• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری سیاست میں شطرنج کے کھیل میں بھی زیادہ چالیں پائی جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں، خاکی وردی پوش، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن اور رائے دہندگان اس کھیل کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نتائج کو مینج کرنا اگر ناممکن نہیں تو بھی مشکل ضرور ہے ۔ نوازشر یف کو ہٹائے جانے ، اور توجہ کا ارتکاز 2018ء میں طاقت کی تقسیم پر ہونے کی وجہ سے پی ایم ایل (ن) کی کمزوری نمایاں ہونے کا پہلا مرحلہ نظروں کے سامنے ہے ۔ تمام تر سازشی تھیوریوں، گپ شپ اور ڈیل سازی کی ٹکسال کا موسم عروج پر ہے ۔ چنانچہ یہ سال ایک طویل عرصہ محسوس ہوگا۔ اس کے ایک ایک لمحے میں بیانات ، سیاسی ابلاغ اور نعرے بازی کی بھرمار ہوگی، لیکن پالیسی سامنے لانے سے گریزلازمی ہو گا۔
پہلا کھیل تو کسی نئے اپوزیشن لیڈر کے چنائو کا ہے ۔ اس وقت دو عہدوں پر ہونے والی تعیناتیاں بہت اہمیت کی حامل ہیں، اور ان کے 2018 ء میں طاقت کی تقسیم کے عمل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ چیئرمین نیب اورنگران وزیر ِاعظم کے عہدوں کے لئے ناموں کا انتخاب ہے ۔ شریفوں کے احتساب عدالت میں ٹرائل کی سپریم کورٹ کی نگرانی کرنے کی وجہ سےیہ بات غیر اہم ہوجاتی ہے کہ کیا نیا چیئرمین نیب اس مقدمے کو پوری شدومد سے انجام تک پہنچاتا ہے، یا نرمی برتنے کی پالیسی رکھتا ہے۔ شریفوںکے خلاف ریفرنسز پہلے ہی فائل کیے جاچکے ہیں۔ ان کی بنیاد پرہی فیصلہ ہونا ہے کہ کیا 2018 ء کے انتخابی معرکے میں قدم رکھنے سے پہلے بدعنوانی کا بوجھ بڑھ چکا ہوگا یا اس میں کچھ کمی واقع ہوگی ۔
قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 6کے مطابق چیئرمین نیب کی تقرری وزیر ِاعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے صدر ِ مملکت کرتے ہیں ۔اگر دونوں میں کوئی اتفاق نہ ہوسکے ( اوراس کا قوی امکان ہے اگر پی ٹی آئی اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے ) تو پھر چیئرمین کے عہدے پر تقرری کا معاملہ عدالت میںطے ہوگا۔ اس سے پی ٹی آئی کے وسیع تر پیغام کو بھی مزید تقویت ملے گی کہ احتسا ب کے نظام کو شریفوں نے یرغمال بنا رکھا تھا۔ اس سے بھی اہم معاملہ 2018 ء کے عام انتخابات سے پہلے نگران وزیر ِاعظم کی تقرری ہے ۔ آئین کے تحت وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کا نگران وزیراعظم پر اتفاق ضروری ہے ۔ لیکن اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو پھر وزیر ِاعظم اور اپوزیشن لیڈر دودو نام اسپیکر کی قائم کردہ ایک کمیٹی کے پاس بھجوائیں گے ۔ یہ کمیٹی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے آٹھ ارکان پر مشتمل ہوگی، اور اس میں حکومت اور اپوزیشن کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی ۔اگر یہ کمیٹی بھی کسی نام پر اتفاق کرنے میں ناکام ہوجائے تو پھر تجویز کردہ نام الیکشن کمیشن کے سامنے جائیں گے ، جو پیش کردہ چارناموں میں سے کسی ایک کو نگران وزیر ِاعظم نامزد کردے گا۔ چیئرمین نیب کی تقرری کی طرح نگران وزیر اعظم کی تقرری میں بھی اپوزیشن لیڈر کا کردار ہوتا ہے لیکن دیگر اپوزیشن جماعتوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن لیڈر براہ راست کسی کونگران وزیر ِاعظم نہیں چن سکتا لیکن اس کی مشاورت ضروری ہے ۔
