• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہی کوئی 260سال پہلے کی بات ہے لاہور کے پڑوسی شہر قصور میں ایک بابا رہتا تھا جس کی پنجابی شاعری نے صدیوں بائیں بازو کے دانشوروں، ترقی پسند سیاسی کارکنوں، دائیں بازو کے لبرل عناصر، صوفیاء اور سب سے بڑھ کرعوام کومتاثر کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے حکمران ہوں یا برصغیر کے لیجنڈ اداکار امیتابھ بچن سب بلھے شاہ ؒکی ملامتی شاعری سے جلاپاتے رہے ہیں۔
سیدعبداللہ شاہ المعروف بلھے شاہؒ مغلوں کے دور ِ ابتری میں پیدا ہوئے۔ مغل حکومت کے گورنر اور عمّال کمزور ہوچکے تھے۔ ڈاکوئوں کی ٹولیاں سرعام لوٹ مار کرتی نظرآتی تھیں۔ اسی لئے بلھے شاہؒ نے لکھا تھا؎
برا حال ہویا پنجاب دا
سانوں ہاویئے دوزخ ساڑیا
بلھے شاہؒ کی اصل خوبی مظلوموں اور بے زبانوں کی حمایت میں حاکم، ملّا اور قاضی کے اتحاد کو للکارنا تھا۔ بلھے شاہؒ کی بے باک اور بے خوف شاعری نے اس سہ رکنی تکون کو چیلنج کیا۔ ساتھ ہی ساتھ معاشر ے سے بغاوت کرتے ہوئے انہوں نے ملامتی انداز اپنایا۔ اس زمانے میں مرد سرخ اور سبز رنگ کے چولے نہیں پہنتے تھے۔ رقص کرنا معیوب تھا اور اسٹیبلشمنٹ یعنی حاکم، ملّا اور قاضی پر سرعام تنقید کرنا بغاوت کے زمرے میں آتا تھا۔ مگر بلھے شاہؒ (1707تا 1757) نے یہ سب کچھ کھلے عام کیا لیکن ایسے انداز میں کیا کہ ان کے اشعار عوام کی آواز بن گئے۔ تین صدیاں ہونے کو ہیں نہ یہ خطہ بدلا ہے اور نہ اس کے حکمران طبقے۔ اسی لئے بلھے شاہؒ آج بھی زندہ ہے اور اس کی شاعری آج بھی حالات کی اسی طرح ترجمانی کرتی ہے جیسے اس وقت کیا کرتی تھی۔
بلھے شاہؒ اور دوسرے ملامتی شاعروں نے حاکموں، قاضیوں اور مفتیوں کے دوغلے پن کو آشکار کیا۔ عوام کو یہ ملامتی شاعری اس قدر پسند آئی کہ پاکستان کا قومی مزاج یعنی Ethos انہی صوفیوں کی طرح معاشرتی اور سیاسی طنز کرنا، ظالموں کے خلاف لفظی بغاوت کرنا اور حاکموں، قاضیوں اور مفتیوں کا مذاق اڑانا بن گیا ہے ۔
گزشتہ رات گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل سید نذیر احمد کا مرتب کردہ کلام بلھے شاہؒ پڑھتے پڑھتے آنکھ لگ گئی۔ پاکستانی سیاست کی پیچیدگی پر کڑھنے اور پھر شاعری پڑھنے کے بعد خواب میں سرخ رنگ کا چولا پہنے بابا بلھے شاہؒ کا ہیولا نظر آیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ یہ ملامتی صوفی اپنے مرشد عنایت اللہ قادری کی بارگاہ میں حاضری کے لئے قصور سے لاہور کی طرف پیدل رواں دواں ہے۔ کبھی اونچی آواز میں ’’کیہہ جاناں میں کون؟‘‘ پڑھتا ہے۔ بچے بالے اس کے گرد جمع ہیں پھر اچانک اس نے حاکموں، ملّا اور قاضی کو للکارنا شروع کردیا۔ کہا 3صدیاںگزر گئیں مگر یہ استحصالی طبقات باز نہیں آئے۔ پہلے بھی عوام کہتے تھے کہ ’’کیہہ جاناں میں کون؟‘‘ اب بھی عوامی نمائندہ کہتا پھرتا ہے ’’مجھے کس نے نکالا؟‘‘ سوال بدل گیا ہے۔ نہ پہلے سوال کا جواب ملا نہ اب والے سوال کا جواب ملے گا۔ مجمع کان لگائے سن رہا تھا کہ اچانک بلھے شاہؒ نے رقص کرنا شروع کردیا۔ اب عوام نے نظریں بھی گاڑ دیں۔ بلھے شاہؒ نے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کے بیان کہ یہ ’’کٹھ پتلیوں کا کھیل ہے‘‘ پر ناچتے ناچتے یہ پڑھا؎
بازیگر کیہ بازی کھیڈی
مینوں پتلی وانگ نچایا
مجمع نے بھی بابا بلھے شاہؒ کے ساتھ رقص شروع کردیا۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ یہی ہیولا چلتے چلتے آگے آتا ہے تو سرخ اور سبز پرچموں کی بہار لگی ہے۔ باباجی رکتے ہیں۔ عمران خان زندہ باد اور وزیراعظم عمران خان کے نعرے لگ رہے ہیں۔ بلھے شاہؒ نوجوان نسل کے جوش و جذبے کو غور سے دیکھتے ہیں اور اچانک اونچی آواز میں لہک لہک کر یہ نصیحت کرنا شروع کردی؎
کر کتن وَل دھیان کڑے
اَج گھر وِچ نویں کپاہ کڑے
توں جھب جھب ویلنا ڈاہ کڑے
تحریک ِ انصاف کے نوجوان کچھ سمجھے اور کچھ نہ سمجھے۔ ناچتی گاتی ایک خاتون نے بلھے شاہؒ سے پوچھاکہ آپ کیا کہہ رہےہیں؟ بابا نے حیران ہو کر لڑکی کی طرف دیکھا اور کہا عمران کو کہو اچھی تیاری کرے نئی کپاس کاموسم ہے سوت کاتنے کی تیاری کرلے وگرنہ بعد میں پچھتائے گا۔ مجمع کو پتا چلا کہ یہ بلھے شاہؒ ہیں تو ’’بلھا کیہہ جاناں میں کون‘‘ کی فرمائش کردی۔ بابا نے مجمع کے لڑکوں میں قصوری اندرھسے اور لڑکیوں میں قصوری مہندی تقسیم کی اور پھر لہک لہک کر گانا شروع کردیا۔
بلھا! کیہہ جاناں میں کون؟
نہ میں مومن وِچ مسیتاں
نہ میں وِچ کفر دی ریت آں
نہ میں پاکاں وِچ پلیت آں
نہ میں موسیٰ، نہ فرعون
کہیں سے ایک نوجوان گٹار لے آیا اور سارا مجمع باباجی کے کلام میں مسحور ہوگیا۔ بابا بچوں میں اندرھسے تقسیم کرتے کرتے آگے چلنے لگے اور کہنے لگے؎
اِٹ کھڑکے، دُکّڑ وجے، تتّا ہو وے چُلّھا
آن فقیر تے کھا کھا جاون، راضی ہووے بلّھا
تھوڑا آگے چلے تو راستہ بند تھا۔ عمّال نے کہا لڑائی کا ڈر ہے کہ کہیں فرقہ بندی پر لڑائی نہ ہوجائے۔ بلھے شاہؒ بڑبڑانے لگے؎
عاشق ہویوں رب دا ہوئی ملامت لاکھ
تینوں کافر کافر آکھدے، توں آہو آہو آکھ
کیا دیکھتے ہیں کہ چوک میں بڑی بڑی ویگنیں کھڑی ہیں جن کے ساتھ تین ٹانگوں والی کالی مشینیں (کیمرے) اور ساتھ دو ٹانگوں والے واعظ اونچی اونچی آواز میں تیز تیز کچھ بول رہے تھے۔ بلھے شاہؒ نے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟ تو انہیں ایک بچے نے بتایا کہ یہ ٹی وی چینل کے نیوز اینکر ہیں جو ملک بھر کو خبریں بتا رہے ہیں۔ بلھے شاہؒ نے خشمگیں نگاہوں سے اُدھر دیکھا اور صحافیوں کو دور ہی سے ناصحانہ انداز میں سبق دیا؎
