• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کی اچانک وطن واپسی سے مخالفین بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ نگاروں کی رائے تھی کہ نواز شریف کی فوری وطن واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مگر نواز شریف نے ہمیشہ کی طرح غیرمتوقع فیصلہ کیا۔ پانامہ کیس کی نااہلی کے بعد پارٹی رہنماؤں کی اکثریت کا خیال تھا کہ موٹروے کے ذریعے لاہور واپسی ہو اور لاہور آمد پر ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا جائے۔ مگر نواز شریف نے تب بھی غیرمتوقع مگر مقبول فیصلہ کیا۔ جی ٹی روڈ پر عوامی سمندر نے نواز شریف کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی کو سہارا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ کلثوم نواز صاحبہ کی بیماری کے باعث نواز شریف لندن کے لئے روانہ ہوئے تو تاثر دیا گیا کہ اب نواز شریف واپس نہیں آئیں گے۔ مخالفین کا خیال تھا کہ کسی ڈیل کے بغیر واپسی ممکن نہیں ہے اور جن کے ساتھ ڈیل کرنی ہے وہ ڈیل پر رضا مند نہیں ہیں۔ احتساب عدالت کے فیصلے سے شریف خاندان بخوبی آگاہ ہے، اس لئے موجودہ حالات میں نواز شریف واپس آکر اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے۔ مگر نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر غیرمتوقع فیصلہ لے کر سب کو حیران کردیا۔ نواز شریف ذاتی طور پر ایک (Unpredictable)انسان ہیں۔ ملکی سیاست میں اتنے مضبوط اعصاب کا شخص شاید ہی کوئی آیا ہو۔ جس معاملے پر اڑ جائیں، مکمل کھڑے ہوجاتے ہیں مگر پیچھے نہیں ہٹتے۔ کسی نے نواز شریف کے بارے میں ہی کہا تھا کہ
ٹوٹ تو سکتا ہوں مگر لچک سکتا نہیں
بہرحال نواز شریف کی واپسی کو ناقدین ڈیل سے تعبیر کررہے ہیں۔ انتہائی ذمہ داری سے قارئین کے گوش گزار کررہا ہوں کہ نواز شریف کی واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں ہے کیونکہ نواز شریف ڈیل میں خود بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ قارئین کو اس خاکسار کے گزشتہ سال کے کالمز یاد ہوں گے جب ہر جگہ مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا پرچار ہوتا تھا تو میں نے لکھا تھا کہ مدت ملازمت میںتوسیع کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ نواز شریف ہیں۔میر ظفر اللہ خان جمالی یا شوکت عزیز جیسے وزیراعظم ہوتے تو شاید سابق سربراہ کو 100سال کی توسیع دے دیتے مگر یہ نواز شریف ہی تھے جو اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔اس وقت تاثر دیا جاتاتھا کہ منتخب حکومت توسیع دینا چاہتی ہے مگر ہم لینا نہیں چاہتےمگر حقائق یہ تھے کہ چار سے زائد مرتبہ نواز شریف پر توسیع دینے کے لئے دباؤ ڈالا گیا مگر نواز شریف اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔پاناما ،ڈان لیکس سمیت کئی معاملات کو نمٹانے کی آفر بھی کی گئی مگر نواز شریف کا اصولی موقف تھا کہ مدت ملازمت میں توسیع دینے سے ادارہ کمزور ہوتا ہے اور نیچے والے افسران کی حق تلفی ہوتی ہے۔اس لئے توسیع جیسی روایات کو توڑنا ہوگا اور نواز شریف اس معاملے پر ڈٹ گئے ۔آج بھی نواز شریف ڈٹے ہوئے ہیں۔مجھے نہیں علم کہ کل کیا ہوتا ہے مگر آج کے دن تک جو حقائق ہیں وہ قارئین کے گوش گزار ضرور کروں گا۔عین ممکن ہے کہ آئندہ چند روز میں نواز شریف کی پھر لندن روانگی کے بعد معاملات کچھ اور شکل اختیار کرلیں مگر اب تک حقائق یہ ہیں کہ نواز شریف کسی سے کوئی ڈیل نہیں کرنا چاہتے۔ پارٹی کے سینئر ترین افراد نے نواز شریف کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ صلح کی صورت میں جان بخشی ہے، وگرنہ کسی بھی دوسری صورت میں مارے جائیں گے۔ مگر نواز شریف کہتے ہیں کہ اب میں کس معاملے پر ڈیل کروں۔