• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ماہ ورلڈ الیون کے خلاف سیریز جیتنے پر پوری قوم نے جشن منایا۔ سیریز میں پاکستانی کھلاڑیوں نے نہ صرف اپنے ٹیلنٹ کا لوہا منوالیا بلکہ یہ بھی ثابت کردیاکہ ملک کے حالات ا ب بڑے بین الاقوامی مقابلوں کے لئے سازگار ہیں۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر اور معروف کرکٹ تجزیہ کار سکندر بخت یعنی سکو بھائی اپنی مصروفیت سے چند لمحے دے ہی دیا کرتے ہیں۔ ایک دن جیو کے نیوز روم میں غیر رسمی گفتگو میں مصروف تھے کہ میں نے مخل ہوکر اِس خدشے کا اظہار کیا کہ کپتان سرفراز احمد کی توجہ شاید اِن دنوں کرکٹ پر نہیں ہے، اُن سے کہا کہ ایک شخصیت کے ساتھ اِن کی تصویر منظر عام پر آتے ہی مجھے ملک میں کرکٹ کا مستقبل کچھ مدّھم پڑتا نظر آرہا ہے۔
سری لنکا کے خلاف پہلا ٹیسٹ انجام پذیر ہوا تو سمجھ میں آیا کہ چوتھے اور پانچویں دن کے کھیل کو معمول کاکھیل سمجھنے والے ہر کپتان کے حصے میں عموماً مایوسی یا ناپسندیدہ نتائج ہی آ تے ہیں۔ میدان میں کپتان کی ہر دانستہ یا غیر دانستہ جنبش کو رہنمائی گردانا جا سکتا ہے اور اِس کی ہر غلطی کھلاڑیوں اور نتائج پر اپنا اثر دکھاسکتی ہے۔ اِسی لئے اگر کپتان خود کچھ کرکے نہ دکھا ئے تو عموماً ٹیم بھی میدان چھوڑنے لگتی ہے۔ بہادر کپتان نازک مواقع پر ساتھیوں کو آزمانے کے بجائے خود آخری دم تک لڑتا ہے اور اس کا یہ جذبہ ہر شائق کو واضح طور پرنظر آجا تاہے۔
سری لنکا کے خلاف سر فراز احمد جب 136رنز کے تعاقب میں صرف 19کے ذاتی اسکور پر اِسٹمپ ہوئے تو مجھے پاکستان کا ایک سابق کپتان یاد آگیا جو کوئی 32برس پہلے، یعنی 1985میں، ورلڈ چیمپئن شپ آف کرکٹ کے فائنل میں بھارت کے خلاف وکٹ کیپر سدآنند وشواناتھ کے ہاتھوں اِسٹمپ ہوگیا تھا۔ اس سابق کپتان کا نام جاوید میانداد تھا لہٰذا یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ ایک گھمسان کی لڑائی لڑنے کے بعدپویلین لوٹا تھا۔ لکشمن سیوا راما کرشن کی اُس لیگ بریک کو آسانی سے کھیلنا شاید کسی بھی بیٹسمین کے لئے ممکن نہ تھا۔
ایک اور فرق یہ تھا کہ سابق کپتان نے غلط شاٹ کھیلنے سے اِس حد تک پرہیز کیا کہ اِس کی پوری اننگز میں صرف دو چوکے شامل تھے اِس کے باجود اس نے قیمتی 48رنز بنا کر ٹیم کو بھرپور سپورٹ دی۔ وہ آئوٹ ہوا تو اِس کا جسم اور لباس پسینے سے شرابور تھے۔ اِس کے برخلاف حالیہ ٹیسٹ میں سر فراز احمد انتہائی نازک حالات کی مکمل آگہی کے ساتھ ساتویں نمبر پر بیٹنگ کرنے آتے ہیں اور اپنے سفید اُجلے کپڑوں ہی میں لوٹ جاتے ہیں۔ حالانکہ دیکھا گیا ہے کہ کپتان کی ہمت اور اچھی کارکردگی ٹیم کی مجموعی پرفارمنس پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔
سرفراز احمد کو جب ورلڈ کپ 2015 کے دوران میڈیا کے بھرپور دبائو پر جنوبی افریقہ کے خلاف پہلا میچ کھلایا گیا تو انہوں نے انتہائی اعتماد کے ساتھ 49رنز اور اگلے میچ میں (آئر لینڈکے خلاف) شاندار سنچری اسکور کر ڈالی۔ ماضی کے مایہ ناز بیٹسمین محمد یوسف کہتے ہیں، ’’سرفراز جم کر کھیل رہا ہو تو اس جیسا خطرنا ک بیٹسمین کوئی نہیں۔‘‘ سرفراز بلاشبہ دنیا کے بہترین وکٹ کیپرز میں سے ایک ہیں۔ کھیل کی تکنیک پر عبور اور قائدانہ صلاحتیوں کے سبب انہیں کپتان بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اگرچہ اچھی کپتانی کا مظاہرہ کرکے یہ چیمپئینز ٹرافی توگھر لے آئے لیکن اَب بلے بازی اور وکٹ کیپنگ کے شعبوں میں بھی اِن کی کارکردگی میں تسلسل ضروری ہوتا جارہا ہے۔
چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد سے سرفراز ایک بااثر کپتان سمجھے جاتے ہیں۔ بطور کپتان ان کا موازنہ شاہد آفریدی، یونس خان اور مصباح الحق کے بجائے وسیم اکرم سے کیا جانا چاہئے کیوں کہ کھلاڑی بلاشبہ اِن کے پیچھے چلتے ہیں اور بورڈ کو اِن کی تجاویز پر توجہ دینی پڑتی ہے۔ حالیہ ٹیسٹ میں بھی سرفراز کی حکمت عملی غلط نہیں تھی لیکن اِن خاص دنوں میں اِن کی ذاتی کارکردگی پر ایک نظرڈالنا ان کی اپنی اصلاح کے لئے اچھاہے۔
ٹیسٹ میچز میں گزشتہ کوئی تین برسوں میں اِن کی کوئی سنچری نہیں ۔البتہ گزشتہ 24میچوں میں وہ 9نصف سنچریاں بناچکے ہیں۔ اِس عرصے میں انہوں نے ایک روزہ بین الاقوامی میچوںمیں ایک سنچری اور چار نصف سنچریاں اسکور کی ہیں جبکہ ٹی ٹوئنٹی میں اُن کے کریڈٹ میں ایک نصف سنچری ہے۔
میدان میں اگرچہ سرفراز کے فیصلے دانشمندانہ ہوتے ہیں لیکن اس عرصے میں ٹیم ان کی بیٹنگ کی مہارت سے کوئی خاص استفادہ نہیں کرسکی ہے۔ شاید یہاں ماضی کے اُن چندکپتانوں کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے ٹیسٹ میچوں میں اپنی کارکردگی سے یقینی ہار کو اپنی جیت یا ڈرا میں بدل دیا۔ جیسے سال 2009میں جنوبی افریقہ کے گرائم اسمتھ آسٹریلیا کے خلاف ٹوٹے ہاتھ کے ساتھ بیٹنگ کرنے آئے اور بہت دیر تلک اپنی ٹیم او ر شکست کے درمیان حائل رہے۔ پھر 2008میں ایج بیسٹن کے مقام پر جب صرف 193رنز پر جنوبی افریقہ اپنے چار کھلاڑی کھو چکا تھا تو اسی کھلاڑی نے بحیثیت کپتان اپنی وکٹ ضائع کئے بغیر 154رنز کی شاندار اننگز کھیل کر جنوبی افریقہ کو پانچ وکٹوں سے فتح دلوائی ۔ سال 1996میں زمبابوے نے پاکستان کے خلاف پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں اپنے 375رنز کے جواب میں صرف 183کے اسکور پر پاکستان کے چھ کھلاڑی پویلین بھیج دئے۔ لیکن وسیم اکرم نے آٹھویں نمبر پر شاندار 257رنز اسکور کرکے ٹیم کوشکست سے بچالیا۔ پھر دھونی جیسے لڑاکا کپتان سے کون واقف نہیں! آسٹریلیا کے خلاف 2013میں اس نے اوپنرز کی ناکامی کے بعد 224 رنزبناکر اپنی ٹیم کو آٹھ وکٹوں سے جتوا دیا۔ گریگ چیپل نے 1975میں بحیثیت آسٹریلوی کپتان اپنے پہلے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں علی الترتیب 123اور 109رنز بناکر ویسٹ انڈیزکو آٹھ وکٹوں سے شکست دے دی۔
مثالیں تو اور بھی ہیں لیکن یہاں برائن لارا کا ذکر نہ ہو تو بات ادھوری سمجھی جائے گی۔ آسٹریلیا کے خلاف 1993میں لارا چوتھی اننگز میں میدان میں اترا تو اس کی ٹیم کا ٹاپ آرڈر پویلین لوٹ چکا تھا۔ لارا جانتا تھا کہ وہ ایک بڑا بلے باز ہی نہیں بلکہ اب ایک کپتان بھی ہے۔ اس نے 153رنزبناکر ویسٹ انڈیز کو نا قابل یقین ایک وکٹ کی فتح سے ہمکنار کردیا۔دوسری جانب، ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ خاص طور پر ورلڈ کپ کے مقابلوںمیں بھی کپتانوں کے کارنامے اس کھیل کے ماتھے پر جھومر کی طرح چمکتے ہیں۔
ورلڈ کپ 1992کے فائنل میں جاوید میاںداد اور کپتان عمران خان کی 139رنز کی کایا پلٹ پارٹنر شپ،1975کے پہلے ورلڈ کپ میں کھڑے کھڑے اپنے وزنی بلے سے بولر ز کی دھنائی کرنے والے کلائیو لائیڈ کی فاتحانہ پرفارمنس اور ورلڈ کپ 1983 میں بھارتی کپتان کپیل دیو کے زمبابوے کے خلاف175رنز اور فائنل میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ویوین رچرڈز اور کلائیو لائیڈ کا اوپر تلے کیچ لینا آج دنیا کی ہر بڑی ٹیم کے کپتان کے لئے مکمل رہنمائی اور سبق کا ذریعہ ہیں۔ بہرحال گزشتہ پیر کویعنی مذکورہ ٹیسٹ کے اختتام پر جیو نیوز پر سکو بھائی کا تبصرہ پہلے سے تھوڑا مختلف تھا۔ خوشی ہوئی!

تازہ ترین