سچ کہواں تے بھانبڑ مچدا اے
جھوٹ آکھاں تے کجھ نہ بچدا اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے
لاہور سے قصور کے راستے میں کئی غریب بستیاں پڑتی ہیں جہاں کے افتادگان خاک، صدیوں پہلے بھی مظلوم تھے اور آج بھی مظلوم ہیں۔ ان کی خواہشات بھی محدود اور آرزوئیں بھی کم۔ یہ کمزور بھی ہیں اور دکھ زدہ بھی۔ بے چارے اب حاکم اور قاضی کے ظلم کے عادی ہوچکے ہیں۔
میں چوہڑیڑی آں،
میں چوہڑی آں، سچے صاحب دے درباروں
قاضی جانے، حاکم جانے، فارغ خطی بیگاروں
بلھے شاہؒ دکھ اور سکھ دونوں کے شاعر ہیں۔ غم کے آنسو اور رقص کی سرمستی دونوں ان کی سرشت میں بدرجۂ اتم ہیں۔ آگے کیا دیکھتا ہوں کہ رقص جاری ہے ؎
کنجری بن دیاں میری عزت نہ گھٹ دی
بلھے شاہؒ کے قدم بے اختیار ادھر کو بڑھنے لگے ڈھول پر ڈگ پڑے تو ہر پنجابی کے قدم ویسے ہی ہلنے لگتے ہیں۔تھیا، تھیا ؎
تیرے عشق نے ڈیرہ میرے اندر کیتا
بھر کے زہر پیالہ میں تاں آپے پیتا
چھیتی بوہڑیں وے طبیبا
نئیں تے میں مر گیاں
تیرے عشق نچایا کرکے تھیّا تھیّا
محفل عروج پر تھی کہ بابا بلھے شاہؒ چل پڑے۔ سسکی بھری اور کہا ؎
الٹے ہور زمانے آئے
چلتے چلتے ماڈل ٹائون کے پاس سے گزرے (ن) لیگ کے اداس دفتر اور مایوس کارکنوں کو دیکھ کر انہیں کہا؎
اُٹھ جاگ کھراڑے مار نئیں
ایہہ سون تیرے درکار نئیں
اور پھر چلتے چلتے کہا ’’کاش یہ قوم خود احتسابی پر تیار ہوجاتی۔ ہر کوئی اپنی عبا میں چھپے چور کو تلاش کرتا (میری بُکل وِچ چور) تو اس جیسا ملک نہیں ہوتا‘‘ پھر کہا ’’بابا اشفاق نے ٹھیک کہا تھا کہ اس ملک کو پڑھے لکھوں نے برباد کیا ’’علموں بس کریں او یار‘‘
بابا بلھے شاہؒ سرور میں تھے۔ پیپلزپارٹی کے ایک جیالے نے بلاول اور زرداری صاحب کے بارے میں پوچھ لیا تو کہنے لگے ان کا رشتہ کچھ ایسا ہے کہ؎
آپے پائیاں کنڈیاں، آپے کھچنائیں ڈور
ن لیگ کا ایک اکلوتا دل جلا کارکن پوچھنے لگا کہ مکمل جمہوریت کب آئے گی؟ تو بابا جی نے راولپنڈی کی طرف منہ کرکے کہا؎
تُسی اُچے تہاڈی ذات اُچی.....
اسی قصوری، ساڈھی ذات قصوری.....
شہر میں خبر ہوئی لوگ بلھے شاہؒ کو دیکھنے کے لئے جوق در جوق آنے لگے تو بابا نے تیز چلنا شروع کردیا؎
چل بلّھا! اوتھے چلئے جتھے سارے اَنھّے
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں مَنّے
میری آنکھوں میں شاید نمی آئی اور میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

تازہ ترین