• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 دوستو! قصہ کچھ یوں ہے، بلکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے کینسر کے مرض میں مبتلا ایک غریب مریضہ کے لئے انمول (پاکستان اٹامک انرجی کا کینسر کے مریضوں کی علاج گاہ) کے درد دل رکھنے والے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابوبکر شاہد سے درخواست کرنا پڑی۔ انہوں نے بتایاکہ اس مرض میں مبتلا مریضہ کے علاج پر 19/18 لاکھ روپے کا خرچہ ہے اور ہمارا ادارہ اتنے پیسے نہیں دے سکتا۔ اس خاتون کا خاوند بے چارہ گریڈ 14 کا سرکاری ملازم ہے جو پتہ نہیں گھر کی دال روٹی اوربچوں کی فیسیں بھی کیسے ادا کرتا ہوگا؟ اوپر سے کینسر جیسے موذی مرض نے آلیا ہے۔ اپنے محکمےوالوں سے بات کی، اسپتال والوں سے بات کی، سب نے کہا کہ تمہاری Entitlement نہیں۔ یعنی تم جس گریڈ میں ہو اس گریڈ والے کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کے علاج کے لئے حکومت اتنے پیسے نہیں د ے سکتی۔ تم جہاں سے مرضی اور جیسے مرضی علاج کرائو۔
کتنی تلخ حقیقت ہے کہ علاج کی سہولت بھی گریڈ دیکھ کر دی جاتی ہے۔ ارے اللہ کے بندو کیا بیماری گریڈ دیکھ کر آتی ہے۔ یعنی اگر ایک سرکاری ملازم چھوٹے گریڈ میں ہے تو اس کو صرف اور صرف نزلہ، زکام اور کھانسی ہونی چاہئے کیونکہ اس بےچارے کی اوقات ہی کیا؟ کینسر، گردوں، دل اور شوگر کا مرض تو گریڈ20 اور اس سے اوپر کے گریڈ کو لاحق ہونا چاہیے۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف ویسے تو اپنی بے شمار تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ ہم ہر شہری کو سستا علاج فراہم کریں گے، کوئی مریض بغیر علاج کے نہیں رہے گا۔ اس سے قبل کئی وزرائے اعظم بھی اس قسم کے دعوے کر چکے ہیں۔ مگر عملاً’’درد دل‘‘ کا دعویٰ کرنے والی اس حکومت نے کیادیا ہے؟ (ن) لیگ کی حکومت کو چھوڑیں کیا اس سے قبل پی پی پی کی حکومت نے عوام کی صحت اور علاج کے حوالے سے کوئی اقدامات کئے؟
بہترین علاج کی سہولت صرف بیوروکریسی، پولیس اور ممبران اسمبلی کو حاصل ہے وہ اندرون ملک اور بیرون ملک دونوں جگہ علاج کرا سکتے ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ کئی برس قبل ایل ڈی اے کے ایک ڈی جی کی اہلیہ کو بھی یہی کینسر ہوگیا تھا اور وہ موصوف چھوٹے میاں صاحب کے قریب تھے اس کے علاج کا سارا انتظام چند روز میں ہوا اور بیرون ملک سے علاج بھی ہوگیا اور وہ صحت یاب بھی ہوگئیں۔
اس ملک میں لاکھوں ایسے سرکاری ملازم ہیں جو چھوٹے گریڈ میں کام کر رہے ہیں بلکہ زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ کبھی کسی بھی حکومت نے سوچا ہے کہ آخر یہ سرکاری ملازمین کس طرح علاج کی سہولتیں حاصل کرتے ہوںگے؟جس ملک میں ایک ہی طرح کی بیماری کی ادویات اور علاج میں فرق ہو، جہاں پر امیر کے لئے علیحدہ اور غریب کے لئے علیحدہ اسپتال ہوں، وہاں پر انصاف کی توقع کرنا لاحاصل ہے۔
کراچی کےجے پی ایم سی(جناح اسپتال) میں پاکستان کا پہلا CYEA KNIFEکچھ عرصہ قبل نصب کیا گیا تھا۔ جہاں پر سالانہ پانچ ہزار کینسر کے مریضوں کا علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے۔ یہ کراچی کے جناح اسپتال میں ڈاکٹر طارق جاوید کی نگرانی میں ریڈیا لوجی کے شعبہ میں لگایا گیا ہے۔ اس شعبے میں پنجاب کے 31فیصد، کے پی کے 11فیصد، بلوچستان کے 6.5فیصد، بیرون ممالک کے 5فیصد، باقی سندھ اور کراچی کے کینسر کے مریضوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔
CYEA KNIFE RUBOTIC RADIO SURGERY(جناح اسپتال کراچی) کینسر کے مریضوں کا جدید ترین طریقہ علاج ہے جس میں ایک ملی میٹر سے بھی کم ٹشو کو کاٹا جاتا ہے اور خون کا ضیاع بھی نہیں ہوتا۔اس وقت اس قسم کے RUBOTICپوری دنیا میں صرف ڈھائی سو ہیں۔ امریکہ میں اس طریقہ علاج پر ساٹھ ہزار ڈالرز خرچ ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں جناح اسپتال کراچی میںمخیر حضرات کی مہربانی سے اس سینٹر میں بالکل مفت علاج ہوتا ہے اور اس ساری کاوش کا صلہ ڈاکٹر طارق محمود کو جاتا ہے جو دن رات کینسر کے مریضوں کو صحت یابی کی طرف لانے کو اپنی زندگی کا مشن بنا چکے ہیں۔
