• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی ایک گنجھل دار کہانی ہے جو بظاہر ہموار مگر پرپیچ راستوں سے گزرتی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ نہ آغاز اس کی مرضی سے لکھا جاتا ہے نہ اختتام اس سے پوچھ کر کیا جاتا ہے۔ ہاں جبر کی فضا میں اختیار کے پہلو شامل کر کے اسے پرکشش بنایا گیا ہے اسی لئے خواہش کی خوش رنگ تتلی اسے کسی پل چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ ہر لمحہ تلاش پر اُکساتی ہے۔ انسان بھلے ایک زمین، گھر، ملک یا جگہ پر عمر گزار دے مگر اس کی سوچ، خیال اور خواب مسلسل سفر میں رہتے ہیں۔ یہ سفر تلاش کا سفر ہے جس کا تعلق خواہش سے بھی ہے اور علم سے بھی۔ پانے کی جستجو اور حاصل کرنے کی لگن ماہ و سال کے چکر کو بور نہیں ہونے دیتی۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنے باطن کی آواز کو سن کر آغاز میں ہی منزل کا تعین کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ جنہیں سفر کے اختتام پر علم ہوتا ہے کہ عمر کا سفر رائیگاں رہا تو پچھتاوے کی صلیب ان کا مقدر ہو جاتی ہے۔ ذات کی تلاش بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اپنے بارے میں جاننا، اپنے اجزائے ترکیبی کا تال میل معلوم کر کے اپنی پسند اور محبت کے معیار قائم کر کے راستے کا انتخاب کرنا انسان کی فضیلت کا مظہر ہے مگر خود سے ملاقات کا وقت میسر آئے تو بات بنے۔ جو خود کو جان لے پھر وہ راستہ اس کا مقدر ہو جاتا ہے جو حواس کی حدود کے پار لے جا کر حقیقت سے آشنا کرتا ہے اور دنیا میں ولی، صوفی اور یوگی کا رتبہ عطا کرتا ہے۔ خالقِ کائنات بھی بندے کو تلاش اور ریاضت کے ذریعے اپنے پاس آنے کے وسیلے کرتا ہے۔ شاید عشق کا راستہ ایسا ہی ہے اسی لئے کائنات کے ہر ذرے میں کئی راز پنہاں کر کے تلاش پر اُکسایا گیا ہے۔ تلاش منطقی استدلال اور روحانی وجدان کو دعوت دیتی ہے۔ ہر مذہب تلاشِ ذات اور تلاشِ حق کا علمبردار ہے۔ ہر انسان کی تلاش کا محور مختلف ہے۔ اگر محور ایک بھی ہو تو جستجو میں فرق ضرور ہوتا ہے اسی لئے دنیا پر کبھی عقائد کی حکمرانی قائم ہوتی ہے اور کبھی فلسفے کی۔ آج کل کا دور تاریخ انسانی کا عجب دور ہے، انسان نے علوم کے ذریعے کائنات کو مسخر تو کر لیا مگر ذات سے ملاقات سے محروم ہے جس کی وجہ سے ایک عجیب تنائو، خلا، بے چینی اور ڈپریشن کا شکار ہے۔ لوگ مذہب سے اچھی قدریں اخذ کر کے زندگیاں سنوارنے کی بجائے اُسے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے پر تل گئے تو مذاہب کے بارے میں بھی سوال اٹھنا شروع ہو گئے۔ ہر مذہب ایک مخصوص اخلاقی نظام اور ضابطہ حیات کا داعی ہے مگر مذہبی افکار اور پیروکاروں کے اعمال میں زمین آسمان کا فرق مذہب سے بیزاری کا باعث بننے لگا۔
اس وقت دوسروں کو تسلیم نہ کرنے بلکہ کم تر سمجھنے اور انہیں ڈنڈے سے اپنے فرقے کے مطابق ڈھالنے کے اعلانات نے مسلم قوم کو مشکلات کا شکار کر رکھا ہے۔ ساری بھاگ دوڑ جذباتی نعروں اور تقریروں کے ذریعے ان کافروں کو نیست و نابود کرنے تک محدود ہے جن کی بنائی ہوئی اشیاء ہمارے ہر طرف بلکہ غذا کی صورت ہمارے وجود میں شامل ہیں۔
ایک ایسا دین جو لا اِکراہ فی الدین کی بات کرتا ہے، جہاں خالق اپنی مخلوق کے حقوق کو زیادہ مقدم سمجھتا ہے وہاں مرنے مارنے کی بات کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب ہم جانتے ہیں تمام انسانوں کا خالق ایک ہے تو اسکے بندوں سے نفرت کرنے کا کیا جواز ہے۔ بابا فریدؒ نے کہا تھا
