• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے چند برسوں کے دوران وطن عزیز کے بیشتر شہروں میں غذائی اجناس کے بحران، سبزیوں کی قلت اور پھلوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی جو کیفیت سامنے آئی اس کے باعث غریبوں کیلئے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ چند عشروں پہلے جن سبزیوں اور پھلوں کی فروخت پیسوں یا آنوں کے حساب سے ہوتی تھی ان کی قیمتوں کا روپوں تک بڑھنا تو آبادی اور طلب میں اضافے کی بنا پر ایک حد تک سمجھ میں آتا ہے حالانکہ یہ مہنگائی بھی ہمارے اُن پالیسی سازوں اور اکنامک منیجرز کی غفلت، کوتاہ نظری اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی نشاندہی کرتی رہی ہے جنہوں نے بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح کو مدنظر رکھ کر مستقبل کی پیداواری ضروریات کی منصوبہ بندی سے اغماض برتا مگر جب آلو، پیاز اور ٹماٹر جیسی غریب پرور چیزوں کی قیمتیں بار بار آسمان سے باتیں کرتی نظر آئیں تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ پورا نظام ہی ایسی خرابیوں کا شکار ہوچکا ہے جن میں بدترین استحصال نے متوسط اور غریب طبقہ کے لئے جینا مشکل بنادیا ہے۔ چینی، آٹے، چاول اور دالوں سے لیکر پھلوں اور سبزیوں کے نرخوں کو آڑھتیوں، ذخیرہ اندوزوں اور سرکاری اہلکاروں کے گٹھ جوڑ نے ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے کہ عام آدمی کا مروجہ نظام پر اعتماد تیزی سے صفر کی طرف جاتا نظر آرہا ہے۔ پچھلے کئی ہفتوں کے دوران پیاز اور ٹماٹر کے نرخ پاکستانی روپیہ کے اکائی ہندسے سے دہائی اور سیکڑے تک جاپہنچے تھے۔ ان میں چند دنوں سے کمی کا رجحان نظر تو آیا مگر کراچی کی سبزی منڈی میں ٹماٹر کی تھوک قیمت پھر بڑھ کر 150روپے ہوگئی چنانچہ صارف کو ٹماٹر 180 سے 200 روپے فی کلو میں مل رہا ہے۔ پیاز کی خوردہ قیمت بھی سو روپے فی کلو سے بڑھ چکی ہے۔ وجوہ جو بھی ہوں، ہر شعبے میں مشکلات کا گراف اگر نظام کی ناکامی نہیں تو اس پر بڑھتی ہوئی بے اعتمادی کا ضرور اظہار کررہا ہے۔ ان معاملات کی درستی پر فوری توجہ نہ دی گئی تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ عوام کا ردعمل کس وقت کس صورت میں سامنے آئے گا۔

تازہ ترین