• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ساڑھے تین سالوں سے سوچی سمجھی کوشش ایک تسلسل، لگن، دلجمعی، اطمینان، دل و جان سے ہر تدبیر، تجویز، ترکیب، سعی، محنت، مشقت، دوڑ دھوپ ایک ہی سمت میں، وطن عزیز کو دلدل میں کیسے دھکیلا جائے؟ اصول و ضوابط، آئین، قانون، الیکشن دھاندلی، کرپشن کی آڑ میں کڑا وار ایسا کہ چالیں کارگر، ہوچکیں۔ تسلسل اور کرب سے توجہ دلائو نوٹس دئیے، بحران نے گرداب کا روپ دھارا تو سیاسی عدم استحکام، ریاست کے لئے جان لیوا ہو رہے گا۔سانحہ مشرقی پاکستان ازبر رکھنا ہوگا۔ اس میں کوئی باک نہیں کہ موجودہ کھیل شروع اسٹیبلشمنٹ نے کیا، سیاسی حکمرانوں نے بھی تنگ آمد بجنگ آمد گند ڈالنے میں بخل نہیں دکھایا۔ موجود بحران نظریاتی مملکت کو نیست و نابود کر سکتا ہے؟
کیا بانیانِ پاکستان کی بلند حوصلگی کو خاک میں ملایا جا سکتا ہے؟ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کا مشہور اسکالر ڈاکٹر ایلن کیسلر، 1934میں قائد اعظم کی لندن کی جلاوطنی ترک کرکے ہندوستان واپسی پر روشنی ڈالتے ہیں کہ یہ کہانی علامہ شبیر احمد عثمانی کو خود عظیم قائد نے اس شرط پر سنائی تھی کہ کم از کم عظیم قائد کی زندگی تک صیغہ راز رہے۔انتقال کے بعد قائد اعظم کی زبانی’’لندن میں معمول کے مطابق رات سو یا تو پلنگ نے شدید ہچکولے کھائے، شدت نے جگا دیا۔ گھبرا کر سوچا شاید زلزلہ، باہر نکلا، باہر زلزلہ کے آثار نہ تھے، واہمہ سمجھ کر آکر سو گیا۔ پھردوبارہ پلنگ لرزا، زلزلے کا واہمہ ہوا اور باہر نکلا، باہر بندہ نہ بندے کی ذات، دوبارہ آکر سو گیا۔آنکھ لگتے ہی پلنگ کے ہلنے جلنے کا عمل پہلے سے شدید محسوس ہوا۔ باہر جانے کے لئے اٹھا تو ایک برگزیدہ شخصیت کو اپنے سامنے پایا۔ استفسار پر پتہ چلا کہ رسول اللہ ﷺ ہیں۔جانتے ہی جسم میں سرسراہٹ، رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ عرض کی، میرے آقا(ﷺ) میرے لیے کیا حکم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’جناح تم فوراً وطن لوٹ جائو، وہاں کے مسلمانوں کو تمہاری اشد ضرورت ہے۔ میں تمہیں حکم دیتا ہوں جا کر مسلمانوں کی تحریک آزادی کی قیادت کرو۔ فکر مت کرو میں تمہارے ساتھ ہوں گا۔ ان شاءاللہ تم اپنی جدوجہد اور مشن میں کامیاب رہو گے‘‘۔ عظیم قائد آخری سانس تک دہراتے رہے کہ پاکستان کو کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی تو اس کی وجہ رسول اللہ ﷺ کی بلااشتباہ غیر مبہم، سہاراو پشت پناہی، تائید اور مدد ہی تو تھی۔
وطنی بحران آتش فشاں، معمولی نظر آنے والا لاوا خبر دے رہا ہے کہ پک چکا، پھٹنے کو ہے۔ کئی مہینوں سے یہی نشاندہی روگ بن چکی، ’’قومی سانحہ، ٹھہر چکا‘‘، ’’وطن کی فکر کر ناداں‘‘، ’’شوٹنگ اے فلائنگ پرائم منسٹر‘‘، ’’نواز شریف کا بدترین وقت، بہترین وقت‘‘، ’’پاک سرزمین کا نظام، قوت اخوت عوام‘‘،نجانے کتنے کالم لکھے، قومی پاگل پن کا دور کم ہونے کو نہیں۔ متحارب سیاسی گروہوں کی دائمی تقسیم میں قوم تتر بتر ہو چکی ہے،ایک دوسرے کے جانی دشمن غلطی کہاں؟ پچھلے ہفتے لکھے کالم کا لب لباب کہ‘‘ عسکری ادارے نظام کے درپے نہیں، مودبانہ گزارش، اپریل2014سے آج تک کے حالات و واقعات جناب کی بات کی نفی کرتے ہیں۔ تمام تر زمینی حقائق، JITکی تشکیل تا تفتیش دوران وقوع پذیر واقعات، NA120لاہور کا ضمنی الیکشن کوئی ایک چیز بھی نہیں جو شکوک و شبہات کی تشفی کرا پائے کہ نادیدہ قوتیں پسِ پردہ روبہ عمل نہیں رہیں۔ توجہ ہی دلا سکتا ہوں کہ جس طرح امریکہ، بھارت وطن عزیز کو گھیر چکے ہیں، حالات تقاضا کہ باہمی ٹکرائو سے بچا جائے، گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے، یکسو ہو جائیں، وگرنہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘۔ بروز سوموار میاں نواز شریف کی احتساب عدالت پیشی پر رینجرز کی کارروائی ہفتوں پہلے لکھی گئی تحریروں کی توثیق کر گئی۔ چیف کمشنر نے واقعہ پر آج اپنی تفصیلی رپورٹ وزارتِ داخلہ کو جمع کروا دی۔ رپورٹ تکلیف بڑھا گئی۔ ضلعی انتظامیہ اور عدالت دونوں نے رینجرزکی موجودگی سے لاتعلقی ظاہر کی۔
2014 کے دھرنے سے لیکرموجودہ فیصلوں تک یا رینجرز کا پرسوں عدالتی کنٹرول سنبھالنا توثیق کر گیا کہ جمہوری ریاست کے اندر ایک غیر مرئی ریاست اپنے وجود کا احساس دلارہی ہے۔ رینجرز کا واقعہ موجود ملفوف ٹکرائو کو سرعام، سر بازار لے آیا۔ ڈر اتنا کہ ٹکرائو نے مزید بڑھنا ہے،آتش فشاں پہاڑ پھٹنے کو تیار۔ آج کے دن داخلی سلامتی معاملات پر اسپیشل کور کمانڈر کانفرنس ہونی ہے،دعا کہ عسکری قیادت ٹھنڈے دل سے اندوہناک بگڑی صورت حال سنوارنے کی سعی کریں۔ اداروں سے گزارش متحارب سیاسی گروہوں کے کسی حصے کو اطاعت شعار اور فرماں بردار بنا بھی لیں گے تو سیاسی بالا دستی کا حصول سعی لاحاصل،ق لیگ اور کنونشن لیگ مقام عبرت ہی تو ہیں۔ فقط تباہی بڑھانے کا نسخہ۔ لمحہ فکریہ کہ بڑی سیاسی جماعت کے اندر یہ عقیدہ راسخ ہوچکا ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے منصوبہ ساز اور پشت پناہ ادارے ہیں۔مسلم لیگ ن کا مخالف سیاسی جماعتوں کی بجائے اداروں سے ٹکرانے کا اعلان، ریاست کی بربادی کا اعلامیہ ہی جانیں۔
بیوائوں اور طلاق یافتگان کی ڈھلتی عمر کی اپنی فریسٹریشن، شیخ رشید، عمران خان اور طاہر القادری جیسوں کی فریسٹریشن کا موج میلہ اور آس امید وطنی بربادی سے منسلک ہو چکی۔ ایسو ں کا روزگار حکومت اور اداروں میں ٹکرائو سے وابستہ ہے۔ ساری قوم کا اداروں پرمتفقہ اعتماد آج کی اشد ضرورت، ایسے میں بڑی سیاسی جماعت کا اداروں سے مایوس یا بد اعتماد رہنا،ریاست کو گھائل کرچکا ہے۔ نواز شریف صاحب کی جی ٹی روڈ پر پذیرائی، انتہائی نامساعد حالات میں NA120کا الیکشن جیتنا اس دوران ٹکرائو کا بیانیہ، وطنِ عزیز کے لئے بھیانک خواب سے کم نہیں۔ کیا ادارے اپنے ڈرائنگ بورڈ پر دوبارہ جانا پسند فرمائیں گے؟ وطن عزیز کی سالمیت کے عوض بڑے دل و دماغ سے معاملہ فہمی کی تصویر کشی کرنی ہوگی۔ نواز شریف کو بمع خاندان ڈنڈے اور بوٹ سے باہر نکالنے کا ازالہ کرنا ہوگا۔