مَندا کِس نوں آکھیئے جاں تِس بن کجھ نہ
محمد افضل چوہدری یو کے میں مقیم ہیں جہاں ان کا مختلف مذاہب کے پیروکاروں سے واسطہ رہتا ہے۔ وہ مذہب کے نام پر مباحث کو سننے اور علم حاصل کر کے نتیجہ اخذ کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ انسان کی تاریخ سے لے کر آج تک کے تمام مذاہب کا مطالعہ اور ان سے اخذ ہونے والی سچائی کو پھیلا کر دنیا میں امن قائم کرنا ان کا مشن بن چکا ہے۔ اپنی کتاب ’’تلاش‘‘ میں انہوں نے مذاہب کی تعریف اور اُن سے جڑی قدروں کی تعریف کر کے گویا احسان کیا ہے کہ ہمارے ہاں مطالعے کا رواج اتنا کم ہے کہ ہماری کم علمی تعصب کی شکل اختیار کر کے دوسروں کو ہیچ سمجھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اصل تجزیہ آخری باب میں بیان کیا گیا ہے جہاں مذہب کو ماننے کی ضرورت، سائنس اور مذہب کے تعلق اور سچے مذہب کے بارے میں جو کچھ درج ہے وہ مکالمہ بھی ہے، سوال بھی اور درخواست بھی کہ سچ کو جاننے کے لئے اپنے اندر جھانکئے۔
اس سوال کے جواب میں اتنا عرض ہے کہ صوفی کسی بھی مذہب کو برا نہیں سمجھتا کیوں کہ اسے علم ہے ہر شخص اپنے اپنے طریقے سے ایک ہی ربّ کو پکارتا ہے۔ ہاں صوفی اپنے عمل سے خلقت کو متاثر ضرور کرتا ہے اور یہی اس کے مذہب کی بڑائی بن جاتی ہے۔ ہر فرد جس بھی عقیدے کا ماننے والا ہو اگر وہ اس کی روح تک رسائی حاصل کر لے تو وہاں اسے نیکی، اچھائی اور خدمت خلق کی تاکید ہی ملے گی۔ اصل مسئلہ عمل ہے۔ نماز اپنے آقا کے حضور حاضری ہے، اس کی بندگی اور محبت کا اقرار نامہ ہے۔ صرف حاضری سے بات نہیں بنتی ہوم ورک اور کلاس ورک بھی اہمیت کا حامل ہے۔ سائنس بھی روحانی کیفیات کے تابع ہے۔ کوئی بھی عقیدہ یا مذہب برائی کی تلقین نہیں کرتا صرف انسان اپنی پسند اور مفاد کے مطابق اس کی تشریح کر کے اس کا دائرہ متعین کرتا ہے۔ اسلام سچائی، مساوات، انصاف اور انسانیت کا علمبردار ہے مگر ٹھیکیداری، فرقہ بازی اور ظاہریت پرستی نے اس کا اصل چہرہ اوجھل کر دیا ہے۔ اگر ہم نے عالم اقوام میں اپنی توقیر قائم کرنی ہے تو سب سے پہلے دوسروں کو برا اور کمتر کہنا ترک کرنا ہو گا، تبلیغ اور تقریر کی بجائے اپنے عمل سے اپنی قدروں کی ترویج کرنی ہو گی، مذہب کو صرف عورت کے بنائو سنگھار تک محدود کرنے کی بجائے عدل، مساوات، نیکی، خدمت خلق اور احترامِ انسانیت کو ترجیح دینی ہو گی۔ ہم ایک لڑکی کے سگریٹ پینے پر طوفان اٹھا لیتے ہیں مگر تین سال کی بچی کے ساتھ وحشیانہ زیادتی پر خاموش رہتے ہیں۔ افضل چوہدری صاحب آپ کے آخری سوال کا جواب یہی ہے کہ سچائی انسان کے اندر موجود ہے۔ صحیح پاس ورڈ لگا کر اُس تک رسائی کی ضرورت ہے پھر الجھنیں سلجھنے لگتی ہیں اور سورۂ بقرہ کی آیت کا ترجمہ سمجھ میں آنے لگتا ہے کہ ’’جدھر دیکھو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے۔‘‘ ہر چہرے میں وہ ہے اس لئے سب کا احترام لازم ہے۔ جیو اور جینے دو کے فلسفے میں ہی بقا ہے۔ موقع ملے تو یہ کتاب پڑھئے آپ کی نذر اس کا انتساب جو بذاتِ خود ایک سوال بھی ہے اور مشورہ بھی۔
’’ہر سانس لیتی اُس مردہ روح کے نام جو پیدائشی طور پر ہندو، بدھ، یہودی، عیسائی اور مسلم تو بن گئی مگر اس کا کارن نہ جان سکی۔ ہر اُس روح کے نام جس نے مال و دولت اور شہرت تو کمائی مگر سانس لینے کا حق ادا نہ کیا۔ ہر اُس روح کے نام جو بے قرار تو رہتی ہے مگر بیقراری کا حل ڈھونڈنے سے قاصر ہے۔‘‘
(’’تلاش‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں پڑھا گیا)

تازہ ترین