کاش چھوٹے میاں صاحب پنجاب میں بھی ریڈیو سرجری کے شعبوں میں ایسے جدید ترین CYEA KNIFE RUBOTIC لگائیں اس طریقہ علاج میں ریڈی ایشن کے ذریعے متاثر ٹشو کا علاج کیا جاتا ہے۔ ویسے تو تمام طرح کے سرطان کا علاج ہوسکتا ہے مگر دماغ، پروسٹیٹ اورریڑھ کی ہڈی کے سرطان کے لئے یہ جدید طریقہ علاج میسر ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ میاں صاحب کو کینسر کے مریضوںکی تکلیف اور اذیت دونوں کا اندازہ ضرور ہے کیونکہ وہ خود بھی سرطان میں مبتلا رہے تھے اور صحت یاب ہوئے اور اب بیگم نواز شریف بھی سرطان کے مرض میں مبتلا ہیں۔ انہیں اس ملک میں سرطان کے مریضوں کے لئے یہ جدید طریقہ لانا چاہئے اور مشعل اوباما نے مریم نواز کو جو 70ملین ڈالر بچیوں کی تعلیم کے لئے دیئے تھے ان کو اس نیک کام میں لگایا جائے۔ہمارے ہاں بعض ڈاکٹرز دوسرے ممالک سے یہ دعویٰ کرتے آتے ہیں کہ وہ پاکستان کی خدمت کریں گے مگر یہاں آ کر وہ خود بھی تیس لاکھ تنخواہ لیتے ہیں اور اپنی اہلیہ کوبھی 20/25 لاکھ روپے پر رکھ لیتے ہیں۔
حکومت پنجاب ایک ادارہ پی کے ایل آئی یعنی پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ 20ارب روپے سے بنا رہی ہے اور سننے میں آیا ہے کہ غالباً اس کے بجٹ میں مزید سات آٹھ ارب روپے کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سفید ہاتھی جس کا سالانہ خسارہ کوئی 20/22 کروڑ روپے تک بتایا جاتا ہے۔ اس کو بنانے میں پانی کی طرح پیسہ بہایا جارہا ہے۔ کاش کوئی حکومت کو یہ بتائے کہ تمام ٹیچنگ اسپتالوں میں گردے اور جگر کے امراض کی علاج گاہیں ہیں۔ اس 20 ارب روپے سے وہ تمام ناصرف اپ گریڈ ہوسکتی ہیں بلکہ مریضوں کو ان کےگھروں کے نزدیک علاج کی سہولت میسر آ سکتی تھی۔ کیونکہ پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں سرکار کے ٹیچنگ اسپتال ہیں جہاں پر شعبہ میڈیسن، آنکھوں کاشعبہ، شوگر کا شعبہ، انستھیزیا کا شعبہ، نفسیات کا شعبہ، غرض تمام شعبہ جات موجود ہیں، آپریشن تھیٹرز موجود ہیں، نرسنگ اسٹاف، پیرا میڈیکل اسٹاف سب کچھ ہے اس نئے ادارے میں آپ کو یہ تمام شعبے نئے سرے سے بنانے ہوں گے۔ ایک طرف آپ کو ڈاکٹرز نہیں مل رہے، آپ باہر کے ممالک سے ڈاکٹرز بلا رہے ہیں۔ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ اس ادارے کے سربراہ نے کبھی بھی پاکستان کے پبلک سیکٹر میں کام نہیں کیا، ساری عمر امریکہ میں کام کیا اس کو یہاں کے مسائل اور مریضوں کی تکلیفوں کا اندازہ کیا ہوگا؟صرف انگریزی بول کر یا خوبصورت پریزنٹیشن دے کر علاج نہیں ہو سکتا، پھر اس سے بڑھ کر اور کیا تماشا ہے کہ وہ شخص ایک طرف حکومت کے قائم کردہ ٹرسٹ اسپتال کا ہیڈ ہے تو دوسری طرف اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں بھی کام کر رہا ہےاور پھر امریکہ جا کر بھی وہ کام کرتا ہے۔ کاش یہ پروجیکٹ اس ملک کے انتہائی بے لوث معروف ماہر امراض گردہ پروفیسر ادیب رضوی کے حوالے کردیا جاتا۔
اس ادارے کی تعمیر کے حوالےسے بھی کئی مسائل ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق مشینوں اور آلات کے کمرے مناسب جگہوں پر نہیں بنائے جا رہے، ڈیزائن کسی کا، تعمیراتی کام کوئی اور کر رہا ہے۔ کئی بےشمار ادارے اس منصوبے میں گھسے ہوئے ہیں۔ اللہ نہ کرے یہ بھی پاناما ہیلتھ اسکینڈل نہ بن جائے کیونکہ میڈیکل پروفیشن میں بےشمار، ڈاکٹروں کو اس پر تحفظات ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا جب پاکستان میں بہترین لیور ٹرانسپلانٹ، کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجنز، جگر اور گردوں کے امراض کے بہترین ماہرین موجود ہیں جن کا پبلک سیکٹر میں تیس تیس سال کا تجربہ ہے ان کو چھوڑ کر ایسے فرد کو لگانا جو پاکستان کے سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے کا تجربہ نہیں رکھتا، سمجھ سے باہر ہے۔ کبھی یہ حقیقت بھی سامنے آئے گی۔

تازہ ترین