اگر پی ٹی آئی کوخوف ہے کہ شریف اور زرداری 2018 ء کے عام انتخابات سے پہلے کوئی ڈیل کرلیں گے (پی پی پی کی پنجاب میں، اور پی ایم ایل (ن) کی سندھ میں کوئی موجودگی نہیں ہے ، اور دونوں کو عدالتوں اور اسٹیبلشمنٹ اور احتساب کے عمل کا خوف ہے )تو پی ٹی آئی کی پوری کوشش ہوگی کہ موجودہ اپوزیشن لیڈر سے عہدہ چھین لیا جائے ۔ اگلے عام انتخابات میں مرکزی اپوزیشن جماعت کے طور پرحصہ لینا پی ٹی آئی کے قدکاٹھ میں مزید اضافہ کردے گا۔ اسے پی ایم ایل (ن) کے اصل حریف کے طور پر دیکھا جائے گا، اور سائیڈ لائن پر بیٹھ کر معرکے کا انتظارکرنے والے اس کی صفوں میں شامل ہوجائیں گے ۔ پی پی پی کے قابل اِنتخاب ’’حقیقت پسندوں ‘‘ کو بھی فیصلہ کرنے میں زیادہ جذباتی الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پرانے پاکستان کی جگہ نئے پاکستان کا چہرہ نمایاں ہونا شروع ہوجائے گا۔خالصتاً سیاسی معروضات کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی طاقتور سویلین حکومت کو اقتدار پر دیکھنے کی خواہش مند نہیں ۔ کیونکہ ایسی حکومت اپنی خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکورٹی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتی ہے ۔ دوسری طرف سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ان امور کو اپنی نگرانی میں رکھنا چاہتی ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں سول ملٹری اختیارات کے توازن کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے ۔ چنانچہ تاثر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ 2018 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ چاہتی ہے ۔ نوازشریف شدید گھائل ، چنانچہ جارحیت پر کمربستہ دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے سامنے فیصلہ کن موڑ ہے ۔ اگر اُنھوں نے ہمت نہ دکھائی تو اُن کا سیاسی سورج غروب ہونے جارہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ لڑنے کو ترجیح دیں گے ۔ اس رویے نے پی ایم ایل (ن) کے قابل ِ انتخاب افراد کو الجھن میں ڈال دیا ہے ۔ وہ نفسیاتی طور پر اسٹیبلشمنٹ مخالف نہیں ہیں، اور نہ ہی اُن میں انقلابی جینز پائے جاتے ہیں۔ اُن کی سیاسی جبلت تقاضا کررہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہولیں کیونکہ اقتدار میں آنے کا یہی آسان اور یقینی راستہ ہے ۔ دوسری طرف وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عوامی مقبولیت کا ترازو نوازشریف کی طرف جھکا ہوا ہے ۔ اور نواز شریف کے بغیر وہ ’’پنجاب میں ابھرتے ہوئے نئے پاکستان ‘‘ کو شکست نہیں دے سکتے ۔
