• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈونیشیا کا ایک گائوں ’’توراجا‘‘ جس کے ’’مماسا‘‘ نامی قبیلے کے ہاں ہر سال دلچسپ تہوار منایا جاتا ہے، یہاں کے لوگ ستمبر کے ابتدائی ہفتے میں اپنے ’’مردوں‘‘ کو قبرستان سے نکال کر دوبارہ گھروں میں لاتے ہیں چونکہ یہ لوگ مقامی رسم و رواج کے مطابق لاشوں کو ’’حنود‘‘ کر کے دفن کرتے ہیں اِسی لئے یہ ’’ممیاں‘‘ طویل عرصے تک خراب نہیں ہوتیں۔ تہوار کے دوران گھر لائے مردوں کو غسل دے کرانہیں نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور اُن کے جسموں کو نئے سرے سے ’’مسالا‘‘ لگا کر دفن کیا جاتا ہے۔ ہر سال مردوں کو قبروں سے نکالنے کی اِس رسم کو مقامی زبان میں ’’مائی نین‘‘ کہا جاتا ہے۔ مماسا قبیلے کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے یہ لوگ اپنے مردوں کی تدفین اپنے مذہب کے مطابق کرتے ہیں اور اِن کا عقیدہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتا ہے، لہٰذا مردوں کو قبروںسے نکال کر اُس مقام کی سیر کرائی جاتی ہے جہاں اُن کی موت واقع ہوتی ہے۔ قبیلے والے سمجھتے ہیںکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مرنے والے کی رُوح شدید تکلیف میںرہے گی یہی وجہ ہے کہ ’’توراجا‘‘ کے لوگ دُور دراز کا سفر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ اگر دُور دراز علاقے میں موت واقع ہو جائے تو ہر سال قبرستان سے نکالی گئی ’’ممیوں‘‘ کو اُس مقام تک لے جانے میں دشواری ہوتی ہے، یہ لوگ زیادہ تر اپنے علاقے میں رہتے ہیں اور بڑھاپے میں سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ’’مائی نین‘‘ کی رسم اِس علاقے میں زمانہ قدیم سے جاری ہے،مائی نین تہوار کا آغاز مقامی رُوحانی پیشواؤں کے اعلان پر منحصر ہوتا ہے جسے سنتے ہی قبیلے والے اپنے مردوں کو قبروں سے نکالنے کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ قبروں کو اکھاڑنے کے وحشت ناک مناظر بچے بھی دیکھتے ہیں کیونکہ بچوں کو قبروں کے سرہانے بٹھایا جاتا ہے، قبروں سے نکالنے کے بعد سب سے پہلے عزیز و اقارب اپنے مردوں کو نیا سال مبارک کہتے ہیں۔ مردے کو دفن کرتے وقت مقامی درخت کے کچھ پتے بھی ساتھ دفن کئے جاتے ہیں جبکہ تابوت بھی مخصوص لکڑی سے بنایا جاتا ہے۔ ہر سال میت کو نئے تابوت میں دفن کیا جاتا ہے، مردوں کو مقامی پہاڑ کے متبرک غار میں موجود قبرستان میں دفنایا جاتا ہے، مائی نین تہوار کو مردوں کی عید بھی کہا جاتا ہے۔ تہوار والے دِن قبروں سے نکالی گئی ممیوں کو سجایا سنوارا جاتا ہے، نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور کچھ لوگ اِن ممیوں کو سنوارنے کے لئے بیوٹی پارلر سے بھی رجوع کرتے ہیں، میت کو دوبارہ دفن کرتے وقت ’’حنود‘‘ کے لئے استعمال کیا گیا مسالا ہٹا کر نیا مسالا لگایا جاتا ہے، چھوٹے بچوں کی تدفین کے وقت اُن کی قبروں میں نئے کھلونے رکھے جاتے ہیں، قبروں سے نکالے گئے مردوں کے ساتھ اُن کے عزیز و اقارب کھڑے ہو کر تصاویر بنواتے ہیں، مائی نین رسم کی دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ اہل خانہ قبروں سے نکالی گئی ممیوں کو چہل قدمی کرتے دیکھنے کے لئے بھاری معاوضے دے کر بازی گروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں، توراجا دُنیا کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں