• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پائنا اور ’سوچ‘ کی دعوت پر پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹو کلب میں 22ستمبر کی سہ پہر تیس بتیس کے لگ بھگ دانش ور، تجزیہ نگار اور دفاعی امور کے ماہرین جمع تھے۔ تب سیاسی ماحول میں شدید کشیدگی اور ہیجانی کیفیت برپا تھی۔ معزول وزیراعظم نوازشریف اپنی اہلیہ کی سرجری کے سلسلے میں لندن گئے ہوئے تھے جبکہ نیب کی عدالت نے انہیں ریفرنسز کے سلسلے میں 26ستمبر کی صبح طلب کیا تھا۔ بعض حلقے یہ تاثر دے رہے تھے کہ شریف خاندان ملک سے فرار ہو گیا ہے ۔ ایک طرف ملک میں داخلی جنگ جاری تھی اور دوسری طرف امریکا، جاپان اور بھارت پاکستان کو بدترین آزمائشوں کے شکنجے میں کسنے کے لیے اپنی پوری طاقت مجتمع کر رہے تھے۔ اہلِ فکرونظر کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ ایک جامع حکمت ِ عملی کے خدوخال اُبھارنے کی ذہنی کاوش فرمائیں جو داخلی استحکام کی ضامن ہو۔
پائنا کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے راقم نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ چار برسوں میں سیاسی اور معاشی استحکام بھی آیا اور اس نے عالمی برادری میں ایک مقام بھی حاصل کیا۔ پہلی بار پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت قائم ہوئی اور عالمی سطح پر پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بنا۔ چین کی طرف سے پاکستان میں اقتصادی راہداری کی تعمیر اور ترقیاتی منصوبوں میں 56؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شروع ہوئی، تو اس خیال کو بڑی تقویت پہنچی کہ پاکستان معاشی طاقت بننے والا ہے، مگر بعض طاقتیں اس کے داخلی استحکام اور قومی اتفاقِ رائے پر کاری ضرب لگانے پر تلی ہوئی ہیں۔ عدالتی فیصلے سے وزیراعظم نوازشریف کی اقتدار سے محرومی نے بہت سارے تنازعات کھڑے کر دیے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اس فورم سے سیاسی جماعتوں کو یہ پیغام دینا چاہئے کہ وہ آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے مہیب خطرات سے نبردآزما ہونے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کریں۔ ہمیں جناب نوازشریف سے کہنا چاہئے کہ وہ عدالتوں میں اپنے خلاف مقدمات کا دفاع کریں اور اداروں کا احترام پوری طرح ملحوظ رکھیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پارلیمنٹ اور سیاسی قائدین کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، مگر خوشگوار تعلقات کی یہ خوشبو اوپر سے نیچے تک پھیلنی چاہئے۔
تجزیہ نگار جناب حفیظ اللہ نیازی نے عدم استحکام کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکا سی پیک منصوبے کا شدید مخالف ہے۔ چین کو گوادر میں نیول بیس کی تعمیر سے بحیرہ عرب اور بحرِہند پر بالادستی قائم ہو جائے گی۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان پراکسی وار پاکستان میں لڑی جا رہی ہے، چنانچہ سیاسی اور عسکری قیادت کو ایک پیج پر ہونا اور پوری قوت سے چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہئے۔
دانش ور جناب مجیب الرحمٰن شامی نے ایک نئے عنصر کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ اب ہماری قومی زندگی میں جِّن بھی سرگرم ہو گئے ہیں جن کے خلاف کوئی ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے نہ ان پر قانون کا اطلاق ممکن ہے۔ جناب نوازشریف نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کر کے ایک اچھی روایت مستحکم کی ہے حالانکہ انہیں اپیل کے حق سے بھی محروم رکھا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ احتساب عدالتوں میں پیش ہوں گے۔ اس وقت ان کی تمام تر کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ان کی جماعت متحد اور فعال رہے کہ اس کا ہمارے داخلی استحکام سے نہایت گہرا تعلق ہے۔
سیاسی پس منظر کے حامل جناب قیوم نظامی نے قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کو اوّلین ترجیح قرار دیا۔ داخلی استحکام کو سب سے زیادہ نقصان اداروں کو نظر انداز کرنے سے پہنچا ہے اور اشخاص غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے سسٹمز قائم کریں جو عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ داخلی استحکام کے لیے پولیس کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرنا ضروری ہے۔ ہم نے امن قائم کرنے کی ذمہ داری فوج پر ڈال دی ہے جو گلی کوچوں میں سرگرداں دکھائی دیتی ہے۔
سیاسی علوم کے پروفیسر شبیر احمد خاں نے داخلی استحکام کے اجزائے ترکیبی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان میں سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی استحکام شامل ہیں۔ بدقسمتی سے قومی اتفاقِ رائے مفقود ہوتا جا رہا ہے اور امیر اور غریب میں بہت خوفناک فرق واقع ہو چکا ہے۔ سماجی قدریں روبہ زوال ہیں اور تعلیمی احوال ناگفتہ بہ۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے ایک غیر ذمے دار ایٹمی ریاست شمالی کوریا کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی دھمکی دی ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین اس دھمکی میں پاکستان کو بھی شامل کر رہے ہیں۔ ہمیں ان خارجی خطرات کا مل جل کر مقابلہ کرنا اور ہر شعبے میں اہل، دیانت دار اور فرض شناس قیادت اُبھارنے کے لیے کردار سازی پر توجہ دینا ہو گی۔
سیاسی تجزیہ نگار اور ’سوچ‘ کے سربراہ جناب محمد مہدی نے گمبھیر صورتِ حال کا ایک اور پہلو زیرِ بحث لاتے ہوئے کہا کہ وہ چند روز پہلے چین سے ایک سیمینار میں شرکت کر کے آئے ہیں۔ وہاں جناب نوازشریف کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا۔ بدقسمتی سے قوم داخلی طور پر تقسیم کی جا رہی ہے جبکہ بعض بیرونی طاقتیں ہم پر چاروں طرف سے حملہ آور ہیں۔ سیاست دانوں کو دوربینی اور غیر معمولی رواداری سے کام لینا ہو گا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ سیاست دانوں کے لیے فوج کو اپنے ساتھ لے کر چلنا بہت آسان ہے، کیونکہ وہ قومی سوچ کی مالک ہے اور وطن کی آزادی اور سالمیت کے تحفظ کو اوّلین ترجیح دیتی ہے۔ میرے خیال میں جناب نوازشریف کو سڑکوں، بازاروں اور جلسوں میں عدلیہ پر تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
سینئر صحافی عبدالرؤف طاہر نے اس تاریخی حقیقت کا حوالہ دیا کہ برصغیر میں سیاسی، دینی اور سماجی قائدین کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اداروں کی طرح وہ افراد بھی قابلِ احترام ہیں جو ادارے چلاتے اور انہیں خونِ جگر دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ان کے لیڈروں سے محروم کر دینا داخلی استحکام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے مترادف ہو گا۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظفر معین ناصر نے جو ماہرِ معاشیات بھی ہیں، انہوں نے داخلی استحکام کے لیے دو چیزوں کو ناگزیر قرار دیا۔ ایک عوام کے اندر جذبۂ وطنیت کی بیداری اور دوسرا ایک منصفانہ اقتصادی نظام کا قیام۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنے وطن پر فخر کرنے کے بجائے خرابیاں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ملک میں ہونے والی ناہموار اور غیرمساوی اقتصادی ترقی بھی ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقے آج بھی اسی قدر پس ماندہ ہیں جیسے وہ آزادی سے پہلے تھے۔
بزنس لیڈر جناب جاوید نواز نے بحث میں گراں قدر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ داخلی استحکام کے اصول حضرت قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں بیان فرما دیے تھے۔(1) ریاست کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں گے۔ (2)ریاست جملہ شہریوں کی جان، مال اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت دے گی۔ (3) ہر شہری کو پوری مذہبی آزادی حاصل ہو گی۔ (4) کرپشن قومی وجود کے لیے سب سے خطرناک چیلنج ہو گا جس کے سدِباب پر غیر معمولی توجہ دینا ہو گی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ میں تیس سال سے مسقط میں رہتا ہوں اور وہاں کے ضوابط کے مطابق اقامہ حاصل کرنے کے لیے تنخواہ کے کالم میں اندراج کرنا پڑتا ہے۔ میں نے وہ تنخواہ ایک بار بھی وصول نہیں کی۔
صدرِ مجلس جناب ایس ایم ظفر نے بحث و تمحیص کا ماحصل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس وقت داخلی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لیے قوم کو دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کا سختی سے اہتمام کرنا ہو گا۔ اختلاف برائے اختلاف کے بجائے اختلاف برائے تعمیر کی پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ میں واضح طور پر محسوس کر رہا ہوں کہ فوج کے ٹیک اوور کا زمانہ گزر چکا، اس لیے سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا اور جمہوری خصوصیات کو اپنے اندر سمونا ہو گا۔ آئین کی رو سے حکمرانوں کو منتخب کرنے اور انہیں ووٹ کے ذریعے اقتدار سے محروم کرنے کا آئینی حق صرف عوام کو حاصل ہے۔
سیمینار کے اختتام پر تمام حاضرین نقطہ ہائے نظر کے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کیساتھ شیروشکر ہو گئے۔

تازہ ترین