• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرعی شعبہ پاکستانی معیشت میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے لیکن بے شمار مسائل درپیش ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ زرعی پیداوار جمود کا شکار ہو کر رہ گئی ہے حالانکہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا بھر میں زرعی انقلاب برپا کیا ہے۔ اگرحالات جوں کے توں رہے تو خدشہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں ملک غذائی قلت کا شکار ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا اس سلسلہ میں کاشتکاروں کے نمائندہ وفد سے ملاقات کرنا اور فوڈ سیکورٹی کے معاملے کو سنجیدگی سے لینا ایک بروقت اقدام ہے۔ ملاقات میں زرعی شعبہ کو درپیش مسائل بشمول اخراجات، لاگت، پیداوار، مارکیٹ کی مسابقت اور دیگر چیلنجوں پر غور کیا گیا۔ زرعی پیداوار کی برآمدی استعداد میں اضافہ اور سی پیک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ مواقع زراعت کے شعبہ کی ترقی کے لئے بہت پرکشش ہیں۔ وزیراعظم نے زرعی حکام کی موجودگی میں کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے پر زور دیا جو اس شعبے میں حکومتی دلچسپی کا مظہر ہے۔ قومی زرعی تحقیقاتی کونسل اور دیگر متعلقہ مالیاتی اداروں زرعی یونیورسٹیوں سمیت ماہرین کو ٹاسک دیا جائے کہ کاشتکاروں کے مسائل کی روشنی میں زرعی پیداوار میں اضافے کا انقلابی پروگرام بنایا جائے۔ حکومت نے زمینداروں اور کاشتکاروں کو قرضوں اور آلات کی فراہمی کی صورت میں بہت سی سہولتیں دی ہیں جو خوش آئند ہیں اور آنے والے وقت میں ان کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے لیکن یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے کہ ایسی اسکیموں میں پائی جانے والی بہت سی پیچیدگیوں کی وجہ سے اکثر کاشتکار متوقع فوائد سے محروم رہتے ہیں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی کے مختلف ادوار میں بہت سے بااثر زمین دار بھاری قرضے لے کر معاف کروا چکے ہیں جس سے زرعی پروگرام کی کامیابی متاثر ہوئی۔ پالیسی ساز اداروں کو چاہئے کہ ترقی یافتہ ممالک کے تجربات کی روشنی میں زرعی شعبے کی ترقی و خوشحالی کے لئے مربوط اور ٹھوس پروگرام بنایا جائے جو رشوت، اقربا پروری اور سیاسی مداخلت سے پاک ہو۔

تازہ ترین