ہر سال لوگ کئی برس پرانی لاشوں کو اپنے پاؤں پر چلتا دیکھتے ہیں، نیو یارک کی ایک ویب سائٹ پر ایسی ویڈیو لگائی گئی ہے جس میں 80سال پہلے وفات پا جانے والے ’’پی ٹر‘‘ نامی شخص کو چہل قدمی کرتے دیکھا جا سکتا ہے، رپورٹ کے مطابق ’’توراجا‘‘ ایک پہاڑی علاقہ ہے جہاں’’مماسا‘‘ نامی قبیلے کی اِس رسم کے بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں تھا لیکن اب بہت سے ممالک کے سیاح ’’مائی نین‘‘ کی تقریبات دیکھنے اِس قبیلے کا رُخ کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہی رسم ’’مائی نین‘‘ کی بجائے ’’قومی انتخابات‘‘ کے نام سے مشہور ہے، یہ رسم ہر سال نہیں بلکہ پانچ، چار، تین اور کبھی کبھی ڈھائی سال بعد منعقد کی جاتی ہے۔ پاکستانی عوام 70سال سے دفن کئے گئے اپنے ’’مُردوں‘‘ کو مختلف طریقوں سے سیاسی قبروں سے باہر نکالتے ہیں، انہیں جھاڑ پونچھ کر کے بالکل نیا اور گناہوں سے پاک بنایا جاتا ہے، انتخابات کے لئے شاندار انداز میں سج دھج کی جاتی ہے، نوک پلک سنوارنے کے لئے بیوٹی پارلر سے رجوع بھی کیا جاتا ہے، رسم شروع کرنے سے پہلے اپنے بچوں کو ’’مُردوں‘‘ کے سرہانے بٹھا کر سمجھایا جاتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم ووٹ دیں گے کیونکہ ہم انہیں نسل در نسل ووٹ دے رہے ہیں، یہ تھانوں اور عدالتوں سے ہمیں قصوروار ہونے کے باوجود رہائی دِلاتے ہیں اور تھوڑے سے پیسوں کے عوض نوکریاں بھی بانٹ دیتے ہیں۔ دُنیا حیران ہے کہ پاکستانی سیاسی ’’ممیوں‘‘ کو نا جانے کون سا مسالا لگا کر دفن کیا جاتا ہے کہ وہ کئی سال بعد بھی محفوظ رہتی ہیں۔ پاکستانی قوم انتخابات کے وقت خود دفن کئے ہوئے مُردوں کو نکال کر اُن کے ساتھ تصاویر بنوانا بھی ثواب کا کام سمجھتی ہے۔ سیاسی دفن شدہ ممیاں بے جان ہونے کی وجہ سے چل نہیں سکتیں لیکن اُن کو چہل قدمی اور بولتے ہوئے دکھانے کے لئے مختلف شہروں سے بازیگروں کو بلایا جاتا ہے جو اپنے کھوکھلے نعروں، جھوٹے وعدوں اور مصنوعی کارروائیوں سے ’’مُردوں‘‘ کو چلتا ہوا دکھانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ مماسا قبیلے اور پاکستانی قوم میں فرق ہے تو بس اتنا کہ مماسا قبیلے کے لوگ دُور دراز کا سفر نہیں کرتے کہ اگر وہاں موت ہو گئی تو مُردے کو ہر سال اُس مقام کی سیر کے لئے لانا بہت دشوار ہوگا، جبکہ پاکستان میں جج، عدالت، سمن، وارنٹ اور نیب نامی فرشتے جب جان نکالنے کے لئے گھیرا تنگ کرتے ہیں تو مرنے والا فوراً دُور دراز کے سفر کو ترجیح دیتا ہے اِس لئے نہیں کہ وہ وہاں جا کر وفات پائے بلکہ اِس لئے کہ اُسے دُوردراز اچھی، بلاخوف اور محفوظ زندگی ملے۔ انتخابی تہوار کے وقت پاکستانی قوم اُن ممیوں کے ساتھ دھمال اور لڈیاں ڈالتی ہے جن کو وہ اپنے ہاتھوں سے دفن کر چکی ہوتی ہے، شاید اِس قوم کو وہم ہے کہ سیاسی ممیاں مرنے کے بعد بھی ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں اور ہماری آنے والی نسلوں کی حفاظت اُن کی ذمہ داری ہے، ایسا نہیں ہے اور نہ ایسا ہو سکتا ہے، اب ہماری قوم کو جاگ کر تازہ اور زندہ لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی رسم کا آغاز کرنا ہوگا۔کیونکہ بقول علامہ محمد اقبال؎ ؒ
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کوخیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

تازہ ترین