• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی،عراق، شام اور ایران جہاں پر 3کروڑ75 لاکھ کرد آباد ہیں اس پورے علاقے کو عام طور پر ’’کردستان‘‘ کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں ایک کروڑ کے لگ بھگ کرد آباد ہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں بھی کردوں کے اس علاقے کو ’’کردستان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور اسے ایک بہت بڑے صوبے کی حیثیت حاصل تھی۔انیس سوپندرہ اور انیس سو اٹھارہ میں ترکی کے کردوں نے سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار انہیں کچل دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو اس زمانہ کے امریکی صدر وڈرو ولسن نے کردوں سے ان کی آزاد مملکت کے قیام کا وعدہ کیا اور 1920ء کے معاہدہ سیور میں ایک آزاد کرد مملکت کی تجویز بھی شامل کرلی گئی لیکن برطانیہ فرانس اور ترکی نے اس تجویز کو ناکام بنادیا ۔سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مشرق وسطی میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں لیکن آزاد خودمختار مملکت کے بارے میں کردوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔ 1960ءتا 1975ءتک شمالی عراق میں کردوں نے مصطفیٰ بارزانی( مسعود بارزانی کے والد) کی قیادت میںجدو جہد کے نتیجے میں خود مختاری حاصل کی لیکن 1991ء میں صدر صدام نے اس علاقے پر اپنی مکمل حاکمیت قائم کرتے ہوئے کردوں پر ایسے ظلم ڈھائے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس دوران عراق اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ گئی لیکن کردوں کیخلاف کارروائی جاری رہی اور جنگ کے خاتمے پرحکومتِ عراق نے 1988ء میں کردوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے انکے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں کرد مارے گئے۔
عراقی کردستان کی بعض جماعتوں نےگذشتہ سات جون کو ایک اجلاس میں جس کی صدارت عراقی کردستان کی مقامی انتظامیہ کے سربراہ مسعود بارزانی نے کی تھی اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ پچیس ستمبر کو عراقی کردستان کو عراق سے الگ کرنے کے لئےایک ریفرنڈم کرائیں گے۔) آج کالم تحریر کرتے وقت یعنی25 ستمبر کو صبح آٹھ بجے ووٹ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا جو شام آٹھ بجے تک جاری رہے گا ( اگرچہ عراق کی بیشتر سیاسی جماعتوں، حکومت اور علاقے اور دنیا کے مختلف ملکوں نے اس اقدام مخالفت کی ہے لیکن اس کے باوجود عراقی کردستان کی مقامی انتظامیہ کے سربراہ مسعود بارزانی نے تمام عراقی کردوں سے اپنے وطن کی آزادی کے ووٹ ڈالنے کی اپیل کی ہے۔ اس ریفرنڈم کے مثبت نتیجے کی صورت میں کرد قوم کو فوری طور پر آزادی حاصل نہیں ہو گی بلکہ اُسے بغداد حکومت کے ساتھ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا مذاکراتی عمل شروع کرنا ہو گا، جو کئی برسوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ عراقی حکومت یہ ریفرنڈم رکوانے کے لئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف رہی اور اسے اس سلسلے میں امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے جمعرات کے روز جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ عراق کے تمام ہمسایہ ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی اس ریفرنڈم کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔پریس ریلیز میں محکمہ خارجہ نے کرد رہنماؤں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ متبادل راستہ اختیار کرتے ہوئے عراق کی وفاقی حکومت سے اُن مذاکرات کا راستہ اپنائے جن کے لئے امریکہ، اقوام متحدہ اور دیگر اتحادی ممالک نے مدد کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اُدھر عراق کی سپریم کورٹ نے KRG کو حکم دیا کہ وہ ریفرنڈم کا ارادہ فوری طور پر ختم کر دے کیونکہ اس سے ملکی آئین کی نفی ہوتی ہے۔ کردش صدر مسعود بارزانی نے کہا تھا کہ وہ بغداد کی طرف سے مکمل آزادی دینے کے وعدے کے بغیر اس ریفرنڈم کو منسوخ نہیں کریں گے۔ تاہم کرد لوگ اس ریفرنڈم کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ کرکوک سمیت متعدد کرد شہروں میں اس ریفرنڈم کے بارے میں خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر آزاد کردستان کی حمایت یا مخالفت کے بارے میں خاصا تضاد پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے پہلے ہی ریفرنڈم کی مخالفت کرتے ہوئے کرد رہنما مسعود بارزانی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ عراق کی وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اگلے تین برس کے اندر کوئی معاہدہ طے کر لیں۔KRG عراق کے 20 فیصد تیل کے ذخائر کو کنٹرول کرتا ہے۔ یوں آزادی کی صورت میں کردستان تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کے رکن دس بڑے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ اس طرح کرد علاقے میں رونما ہونے والے واقعات تیل کی منڈی میں ہل چل مچا سکتے ہیں۔ عراقی وزیراعظم العبادی نے کہا کہ آزادی کے بارے میں کُرد ووٹ ’’خطرناک کشیدگی کا باعث‘‘ بن سکتی ہے، جس سے عراقی اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا ہے کہ اگر ملک کی کرد آبادی کی جانب سے منعقد ہونے والے ریفرنڈم میں ہنگامہ آرائی ہوئی تو وہ فوجی مداخلت کیلئے تیار ہیں۔عبادی نے کہا کہ آزادی کے بارے میں کُرد ووٹ ’’خطرناک کشیدگی کا باعث‘‘ بن سکتی ہے، جس سے عراقی اقتدارِ اعلیٰ کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ریفرنڈم کرانے کی کوشش آگ سے کھیلنے کا معاملہ بن سکتا ہے، جو 25 ستمبر کو کرد نیم سرکاری خطے کے تین صوبوں کے اندر منعقد ہونا ہے۔ اُن علاقوں میں بھی ووٹنگ ہوگی جو کردوں کے کنٹرول میں ہیں، لیکن عراقی حکومت اُن پر دعوے دار ہے۔حکومتِ ترکی نے عراقی کرد علاقائی انتظامیہ کو آخری بار اپیل کرتے ہوئے واضح طور پرریفرنڈم سے باز آنےکا پیغام دیا ۔ صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ عراقی کردی علاقائی انتظامیہ کی جانب سے خود مختاری کیلئے ریفرنڈم منعقد کرانے کا فیصلہ ایک غلطی ہے۔انہوں نے کرد رہنماؤں کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خود مختاری کیلئے ریفرنڈم کا فیصلہ عراقی ملکی سالمیت کیلئے خطرہ تشکیل دینے والا ایک غلط اقدام ہے۔انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اس معاملے میں باہمی صلاح مشورہ کیا جائیگا، اس علاقے میں شمالی عراق تنہا نہیں ہے۔ موصل میں عرب، کرکوک میں ترکمین باشندے مل جل کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم نے امن کے ماحول میں ان اقدامات کے اٹھائے جانے اور عراقی زمینی سالمیت کا ہمیشہ سے ہی دفاع کیا ہے۔ترکی ی قومی سلامتی کونسل کا کہنا ہے کہ عراقی کردی علاقائی انتظامیہ کی جانب سے عوامی رائے دہی کروانا ایک جائز فعل نہیں ہے۔شمالی عراق میں ریفرنڈم کے بارے میں اتوار کی رات صدر ایردوان نے ایران کے صدر حس روحانی کو ٹیلی فون کرتے ہوئے اس ریفرنڈم کے بارے میں تمام پہلووں پر بات چیت کی ہے اور ترکی کے خدشات سے بھی آگاہ کیا ہے ۔ یاد رہے ایران بھی شمالی عراق میں کردوں کی خودمختیاری کے بارے میں اس ریفرنڈم کی سختی سےمخالفت کررہا ہے۔ صدر ایردوان چار اکتوبر کو اپنے سرکاری دورہ ایران کے دوران اس معاملے پر تفصیلی بات چیت کریں گے ۔ ترکی نے شمالی عراق اپنے فوجی روانہ کرنے کیلئے قومی اسمبلی سے منظوری حاصل کرنے کیلئے بل بھی پیش کردیا ہے جس کی جلد ہی منظوری بھی حاصل کرلی جائے گی کیونکہ ترکی کی تمام سیاسی جماعتیں شمالی عراق میں کردوں کے اس ریفرنڈم کی مخالفت کررہی ہیں۔

تازہ ترین