدوں کو نئی جہت دے رہے تھے۔ لیکن اس کے ردعمل میں جماعت اسلامی بھی مذہبی اور دائیں بازو کی طاقتوں کی نظریاتی رہنمائی کی مضبوط دعویدار بن کر سامنے آرہی تھی۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک میں جماعت اسلامی نے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا تھا اور اس کے نتیجے میں اس کی اسٹیبلشمنٹ سے قربتیں بڑھ چکی تھیں۔ ٹکراؤ کے تناظر میں جنرل یحییٰ خان کے نظریاتی محافظ جنرل شیر علی نے تعلیمی اداروں اور میڈیا کی تطہیر کا بیڑہ اٹھایا تھااس کا بنیادی مقصد بائیں بازو کے حامی عناصر کو اداروں سے نکالنا اور جماعت اسلامی کے نقطہ نظر کے حامیوں کو شامل کرنا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی جماعت اسلامی اپنی جڑیں مضبوط کرتی گئی اور یہی وجہ ہے کہ 1977 میں بھٹو مخالف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کی نظریاتی اور تنظیمی سربراہی اس کے ہاتھ میں تھی۔اس کے بعد ضیاء الحق کے زمانے میں تو جماعت اسلامی باقاعدہ اقتدار میں شامل ہو گئی اور اس کے حمایتی افغان جہاد کے لئے سرگرم ہو گئے۔ اس دور میں نسیم حجازی کے ماورائی مجاہدین، بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والے اخباروں اور میڈیا پر چھاتے گئے اور جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں کے غلبے کو بڑھانے کے لئے کامیاب مہم چلاتے رہے۔ اس کا نتیجہ ملک میں فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی صورت میں سامنے آیا جس نے ریاست کو جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا چنانچہ آخر میں مذہبی بیانیہ کی سر پرست اعلیٰ طاقتوں نے اس کی بیخ کنی شروع کردی۔
ستر کی دہائی بائیں بازو اور ترقی پسندوں کے خوابوں کے شکست و ریخت کا زمانہ تھا۔ بھٹو حکومت کے دو تین سالوں کے اندر بائیں بازو کی تنظیمیں اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر یکے بعد دیگرے قصہ پارینہ بنتی جا رہی تھیں۔ شاید بائیں بازو کی بربادی میں بھٹو حکومت کا کردار اتنا نہیں تھا جتنا کہ اس دھڑے کی نظریاتی تہی دستی کا تھا۔ ضیاء الحق نے اپنے دور میں رہی سہی کسر پوری کردی اور بائیں بازو کی باقیات کو ٹھکانے لگا دیا۔ بائیں بازو کے بہت سے کارکن بیرون ملک چلے گئے اور باقی ماندہ یا تو ذہنی پریشانیوں کا شکار ہو گئے یا پیسہ بنانے کے کھیل کا حصہ بن گئے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں بہت سے جیالوں نے کوڑے بھی کھائے اور پیپلز پارٹی کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ بہرحال نظریاتی سطح پر بایاں بازو معدوم ہو چکا تھا اور ملک میں جماعت اسلامی کا نظریاتی بیانیہ غالب آچکا تھا۔ لیکن اس بیا نئے کے نتیجے میں جو تخریب کاری ہوئی اس سے جماعت اسلامی کے صالحین کے خواب ویسے ہی چکنا چور ہوئے جیسے بھٹو دور میں بائیں بازو کے ہوئے تھے۔ گویا کہ ساٹھ کی دہائی کے خواب بیسویں صدی کے خاتمے سے پہلے ہی معدوم ہو چکے تھے۔
مندرجہ بالا نظریاتی ارتقاء کا دوسرا پہلو معاشی اور سماجی تبدیلیاں تھیں جو ستر اور اسی کی دہائی سے رو پذیر ہونا شروع ہوئی تھیں۔ ہزاروں سال تک قائم رہنے والا پیداواری نظام تیزی سے بدل رہا تھااور ایک نیا مشینی دور شروع ہو رہا تھا۔پرانا خود کفیل دیہی نظام اس طرح بدل رہا تھا کہ دیہات شہروں کے گیٹو بن گئے۔
اس بدلتے ہوئے زمانے میں دولت پیدا کرنے کے نئے اسباب پیدا ہوئے جن سے صالحین بھی فیضیاب ہوئے: نوے کی دہائی تک آتے آتے جماعت اسلامی چھوٹے موٹے تاجروں اور کاروباری لوگوں کی پارٹی بن کر رہ گئی تھی۔ لیکن وسیع تر تاجر طبقات نے مسلم لیگ (ن) کو اپنی جماعت کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔نتیجہ یہ ہے جماعت اسلامی کا نظریاتی اور سیاسی دائرہ کار محدود ہوتاگیا اور اب وہ میڈیا کے علاوہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔
پیپلز پارٹی کا زوال بھی ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے ہی شروع ہو چکا تھا لیکن ضیاء الحق کے جبر نے اسے زندہ رکھا۔ لیکن جب پیپلز پارٹی 1988میں بر سر اقتدار آئی اور اس کے رہنماؤں نے اسباب دولت کی لوٹ کھسوٹ میں برابر کا حصہ لینا شروع کیا تو اس کی رہی سہی نظری اساس بھی ختم ہو گئی۔ لاہور پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا لیکن ہر آنے والے الیکشن میں اس کا صفایا ہوتا گیا اور اب اس کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو جاتی ہیں۔ غرضیکہ ساٹھ کی دہائی کے خوابوں کو جلا دینے والی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔

تازہ ترین