جی ٹی روڈ کی مہم ، پول سروے اور این اے 120کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ نواز شریف کو نااہل تو قرار دے دیا گیا لیکن سیاست سے نہیں نکالا جاسکا۔ پاناما کا اخلاقی سرمایہ کھو چکا ہے ، پی ایم ایل (ن) کی سیاسی حمایت میں اگر کوئی کمی واقع ہوئی تھی تو اس سے پی ٹی آئی کی حمایت میں اضافہ نہیں ہوا۔ پنجاب میں پی پی پی کی سیاسی موت ، اور اس کے قابل ِ انتخاب رہنمائوں کا پی ٹی آئی کی صفوں میں شامل ہونا ، پی ایم ایل (ن) کی حمایت میں کمی واقع ہونا ، اور وسیع تر پنجابی سوچ میں یہ احساس جاگزیں ہونا کہ ایک مرتبہ جسے اسٹیبلشمنٹ نکال باہر کرے، وہ دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکتا۔ممکن ہے کہ پنجاب کے کئی ایک انتخابی حلقوں کے متوقع نتائج بدل جائیں ، لیکن کیا یہ معروضات پی ٹی آئی کو اقتدار پر متمکن کرنے کے لئے کافی ہوںگے ؟
اگر حالات کا دھارا انہی خطوط پر بہتا ہے تو پی ایم ایل (ن) پنجاب میںچند درجن نشستیں کھو دے گی۔ قومی اسمبلی میں پی ایم ایل (ن)، پی پی پی اور پی ٹی آئی ہی اہم نمائندہ جماعتیں ہوںگی لیکن ممکن ہے کہ کوئی بھی اکیلا حکومت سازی کے قابل نہ ہو۔ اور یہ صورت ِحال اسٹیبلشمنٹ کے لئے ساز گار ہوگی ۔ جب کسی کو واضح انتخابی فتح نہیں ملے گی تو اگلے پانچ سال سیاسی شطرنج پر بچائو کا کھیل جاری رہے گا۔ اور بچائو کی جنگ کرنے والے خارجہ پالیسی اور سیکورٹی کے مسائل پر توجہ دینے کے قابل نہیں ہوتے ۔ چنانچہ ان اہم امور کو محفوظ ہاتھوں میں دینا ہی دانائی ہے ۔
اگر احتساب کے مقدمے اور اٹھائے جانے والے کسی غلط قدم ، یا چلی جانے والی کسی غلط چال کے نتیجے میں یہ تاثر مزید گہرا ہوگیا ۔ نواز شریف کے ساتھ ظلم ہورہا ہے تو کیا ہوگا؟ اگر شریف خاندان میں رخنے کی خبروں میں مبالغہ آرائی پائی گئی، اور حدیبیہ پیپرملز اور ماڈل ٹائون انکوائری کی رپورٹ سامنے لانے کے بعد یہ تاثر مزید شدت اختیار کر گیا کہ یہ ایک نہیں ، بلکہ دونوں بھائیوں کا سیاسی کردار ختم کرنے کا منصوبہ ہے تو عوامی ردعمل کیا ہوگا؟اگر اس کے نتیجے میں نوازشریف کو پارلیمنٹ میں زیادہ اکثریت مل گئی تو پھر کیا ہوگا؟یا یہ تمام معروضات الٹ جاتے ہیں اور عمران خان پنجاب اور اسلام آباد میں حکومت بنالیتے تو کیا ہوگا؟
اب یہ کھیل عدلیہ کے ایوان میں داخل ہوچکا ہے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عوام کسے ووٹ دیتے ہیں، فرق اس بات سے پڑے گا کہ نواز شریف کی قسمت کا فیصلہ کیا ہوتا ہے اور، اس کے بعد پی ایم ایل (ن) کے قابل ِ انتخاب کب تک ’’انقلابی‘‘ دکھائی دینے کی اداکاری کرتے ہوئے ساتھ نبھاتے ہیں؟یہاں عمران خان کے خلاف بھی نااہلی کا کیس چل رہا ہے ۔ اگر 2018تک عمران خان بھی نااہل ہوجاتے ہیں تو کیا یہ ’’غیر جماعتی انتخابات ‘‘ہوں گے ؟ خیر یہ ہمارے ہاں کوئی نیا تجربہ نہیں ہوگا۔
امید کی جانی چاہئے کہ ہماری جنگ آزما فوج اپنی پیشہ ور صلاحیت پر یقین رکھتے ہوئے سویلینز کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دے گی۔ آئین کا آرٹیکل 243کہتا ہے ۔۔۔’’مسلح افواج وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہوں گی۔‘‘نیزہم عدالت کو بھی قانون کی حکمرانی یقینی بناتے ہوئے دیکھیں گے ۔ کیا یہ امید برآئے گی؟ 2018 ء کے عام انتخابات سے پہلے پیش آنے والے واقعات بہت کچھ واضح کردیں گے۔

تازہ ترین