• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر، افغانستان اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستانی موقف پر مبنی قابل ستائش تقریر کے بعد پاکستان واپس پہنچ کر اپنے سرکاری فرائض میں مصروف ہیں۔ لیکن ان کے بیان کردہ پاکستانی حقائق سے سخت ناراض بھارت اب تک اپنے ’’حق جواب‘‘ کا سہارا لے کر مشتعل انداز میں پاکستان پر جوابی الزامات کی سفارتی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ وزیراعظم عباسی کی تقریر کے جواب میں بھارتی مندوب نے حق جواب کا استعمال کرکے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کی پاکستان نے بھی جواب دیا۔ پھر 23؍ستمبر کو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنے مقررہ خطاب میں پاکستان کے خلاف زہر آلود الزامات لگائے تو پاکستان نے بھی حق جواب استعمال کرکے بھارت کو بے نقاب کیا پھر دونوں طرف سے الزامات اور جوابی الزامات کے لئے تین مرتبہ ’’حق جواب‘‘ استعمال کرکے جنرل اسمبلی میں پاک۔ بھارت سفارتی جنگ کو تیز کیا گیا۔ افغان حکمراں بھی بھارت کے طفیلی بنے اپنا حصہ ڈال چکے ہیں اور تادم تحریر اقوام متحدہ کے محاذ پر یہ پاک۔ بھارت تقریری اور سفارتی تصادم جاری ہے۔ اب تو بھارت نے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ میں ایک نئے باب کا اضافہ یوں کرلیا ہے کہ اقوام متحدہ کے باہر پاکستان کے وجود کے خلاف نعرے لگانے والے بعض ایسے پاکستانی۔ امریکن افراد کو بھی جمع کرلیا ہے جو ماضی میں امریکہ میں ’’سیاسی پناہ‘‘ حاصل کرچکے ہیں۔ بھارت۔ امریکہ تعاون اور مشترکہ مفاد کے زعم میں بپھر کر اپنی سفارتی اور عملی جنگ کی تیاریاں مکمل کرنے میں مصروف ہے۔ بھارتی میڈیا، سفارت کار اور ’’لاجسٹک انتظامات‘‘ سب ایک ہی سمت میں پاکستان کے خلاف مارچ کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارے سیاستدان ان غیرملکی خطرات سے بالکل بے نیاز ہوکر ماضی کے ’’بغداد‘‘ کی طرح گروہی اور فروعی موضوعات پر بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم کا اقوام متحدہ سے خطاب پاکستانی موقف کے حقائق پر مبنی موثر اور عوامی جذبات و توقعات کے مطابق تھا۔ انہوں نے پاکستانی موقف سفارتی آداب کے دائرے میں درست طور پر پیش کیا لیکن یہ الگ سوال ہے کہ عالمی برادری بالخصوص عصر حاضر کے طاقتور ممالک نے اس موقف کو کس حد تک قبول کیا یا ہمدردانہ غورکا یقین دلایا؟ اس مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ان کے حامی ممالک کے گروپ اور چین، روس اور ان کے حامی ممالک کے گروپ میں بٹی نظر آئی۔ پاکستان کے موقف کو چین، روس اور ان کے حامی ممالک کے گروپ نے خاموشی اور ہمدردی سے سنا ہے۔ جبکہ امریکی صدرٹرمپ نے اپنے خطاب میں ماہ اگست میں اپنی اعلان کردہ نئی افغان حکمت عملی کو دہرایا۔ بھارت کی بپھری ہوئی جارحانہ تقاریر اور سفارتی مہم اسی امریکی روئیے کے باعث ہے۔ افغان حکمرانوں نے بھی بھارت کے طفیلی کا رول ادا کیا ہے اور افغان صدر کی وزیراعظم عباسی سے ملاقات ملتوی اور پھر ’’منسوخی‘‘ کے درجے کو پہنچی۔ وزیراعظم عباسی کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات میں وزیراعظم نے جو بھی کچھ موقف بیان کیا ہو لیکن اس کے جواب میں یو این سیکرٹری جنرل نے عالمی امن کے لئے پاکستانی امن دستوں کے کردار کو تو سراہا ہے لیکن جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر جنگوں کی ایک تاریخ کے باوجود خطے اور پاکستان کو امن کی فراہمی کے لئے نہ کوئی وعدہ کیا نہ ہی کوئی رول اپنایا۔ اقوام متحدہ کا عباسی۔ گتریز ملاقات کے بعد جاری کردہ ’’ریڈ آئوٹ‘‘ ملاحظہ کرلیں۔ ترکی، ایران، سری لنکا کے سربراہان حکومت و مملکت سے ملاقاتیں پہلے سے موجود تعلقات کی سطح اور سمت کا اعادہ کرنا مقصود تھا سو وہ حاصل ہوا۔ برطانوی وزیراعظم سے چلتے پھرتے ایک علیحدہ اور مختصر گفتگو کے بارے میں وزیراعظم عباسی خود ہی بیان کرسکتے ہیں کیونکہ اس سال وزیراعظم عباسی کی تمام دو طرفہ ملاقاتوں کی تصاویر لینے کی اجارہ داری بھی صرف اور صرف سرکاری میڈیا کو حاصل تھی۔ ان تمام دو طرفہ ملاقاتوں میں زیر غور امور پاکستانی موقف، دوسرے ملکوںکو جواب دہی رپورٹس سرکاری بریفنگ یا وائس اپ کے ذریعے سرکاری حکام نے میڈیا کو فراہم کیا۔ میڈیا کی اکثریت کو ہر روز ملاقات و مصروفیات کی ایک صفحہ پر مرتب کردہ فہرست فراہم کی جاتی تھی جس میں ملاقاتوں کی جگہ، وقت اور دورانیہ سمیت کچھ بھی درج نہیں ہوتا تھا اور نہ یہ مجھ سمیت میڈیا کی اکثریت کو مزید تفصیلات کے لئے وزیراعظم یا وزیر خارجہ تک کوئی رسائی حاصل تھی۔اس دورہ اقوام متحدہ کی سائڈ لائن پر ہونے والی ایک اہم ملاقات وزیراعظم عباسی اور امریکی نائب صدر مائیک پنس کے درمیان اقوام متحدہ کے کانفرنس روم نمبر3 میں ہوئی۔ وزیراعظم عباسی کے ہمراہ وزیر خارجہ خواجہ آصف، سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی، امریکہ میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری اور فواد حسن فواد صاحب موجود تھے اسی طرح نائب صدر مائیک پنس کے ہمراہ ان کے اہم معاونین شامل گفتگو تھے۔ اس ملاقات کی تصویر کشی کے لئے بھی صرف سرکاری میڈیا کو چند سیکنڈ کی اجازت تھی۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی پریس اتاشی کا شکریہ کہ آخری لمحات میں انہوں نے خاموشی اور نرمی دکھائی میں اور ’’جیو‘‘ کے کیمرہ پرسن عظیم اے خان امریکی میڈیا کے ہمراہ مائیک پنس سے ملاقات والے کمرے میں نہ صرف داخل ہوگئے بلکہ دونوں طرف سے ابتدائی کلمات پر مشتمل گفتگو بھی اپنے ’’جیو‘‘ کے ناظرین کی خدمت میں خصوصی طور پر پیش کرسکے بلکہ میں نے امریکی نائب صدر مائیک پنس سے سوال بھی پوچھا مگر جواب نہیں ملا۔ مائیک پنس نے اپنے ابتدائی کلمات کا آغاز ہی صدرٹرمپ کی اعلان کردہ نئی افغان پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے کیا جس کا واضح مقصد پاکستان کی مخالفت اور بھارت کے ساتھ تعاون ہے۔ مائیک پنس سے وزیراعظم عباسی کی ملاقات اعلٰی سطح کا پہلا پاک۔ امریکہ رابطہ تھا۔ ہمارے پاکستانی سرکاری موقف کے مطابق یہ ملاقات مفید رہی اور اکتوبر میں ایک امریکی وفد کا اسلام آباد آنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن اس وفد کی تشکیل، تناظر، ترجیحات، ایجنڈہ کیا ہوں گے۔ اس بارے میں دونوں طرف سے خاموشی ہے اگر 40منٹ کی اس دو طرفہ ملاقات کو ’’بریک تھرو‘‘ کا نام دیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ملاقات میں ایسی کیا ہوا کہ صدر ٹرمپ اور ان کے مشیروں اور فوجی ماہرین کی چھ ماہ کی ملاقاتوں، کوششوں، ریسرچ اور انٹلی جنس اداروں کے تعاون اور مختلف لابیوں کی لابنگ کے بعد تیار کردہ پاکستان مخالف نئی افغان حکمت عملی کا دنیا بھرمیں اعلان کرنے کے بعد بھی اس 40منٹ کی ملاقات نے روک کر ’’بریک تھرو‘‘ حاصل کرلیا ہے؟۔ بھارت کا موجودہ جارحانہ رویہ کیا ظاہر کرتا ہے؟ وزیراعظم عباسی پر پاکستانی عوام کو حقائق بتانے کا فرض عائد ہوتا ہے۔ ہم اپنے دوروں کی کامیابی اور مختصر ملاقاتوں کو مفید اور اپنی کامیابی کا نام دے کر حقائق کو عوام سے چھپانے کے باعث رن کچھ سے لے کر کارگل تک کے پاک بھارت تنازعات، آبی وسائل کے معاہدے سے لے کر امریکہ اور اقوام متحدہ کو پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی کے بارے میں ’’خفیہ ڈوزئیے‘‘ دینے تک کافی نقصان اٹھا چکے ہیں سانحہ مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش کی علیحدگی پر بھی ڈھاکہ میں دشمن کی فوجوں کے داخلے تک اپنے ہی عوام سے حقائق چھپانے کی روش کو ترک کرکے پاکستان کے محب وطن عوام کو حقائق بتا کر اعتماد اور جذبے کے ساتھ پاکستان کی حفاظت اور دفاع کا نہ صرف بہتر طریقہ ممکن ہے بلکہ سیاستدانوں کے داخلی انتشار پھیلانے کو بھی ’’چیک‘‘ کیا جاسکتا ہے۔ امریکی ارب پتی بل گیٹس سے وزیراعظم کی ملاقات پاکستان میں پولیو کی تدارک کے حوالے سے گفتگو اور دیگر مفید موضوعات پر مرکوز رہی مگر کوئی نیا کمٹمنٹ سامنے نہیں آیا۔ امریکی کونسل فار فارن ریلیشنز میں وزیراعظم کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کی پرفارمنس مناسب کہی جاسکتی ہے روہنگیا کے مسئلے پر پاکستانی موقف دیگر مسلم ممالک سے زیادہ موثر تھا۔ ان تمام حقائق کو بیان کرنے کا مقصد نہ تو حوصلہ شکنی ہے نہ ہی وزیراعظم کے دورہ کو کامیاب یا ناکام ثابت کرنا ہے بلکہ دردمندی کے ساتھ قارئین تک مشاہدات اور حقائق پہنچانا ہے تاکہ وہ خود اپنی رائے قائم کرسکیں اور آنے والی مشکلات و مسائل کا قبل ازوقت تدارک سوچ سکیں۔ وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر میں مربوط انداز میں پاکستانی موقف بڑے اچھے اور موثر انداز میں بیان کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے اسے اعتماد کے ساتھ پڑھا لیکن خطاب کا وقت نہ تو اقوام متحدہ کے لحاظ سے مناسب تھا اور نہ ہی پاکستان کے عوام کے لئے موزوں تھا۔ تنازعات کے بارے میں واضح موقف اور لہجہ باوقار تھا البتہ امریکہ اور مغربی ممالک نے ابھی تک امریکی موقف کو ہی عملی اور حقیقی معنوں میں اپنا رکھا ہے۔ دورے اور دو طرفہ ملاقاتوں کی تفصیل آپ پہلے ہی جان چکے۔ داخلی تصادم اور یورشوں کو ترک کرکے بیرونی حالات و خطرات پر توجہ کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین