• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالی وڈ کے ہیرو رنبیر کپور اور ماہرہ خان کی تصاویر کے بعد پی ٹی آئی کے سائیڈ ہیرونعیم الحق اور عظمیٰ کاردار کی تصاویر بھی میڈیا میں ایشو بنائی گئی ہیں۔ماہرہ اور رنبیر مبینہ طور پر امریکہ کے کسی ہوٹل کے احاطہ میں سگریٹ نوشی کرتے دکھائی دئیے جبکہ ہمارے سیاسی سائیڈ ہیرواپنی پارٹی کی ساتھی کے ہمراہ احاطہ عدالت میں سیلفیاں بناتے ہوئے پائے گئے۔عدالت میں ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے اقامے کی بابت نااہلی کی پٹیشن زیر سماعت تھی۔تصاویر اور سیلفیوں کے علاوہ سابق وزیر اعظم نوازشریف ، ان کے سمدھی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی عدالتوں میں پیشیاں بھی دیکھیں۔حکمران ایلیٹ سے تعلق رکھنے والے وی آئی پیز کی پیشیاں اورمیڈیا میں اس کی رائونڈ دی کلاک کوریج دیکھ کر یوں لگتاہے کہ پوری قوم بدقسمتی کا مقدمہ بھگت رہی ہے۔ صرف بجلی کے بل میں 14مختلف اقسام کے ٹیکس ادا کرنے والے عوام کی طرف دیکھیں تو یوں لگتاہے کہ حکمران ایلیٹ نے باہم مل کر ان کے برے حالات پر ’’اسٹے ‘‘ (حکم امتناعی) جاری کر رکھاہے۔
میاں نوازشریف کی لندن سے واپسی کے بارے میں نون لیگ میڈیا الیون نے تاثر دیاکہ سیاسی ٹارزن کی واپسی ہوئی ہے۔پیشی کے بعد میاں صاحب نے پریس کانفرنس کے نام پر قوم سے خطاب کیا۔ ان کی تقریر کے مندرجات ویسے تو پرانے ہی تھے مگر اس بار میاں صاحب کا گلا ٹھیک تھا اور آوازبھی بیٹھی ہوئی نہیں تھی اسلئے ان کا ’’گندھار ‘‘ بھی ٹھیک لگا اور ’’پنچم‘‘ بھی صحیح سنائی دیا۔کلاسیکی موسیقی کی زبان اور سرگم یعنی ( سارے گاماپادھانی)میں میاں صاحب کا تیسرا اور پانچواں دونوں سُر ٹھیک لگے مگراستھائی (تقریر ) کے بول المیہ تھے۔
میاں صاحب نے کہاکہ معلوم ہے کہ مجھے کس جرم کی سزاملی ؟فلیش بیک دیکھیں تو اسکرین پلے کچھ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ضیا ء الحق کے دورآمریت میں لاہور کے کورکمانڈر جنرل اقبال تبادلہ ہونے پر جب رخصت ہوئے تو انہوں نے نئے آنے والے کورکمانڈر جنرل غلام جیلانی سے نوجوان صنعت کار نوازشریف کا تعارف کرایا۔یہاں سے سیاست کی لوڈو اور سانپ سیڑھی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ۔جنرل جیلانی نے انہیں تخلیق کیا، جنرل اختر عبدالرحمن نے آگے بڑھایا، جنرل حمید گل نے راستہ دکھایا،جنرل اسد درانی نے اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچایااور جنرل جاوید ناصر ان کے مشیر اقتدار ہوئے۔
نوازشریف نے مولوی تمیزالدین کیس کا حوالہ دیا جس فیصلے سے نظریہ ضرورت ایجاد ہواتھا۔ یہ وہی ’’تاریخی فیصلہ ‘‘ تھا جس سے جسٹس منیر اور جسٹس کارنیلس دو الگ استعارے بن کر ہمیشہ کیلئے یاد رہ گئے۔ نوازشریف کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو بھیجنے کے لئے نظریہ ضرورت سمیت دیگر حربے آزمائے گئے اور یہ سلسلہ ان تک جاری ہے۔ سیاست اور اقتدار کے ایوانوں میں خونی سازشیں ہوئیں وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک جلسے میں سرعام قتل کیا گیا۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد یہ باغ مقتول وزیر اعظم سے منسوب ہوا اورپھر بہت سال بعد ایک اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو بھی ایک عوامی جلسے کے بعد قتل کردیا گیا ۔ عجیب اتفاق ہے کہ عوام کے محبوب لیڈر اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اس باغ سے کچھ فاصلے پر واقع ڈسٹرکٹ راولپنڈی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ یوںتین وزرااعظم اس شہر میں اپنی زندگی کی بازی ہارگئے۔ لیاقت علی خان کے قتل کامعمہ آج تک حل نہیںہوسکا، بے نظیر کا قتل دہشت گردی کے وسیع کھاتے میں درج ہوا اور بھٹو کی موت کو تاریخ میں ’’عدالتی قتل‘‘قراردیا گیا۔یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جن کی بنا پر نوازشریف کے ہسٹورین کبھی انہیں بھٹو سے تشبیہ دیتے ہیں اور کبھی انکے بیٹے حسین نواز انہیں حسین شہید سہر وردی قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کے 17وزرائےاعظم سے کوئی بھی اپنے عہدے کی مدت پوری نہیں کرسکا ۔بھٹو صاحب نے قبل از وقت انتخابات کرائے مگر اپوزیشن نے ان پر دھاندلی کا الزام عائد کرکے تحریک نظام مصطفی شروع کردی جس نے اسلامی نظام کے نفاذ اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔جنرل ضیانے دونوں مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کیااور 11سال تک مسلط ہوگئے ۔تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گردی کا خوفناک ڈی این اے اور کرپٹ اشرافیہ کا Seed(بیج)دونوں انہی کی سوغاتیں ہیں۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکہ میں کہاہے کہ جلال الدین حقانی کبھی آپ کے اورمغرب کے ڈارلنگ تھے۔ ہمیں یاد ہے سوویت یونین کے خلاف ا سپانسرڈ گوریلاجنگ کرنے والے 1985میں وائٹ ہائوس میں مہمان بنے اور صدر ریگن نے کہاتھاکہ ’’یہ جنٹلمن امریکہ کے بانیوں سے بھی عظیم ہیں‘‘ ۔ وزیر خارجہ نے تسلیم کیاکہ حقانی، حافظ سعید اور لشکر طیبہ ہم پر بوجھ ہیں۔ہمارے پاس ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے وسائل نہیں لیکن ہمیں اپنے ہاں ان کا کردار ختم کرنا ہوگا۔
خواجہ آصف نے درست کہاکہ سوویت یونین کے خلاف امریکی پراکسی وار کرنا ہماری تاریخی غلطی تھی۔ لیکن انہوں نے یہ تسلیم نہیں کیاکہ وہ اور ان کے قائدنوازشریف اس خطے میں امریکہ اسپانسرڈ افغان جہاد کے ’’ہول سیل ڈیلر‘‘جنرل ضیاالحق کی پیداوار ہیں۔دہشت گردی ،فرقہ پرستی اور لسانیت کی اس سیاست کے’’ کولمبس‘‘ ضیا الحق تھے ۔ 1977میں بھٹوحکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جب انہیںسیاسی حمایت کی ضرورت پیش آئی تو مجلس شوریٰ بنائی گئی تو خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر اس کے چیئر مین مقرر ہوئے۔ہمارا معاشرہ تضادات،حادثات اور سانحات سے بھر ا پڑا ہے۔ آج جمہوریت کے چیمپئن کہلانے والے اسی نظام کی پیداوار ہیں جسے عوام کے ووٹوں کا تقدس مجروح کرنے کے ساتھ عوام کے محبوب لیڈر بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر وضع کیاگیاتھا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے 14شہدا کے ورثا کو انصاف ضرور ملنا چاہیے ۔کراچی بلدیہ ٹائون کی واردات جس میں 257انسان زندہ پگھل گئے تھے اسے کیوں دبا دیاگیاہے؟کراچی میں ہی سانحہ کارساز جس میں 160افراد کے چیتھڑے اڑا دئیے گئے اس واردات میں 500سے زائد افراد ہمیشہ کے لئے اپاہج ہوگئے اس کا کیابنا؟؟؟12مئی 2007جب بیر سٹر اعتزاز احسن اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو لے کر کراچی گئے تو 54افراد کو قتل کردیا گیا۔اسی رات جنرل پرویز مشرف نے مکا لہراتے ہوئے مقتولین کے ورثا کو یوں پرسادیاتھاکہ ’’عوامی طاقت کے سامنے آنے والے کچلیں جائیں گے‘‘ ۔دوسری طرف سابق چیف جسٹس صاحب اپنے عہدے پر بحال توہوئے مگر انہوں نے سانحہ 12 مئی کے ذمہ داران کے خلاف سووو موٹو نہیں لیاتھا۔وطن عزیز میں عتیقہ اوڈھو کو تو عدالت میں بلایاجاتاہے مگر کارساز،بلدیہ ٹائون ،12مئی،اکبر بگٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیاجاتا؟کرپٹ اشرافیہ سے قوم کا لوٹا ہوا مال واپس وصول کرنا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ اب وہ’’ ٹکسال‘‘ بھی بند ہونی چاہئیں جہاں خام مال سے یہ کرپٹ ایلیٹ تیار کی جاتی ہے۔امریکہ کا ڈومور کامطالبہ غلط ہے لیکن گھر کی صفائی کی بات بھی درست ہے ۔70ہزار پاکستانیوں کے قربانی اور اربوں کھربوں کے وسائل آگ میں جھونکنے کے بعد اب ہم کسی نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیںیہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ امریکہ جیسا ملک جس نے روس کے ساتھ مل کر مریخ پر انسانوں کو آباد کرنے کامعاہدہ کیاہے اسے ہم اپنی زمین پر بے وقوف نہیں بناسکتے۔

تازہ ترین