سول عسکری تعلقات میں جتنا برداشت میں نے گزشتہ چا ر سالوں کے دوران کیا ہے،زندگی میں کبھی نہیں کیا ۔لیکن اگر اس برداشت کے باوجود یہ سزا دی گئی ہے تو مزید بات چیت بے سود ہے۔آج بھی وہی صورتحال ہے کہ فریق دوم ڈیل کرنا چاہتا ہے ، مسلم لیگ ن کے اکثریتی رہنما اس ڈیل کے حامی ہیں مگر نواز شریف ڈٹے ہوئے ہیں۔نواز شریف آج کے دن تک کسی بھی طرح کی ڈیل کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔نواز شریف سمجھتے ہیں کہ اب ڈیل نہیں بلکہ گرینڈ ڈیل ہوگی ۔اورگرینڈ ڈیل عام انتخابات 2018کے بعد ہوگی۔
قارئین کی اکثریت بالا حقائق پڑھ کر یہ سوچ رہی ہوگی کہ جن قوتوں نے نواز شریف کومائنس کیا ،آج وہ ایک نااہل وزیراعظم سے کیوں ڈیل کریں گے؟ نواز شریف کو نظر انداز کرنے میں کیا حرج ہے؟ حقائق یہ ہیں کہ نواز شریف کو مائنس کرنے کے بعد طے ہوا تھا کہ اب ان سے کسی بھی طرح کی ڈیل نہیں کی جائے گی، کیونکہ مسیحاؤں کو تاثر دیا گیا تھا کہ نواز شریف اب ایک غیر مقبول شخص بن چکا ہے۔ڈیڑھ سال کی پاناما مہم نے مسلم لیگ ن کا ستیاناس کردیا ہے۔اس لئے وزیراعظم ہاؤس سے بے دخلی کے بعد نواز شریف کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔مگر ان سب دعوؤں اور منصوبہ بندی کو تین بڑے دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا۔پہلا دھچکا اس وقت پہنچا جب نواز شریف کی جی ٹی روڈ سے لاہور واپسی پانچ دن پر پہنچ گئی ا ور ملک میں نواز شریف کے قافلے کے علاوہ کوئی خبر نہیں تھی۔دوسرا بڑاجھٹکا اس وقت پہنچا جب 44امیدوار+تحریک انصاف کی حمایت+مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملاکر کل ووٹ ہوئے 47000جبکہ مسلم لیگ ن تنہا الیکشن لڑی اور ووٹوں کی تعداد تھی 61000۔این اے 120کے انتخابی نتائج کے بعد پیغام گیا کہ ابھی تو ایک حلقے میں الیکشن تھا ،مکمل سپورٹ اور تمام توجہ کے باوجود تحریک انصاف ہار گئی۔عام انتخابات میں 272حلقے ہونگے۔پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہونگی اور یہ سب کچھ ممکن نہیں ہوگا تو پھر کیا ہوگا؟ کیا تمام تر مخالفت کے باوجود مسلم لیگ ن جیت جائے گی؟ تیسرا دھچکا سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی اکثریت نہ ہونے کے باوجود ایک ووٹ سے آئینی ترمیم کی منظور ی کی صورت میں ہوا۔یعنی تمام مسیحاؤں کو یقین ہوگیا کہ مارچ 2018میں مسلم لیگ ن سینیٹ کی بھی اکثریتی جماعت بن جائے گی اور عام انتخابات جون،یا جولائی 2018 میں ہونے ہیں۔یعنی انتخابات سے چار ماہ قبل ہر طرح کی آئینی ترمیم لاکر نواز شریف کی واپسی کا راستہ ہموار کیا جاسکتا ہے۔ان تینوں دھچکوں نے کچھ دوستوں کو مجبور کیا کہ ڈیل سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر سے ہی جچتی ہے۔کہا جارہا ہے کہ جو مخصوص گروپ آپشن دوم کے طور پر پی پی پی سے بھی بات چیت کررہا تھا،این اے 120کے چند سو ووٹوں کا رزلٹ دیکھ کر انہوں نے پی پی پی کےرہنمائوں کے فون اٹھانا بھی بند کردئیے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف کے حوالے سےکہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی سنجیدہ تحفظات ہیں کہ تحریک انصا ف دوڑنے والا گھوڑا ضرور ہے مگر قابل بھروسہ نہیں ہے۔اس لئے تمام حالات و واقعات مسلم لیگ ن سے ڈیل کی طرف رخ موڑ رہے ہیں مگر اس ڈیل میں ابھی تک نواز شریف ایک رکاوٹ ہیں۔کیونکہ نواز شریف اس مرتبہ ڈیل نہیں گرینڈ ڈیل چاہتے ہیں تاکہ سول عسکری تعلقات کا معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے ۔اسی پر شاعر نے کہا تھا کہ
کہانیوں کو نئے رنگ بخشنے والو
حقیقتوں میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے

تازہ ترین