• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی احتساب بیورو کا جمعہ کے روز منعقدہ اجلاس اگرچہ ’’ان کیمرہ‘‘ تھا مگر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی میڈیا بریفنگ اور باخبر ذرائع سے آنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئے احتساب قانون کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔ نیشنل اکائونٹبلیٹی بیورو (نیب) کے موجودہ قانون پر کئی حلقوں میں تحفظات ہیں اور عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ قانون چھوٹا جرم کرنیوالوں کی گرفت کرنے اور بڑا جرم کرنے والوں کو ’’پلی بارگین‘‘ کے نام پر کلین چٹ دینے کا ذریعہ ہے۔ آمرانہ دور میں اس قانون کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا جبکہ بعض حالات میں بدعنوانیوں میں ملوث عناصر لوٹی گئی رقوم کا ایک حصہ واپس کرکے نہ صرف سزائوں سے محفوظ رہے بلکہ اپنے عہدوں پر بحال رہ کر اور مزید ترقی پاکر سب کچھ کرنے کیلئے آزاد رہے۔ کئی معاملوں میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے بھی اس ضمن میں سخت ریمارکس سامنے آتے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون کی بریفنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’نیب‘‘ قانون کے جائزے کے لئے بنائی گئی کمیٹی میں شامل تمام جماعتوں میں اس بات پر اتفاق رائے برقرار ہے کہ موجودہ قانون کی جگہ نیا قانون لایا جائے۔ تاہم کئی تجاویز پر بدھ 4اکتوبر کے اجلاس میں غورو خوض متوقع ہے۔ کمیٹی کے سامنے جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان میں ایک سفارش قومی احتساب بیورو کا نام تبدیل کرکے قومی احتساب کمیشن رکھنے کی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کسی ادارے کو ہم اچھے سے اچھا نام دے سکتے ہیں مگرجب تک قومی زندگی پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے نظر نہ آئیں ساری مشق بیکار رہتی ہے۔ جمعہ کے روز پارلیمانی پارٹی کا جو اجلاس ہوا اس میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور جرنیلوں کو احتساب کے دائرے میں لانے کی تجاویز زیر غور آئیں۔ یہ تجاویز چونکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کی گئی تھیں، جس کے ارکان مذکورہ اجلاس میں موجود نہیں تھے، اس لئے ان پر تفصیلی تبادلہ خیال پی پی پی ارکان کی موجودگی میں کیا جائیگا۔ نیب کے چیئرمین کی موجودہ مدت کو چار سال سے گھٹا کر تین سال کرنے، بدعنوانی کی تعریف میں تبدیلیاں کرنے، پلی بارگین اور لوٹی ہوئی رقم کی رضاکارانہ واپسی کی تجاویز ختم کرنے کی بھی سفارشات ہیں۔ پچھلے برسوں اور عشروں کے دوران ملک میں کرپشن کے عفریت نے جس انداز میں ہر شعبے کو جکڑا اس نے ملکی معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچانے کے علاوہ عوامی سطح پر مایوسی کو جنم دیا ہے۔ وطن عزیز میں دہشت گردی کو پھیلنے کے جو مواقع ملے ان میں غیر ملکی سازشوں کے علاوہ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بڑھنے والے اضطرابی ردعمل کا بھی کچھ نہ کچھ دخل ہے۔ اس لئے ہر شعبے میں ہر سطح پر احتساب کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔ جمہوریت کو دوسرے نظاموں سے بہتر سمجھا جاتا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہےکہ اس نظام میں سب کا احتساب ہوتا ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ برطانوی پارلیمانی نظام کو اسی لئے ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے کہ وہاں کوئی بھی احتساب سے ماورا نہیں، نہ ہی کسی فرد کے عوامی یا سرکاری عہدے پر فائز ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اسے قومی خزانہ لٹانے یا طریق کار سے ہٹ کر کسی بھی معاملے میں من مانے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔ جہاں تک احتساب کے قانون کا تعلق ہے اُس میں اصلاح کی ضرورت عرصے سے محسوس کی جارہی تھی اور پارلیمانی کمیٹی اس باب میں کام کررہی ہے تو اس سے اچھے نتائج کی توقع کی جانی چاہئے۔ مگر یہ کام آسان نہیں ہے۔ اس میں کئی مرحلے آئیں گے۔ سب سے پہلا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ نئے قانون کا دائرہ کار وفاق کی حد تک ہوگا یاصوبوں میں بھی اس کا اطلاق ہوگا۔ کیونکہ سندھ میں وفاق کا نیب قانون پہلے ہی ختم کیا جاچکا ہے اور خیبر پختونخوا حکومت نے بھی اپنا احتساب کمیشن بناکر اس کا آغاز کردیا ہے۔ اسی طرح عدلیہ کا اپنا احتساب کا نظام ہے جبکہ فوج میں بھی کڑے احتساب کا طریق کار موجود ہے۔ کئی اصطلاحات کی تعریفیں متعین کرنا ہوں گی۔ ان کیلئے صوبائی حکومتوں اور مختلف اداروں سے مشاورت کی ضرورت ہو گی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان اس کام کو عام انتخابات سے پہلے تکمیل کے مراحل تک لے جانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

تازہ ترین