• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی خبر پر تجزیہ کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تجزیہ کار چھوٹی چھوٹی خبروں سے بڑے نتائج نکالے اور دوسرا بڑی بڑی خبروں سے ایسے نتائج نکالے جو عمومی ہوں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لاگو ہوتے ہوں۔ سائنس نے ان دونوں طریقہ ہائے کار کے بڑے مشکل نام رکھے ہوئے ہیں لیکن ہمارے ہاں کی صحافت میں بھی یہ دونوں طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو بریکنگ نیوز کے سحر میں رہتا ہے۔ اسکرینوں پر سرخ پھٹے دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ امریکہ ، روس، آئی ایم ایف یا بین الاقوامی مسائل سے کم بات نہیں کرتا ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جن کو ہمہ وقت ملک میں گندی نالیوں ، ابلتے گٹروں،اسپتالوں کی حالت زار اور حکومتی بے توجہی کے شکار اسکولوں کا غم کھائے جا رہا ہوتا ہے۔ ان دونوں میں سے کون صحیح ہے اور کون غلط ،اس پر بہت تفصیل سے بات ہو سکتی ہے لیکن یہ کالم اس بحث کا درست محل نہیں ہے۔
ہر خبر کے اندر ایک خبر ہوتی ہے جو اصل خبر ہوتی ہے۔ بظاہر سامنے کی بات ہوتی ہے۔ کئی دفعہ دہرائی گئی ہوتی ہے۔ بارہا اس کا ذکر ہوتا ہے لیکن بڑی بڑی خبروں میں وہ کہیں دفن ہو جاتی ہے۔ قاری کی نظر نہیں پڑتی، ناظر کی بینائی اس حوالے سے کھو جاتی ہے اور سامع کی سماعت دھوکہ دے جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بڑی بڑی بریکنگ نیوز میں خبریت کم اور سنسنی زیادہ ہونے لگی ہے۔ پتے کی بات کم ہی ہوتی ہے۔ تجزیہ کار بھی اس دور میں بہت منفرد نہیں رہے۔ چینل کی اسکرین اور تجزیہ کار کا نام دیکھ کر ہی آپ کو اندازہ ہو جاتاہے کہ آج صاحب کی شعلہ بیانی کا رخ کس جانب ہوگا۔ قیامت کس پر ٹوٹے گی، کرم فرمائی کس پر ہوگی۔ کس کے جرم سے نگاہ چرا لی جائیگی کس کی خطا پر نشان عبرت بنا دیا جائیگا۔اخبارات کے کالم میں نام سے ہی کام کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ کون آج قوم کو توم دے گا؟ کون لعنت بھیجے گا؟کون ملامت کرے گا؟ کون وفاداری جتائے گا؟ اس سب کا اندازہ آپ کو پہلے سے ہی ہو جاتا ہے۔اگر آپ کی دلچسپی خبروں میں ہے تو آپ شخصیات کے ذریعے نظریات کو جان لیتے ہیں۔ پورا پروگرام دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کالم کی آخری سطروں تک نگاہ نہیں جاتی۔
آج کل چند موضوعات بہت گرم ہیں۔ ایک صوبائی حکومت کا دوسرے پر الزام،سابق وزیر اعظم کا لندن کا دورہ یا مبینہ فرار، این اے 120 میں جیت کے ثمرات اور مضمرات ،خاقان عباسی کی اقوام متحدہ میں تقریر، بھارتی وزیر خارجہ کا جواب،خواجہ آصف کاایشیا سوسائٹی سے خطاب ، عمران خان کا نئے الیکشن کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں نااہلی کی درخواست کے حوالے سے نظر ثانی کی اپیل مسترد، اسلام آباد میں داعش کے پوسٹر،دہشت گردوں کے خلاف حتمی جنگ کا ولولہ انگیز بیان، بھارت کی کنٹرول لائن پر چیرہ دستیاں ، کشمیر میں ہونے والے مظالم، کراچی میں لڑکیوں کو چھریاں مارنے والے مجرم، کے پی میں ڈینگی کی بڑھتی وبا،، بالی وڈ کی نئی فلمیں، ہالی وڈ کے کارنامے، سرفراز احمد کا کپتان کی حیثیت سے پہلا ٹیسٹ، افسران کے تبادلے اور پوسٹنگز، آزادی صحافت پر حملے، سچ لکھنے والوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں۔ان میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے ۔ان سب میں کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ سب سامنے کی باتیں ہیں مخفی کچھ بھی نہیں۔کوئی ایک نہ سنا تا تو کسی دوسرے نے سنا دینا تھا۔