وطن عزیز کی سالمیت کو درپیش خطرات کا ادراک ہمارے سیکورٹی اداروں سے زیادہ کسی کو نہیں۔ چند مہینوں میں عالمی افق پر درجنوں واقعات رونما ہو چکے، کالم کی تنگ دامنی درج کرنے سے قاصر، اگرایسے بھیانک حالات میں اداروں کی ترجیح شریف خاندان کا قلعہ قمع رہی تو انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مملکت خداداد کا تیا پانچا کرنے کی سازش دیدہ دانستہ ہے یا جہالت، وقت بتائیں گا۔ عمران خان کے ایمپائروں کو یقین دلاتا ہوں کہ انگلی اٹھنے سے پہلے ہی کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا، جب تک ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ ہوچکا ہوگا۔ پچھلے تین سال میں جتنے فارمولے آزمائے گئے، دھرنا ون، لاک ڈائون، عدالتی کارروائی، JIT تفتیش، سب میں ایک چیز مشترک شریف خاندان کی WITCH HUNTING کا تاثر مستحکم رہا۔ کل رینجرز کا دن دیہاڑے، عدالت کو اپنے کنٹرول میں لینا، 5سالوں کے واقعات کا ایک تسلسل ہی۔ تنگ آمد ضرور، نواز شریف اینڈ کمپنی نے طبل جنگ بجانے میں عجلت دکھائی۔ نواز شریف نے جو کام فہم و فراست سے کرنا تھا، طاقت سے اور ٹکرائو سے کرنے کا ازن دیا ہے۔ میاں صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہزاروں سال پہلے کا انسان،’’گن پائوڈر تو دور کی بات جب تیر و تفنگ اور سلیقہ کی تلوار سے بھی محروم تھا۔ طاقتور جانوروں کا شکار کیا، قابو کیا، سدھایا، استعمال کیا۔ پورس ہزاروں سدھائے ہاتھیوں کا لشکر سکندر اعظم کے مقابلے میں لایا،جبکہ شیر کا شکار ہمیشہ سے حضرت انسان کا مرغوب مشغلہ رہا۔میاں صاحب یہ سب کچھ ذہنی استعداد سے ممکن رہا۔ انسانی دماغ اللہ کا تحفہ عظیم ہے۔ آپ کو اس جنگ میں طاقت کی بجائے دماغ کا استعمال معمول تھا۔ سب حصول دماغ کے استعمال سے ممکن رہا۔انسانی دماغ اللہ کا تحفہ عظیم ہے۔ اللہ کرے آپ اس جنگ میں طاقت کی بجائے دماغ کے استعمال کو ترجیح دیں۔ یہی مشورہ آج میاں شہباز شریف صاحب نے دیا اور یہی کچھ پچھلے دنوں چوہدری نثار صاحب فرماگئے۔ہزاروں خواہشیں ایسی، کنونشن سنٹر میں قائدین کے بیانات اور اعلانات خصوصاً پچھلے دنوں ریاست کے سیکورٹی پیراڈائم پر لیگی رہنمائوں کا قومی پالیسیوں کو بین الاقوامی اور قومی میڈیا پر طشت ازبام کرنا، ہزاروں خواہشوں ہی نے تو دم توڑا ہے۔ایسے لگتا ہے نواز شریف ذہنی طور پر اپنی تباہی قبول کرچکے یا’’خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘کی پالیسی اپنا چکے۔ دونوں رویے شکست خوردگی کی علامت اور پاکستان کی تباہی ہے۔ کیا دونوں فریق خاطر جمع رکھ کر ریاست کو ہونے والے ناقابل تلافی نقصان سے بچاپائیںگے۔ 27رمضان المبارک جمعہ کو وجود میں آنے والی ریاست، آقائے نامدارﷺ کے حکم پر نظریاتی مملکت کے لئے عظیم قائد کی جدوجہد۔بھلا کیسے اور کیوں رائیگاں جائے گی۔ اللہ کے نام پر نظریاتی مملکت کو مفاداتی ٹکرائو اور ذاتی غصہ و انتقام سے بالاتر رکھنا ہوگا مملکت کو کچھ نہ ہوگا، مقتدر طبقہ عذاب الٰہی کا ضرور ایندھن بنے گا۔ یحییٰ خان، مجیب الرحمن، بھٹو اور اندرا گاندھی کا انجام، یہی پیغام عام۔خدا کے واسطے دونوں فریق غصہ تھوکے،’’ ہونی کو نہ ہونے دیں‘‘۔

تازہ ترین