آپ کو یاد ہو گا جب سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی اہلیہ کی عیادت کے لئے لند ن میں تھے۔انہی دنوں حالیہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ میں تقریر کرنی تھی۔ تقریر سے پہلے اور بعد میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے لندن کا دورہ کیا سابق وزیر اعظم کو اپنے دورے کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ حالیہ وزیر اعظم کے لندن دورے کے حوالے سے سابق وزیر اعظم نے جو پریس کانفرنس کی تھی وہ بھی آپ کو یاد ہوگی۔ یہ وہی پریس ٹاک تھی جس میں نواز شریف بہت پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ بار بار اپنی اہلیہ کی صحت کا ذکر کر رہے تھے۔ اس پریس ٹاک میں ایک جید صحافی کے سوال پر سابق وزیر اعظم نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ این اے 120 میں ہمارے کارکنوں کو اٹھایا جا رہاہے اور اس سلسلے میں انہوں نے وزیر اعظم خاقان عباسی صاحب سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ اس معاملے کی تفتیش کریں۔
ایک لمحے کو سوچیں تو یہ کون کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔ شکایت وہ کر رہا ہے جو اس 21 کروڑ کی آبادی والے ملک کا تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکا ہے۔ جس کو کروڑوں لوگوں نے ووٹ دے کر منتخب کیا اور ایک اقامے کو بہانہ بنا کر اسے نا اہل کر دیا گیا۔ شکایت جس سے کی جا رہی ہے وہ اس ملک کا منتخب جمہوری وزیر اعظم ہے۔جس کو سارے ملک کے منتخب امیدواروں کا اعتماد حاصل ہے۔ بات اس صوبے کی ہو رہی ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔جس پر بقول شخصے تیس برسوں سے شہباز شریف کی حکومت ہے۔جہاں کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ہیں ، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ پولیس انکے حکم کے بغیر سانس نہیں لے سکتی۔ ذکر اس شہر کا ہو رہا ہے جو پنجاب کا دارالحکومت ہے۔ جو نواز لیگ کا دہائیوں سے گڑھ ہے۔ انتخاب کس کا ہو رہا ہے۔
سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کا کہ جن کی جمہوریت کے لئے بے پناہ خدمات ہیں۔ الیکشن مہم مریم نواز شریف چلا رہی ہیں۔ جو سابق وزیر اعظم کی صاحب زادی ہیں۔ جن کا سوشل میڈیا پر بہت اثر ورسوخ ہے۔ جو ممکنہ طور پر مستقبل کی وزیر اعظم ہیں۔ اس سارے معاملے میں رونگٹے کھڑا کر دینے والا سچ یہ ہے کہ ان سب میں کسی کو خبر نہیں کہ ان کارکنوں کو کس نے اغوا کیا۔ نہ اس جرم کی روک تھام ان کی بساط تھی، نہ اس کے مجرم پکڑنے کا ان کو اختیار تھا۔ نہ کسی کو ان کارکنوں کے اغوا کی خبر ہوئی نہ کسی نے ایف آئی آر درج کروانے کی جرات کی۔ نہ کوئی مقدمہ بنوانے کا حوصلہ کر سکتاہے نہ کوئی سزا دلوانے کی درخواست کر سکتا ہے۔ جمہوریت کے یہ سب چیمپئن ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں اور ایک دوسرے سے ہی استفسار کر رہے ہیں کہ ہمارے کارکنوں کو کس نے اٹھایا؟ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ۔ہنگامہ خیز خبروں کے درمیان دھنسی اس چھوٹی سی لرزا دینے والی خبر کو دیکھنے اور سننے کے بعد انسان اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہاں حکومت کس کی ہے؟ حاکم کون ہے اور محکوم کون ؟ آقا کون ہے اور غلام کون ؟ سکہ کس کا چلتا ہے اور جوتا کس کو پڑتا ہے؟ سامنے کون آتا ہے اور پس پردہ کون رہتا ہے؟مالک کون ہے اور مخلوق کا سلوک کس سے روا رکھا جاتا ہے؟ اس دھرتی کے مختار کون ہیں اور ملزم کون ؟طاقت کا منبع کہاں ہے اور کمزوری کا نشان کون ؟ اس معاملے پر، عوام کے ووٹوں سے منتخب، جمہوری حکمرانوں کی بے بسی دیکھ کر، خدا کی قسم سمجھ نہیں آتا آخر اس ملک میں کس کی حکومت ہے؟ معاملات کو کون چلا رہا ہے؟کارکنوں کو کون اٹھا رہا ہے؟

تازہ ترین