• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ انڈیا، پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک کی ترقی غربت کی وجہ سے غیر یقینی پن کا شکار رہتی ہے ۔بلندتر معاشی شرح نمو کے لیے ان ممالک کے کئی ایک شعبوں میں ترقی کے عمل کو پیہم جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غربت، ناخواندگی، عدم مساوات ، بے روزگاری ، پیدوار کی کم شرح اور غذا کی کمی پست معیار زندگی کا باعث بنتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان جیسے ممالک کا تعلق ہے تو ان کے لیے ضروری ہے کہ یہ معاشی ترقی اور علاقائی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات استوار کریں۔
تاہم پاکستان اور افغانستان اپنے معاشی روابط مضبوط کرنے کے قابل نہیں ہوسکے ، حالانکہ علاقے کی ترقی کے لیے بالعموم اور اُن کی ترقی کے لیے بالخصوص ایسا کرنا ازحد ضروری ہے ۔ ان کی طرف سے صنعتی اور سماجی شعبوں میں ترقی اور تعاون کو آگے بڑھانے اور اپنے سیاسی روابط میں بہتری لانے کی کوششیں نیم دلی سے کی گئی ہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیںلیکن ان معدنی وسائل سے استفادہ نہیں کیا جاسکا کیونکہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف ایسی جنگ میں الجھ چکے ہیںجس کی فنڈنگ کئی ایک غیر ملکی دشمن عناصر کررہے ہیں۔
دوسری طرف کشمیر تنازع بھارت کے ساتھ تنائو کی حقیقی وجہ ہے ۔ بھارتی فورسز کشمیر میں نسل کُشی کررہی ہیں لیکن وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کھلی پامالی پر پردہ ڈالنے کے لیے پاکستان پر الزام لگاتا ہے ۔ بھارت نے را اور افغان ایجنسی ، این ڈی ایس کی ساجھے داری سے پاکستان کے خلاف مشترکہ محاذ کھول رکھا ہے ۔ مشرقی سرحدوں پر جاری تنائو کے علاوہ پاکستان کو افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے مغربی سرحدوں کی طرف سے بھی مشکلات کا سامنا رہا ہے ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہاں اپنے بھرتی کردہ غیر ملکی جنگجوئوں کو داخل کیا ، اور یوں پاکستان افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے جنگجوئوں کا اڈہ بن گیا ۔اس جنگ کے پاکستان اور افغانستان پر پڑنے والے اثرات نے نہ صرف ان کے تعلقات کو متاثر کیا بلکہ ان کے درمیان معاشی ، سیاسی اور امن کے امکانات کو بھی شدید زک پہنچائی ۔ ان د ونوںہمسایہ اسلامی ممالک کے درمیان پائے جانے والے شکوک و شبہات کا دشمن ممالک، بشمول انڈیا ، فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افغانستان میں بھارت کے داخل ہونے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام ِ امن کے عمل کو مزید نقصان پہنچا ہے کیونکہ بھارت یہاں اپنے مذموم مقاصد رکھتا ہے ۔
خطے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تنائو نے عالمی کھلاڑیوں، بشمول خطے کے اہم ممالک ، کو اپنی طرف متوجہ کیا ، جس کی وجہ سے انسانی المیے کی سنگینی میں اضافہ ہوا اور انفرااسٹر کچر اور سماجی روابط کی تباہی دیکھنے میں آئی ۔ افغانستان اور پاکستان میں انسانی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ جاری ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں نسل کُشی اور انسانی حقوق کی پامالی پر سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے افغانستان میںداخل ہونے والا انڈیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام ِامن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے مذموم مقاصد رکھتا ہے ۔ افغانستان کے معاملات میں بھارت کی بڑھتی ہوئی مداخلت کا مقصد ہی ان دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان ناچاقی کو ابھارنا اور دشمنی پیداکرنا ہے ۔ دوسری طرف ایران نے بھی افغانستان میں امریکی فورسز کو نقصان پہنچانے کے لیے افغان طالبان کو ہتھیار فراہم کرنا شروع کردیئے ہیں۔ اس پالیسی کے نتیجے میںافغانستان، اور پھر پاکستان مزید عدم استحکام سے دوچار ہوگا ۔ ہمیں افغانستان میں ایران کے کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہاں ایران کا ایک حامی لیڈر، گلبدین حکمت یار اور ایران کی طرف جھکائو رکھنے والے کچھ طالبان موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ان مسائل سے نمٹنے کی بجائے دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے میں مصروف ہیں۔ طالبان اور دیگر انتہا پسند وں کے لیے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تنائو ساز گار ہے ۔ 2005 ء میں سارک میں افغانستان کی شمولیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھارت کی ایک جچی تلی چال تھی جس کا مقصد اس تنظیم میں پاکستان کی پوزیشن کو نقصان پہنچا نا تھا ۔ افغانستان اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھار ت افغانستان کو بھڑکا کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ پاکستان، انڈیا اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو بیرونی طاقتوں کے منفی کردار نے مزید برہم کردیا ہے ۔ علاقائی ریاستوں، خاص طور پر پاکستان اور افغانستان، کے داخلی مسائل میں امریکہ کی مسلسل مداخلت نے ان کے باہمی تعلقات کو خراب کیا ہے ۔ افغان جنگ کے بعد خطے میں طالبان کی موجودگی نے نہ صرف افغانستان کی داخلی سکیورٹی اور استحکام کو نقصان پہنچایا بلکہ پاکستانی معاشرے کو بھی مذہبی اور مسلکی خطوط پر تقسیم کردیا ،جس نے اس کی خودمختاری کو خطرے میں ڈال دیا ۔ طالبان کو منشیات کے اسمگلروں سے بلاروک ٹوک فنڈز مل رہے ہیں۔ افغان حکومت اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہی ۔ دنیاکی چالیس فیصد منشیات افغانستان میں پید اہوتی اور دنیا بھر میں سپلائی کی جاتی ہیں۔پاکستان بھی اس سے متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے ۔ اس میں نشے کے عادی افراد کی تعداد کم وبیش دوملین ہے ، جن میں ہر عمر کے افراد شامل ہیں۔منشیات اور دہشت گردی کے درمیان تعلق نے افغانستان اور پاکستان، دونوں کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ سارک میں شامل ممالک نے دیگر معاملات کے علاوہ اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ دہشت گردی اور منشیات کی تجارت کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کریں گے ، لیکن بدقسمتی سے سارک صرف اجلاس اور قراردادوں تک ہی محدود رہی ہے ۔ اس کے پلیٹ فارم سے کوئی عملی اقدام ہوتے نہیں دیکھا گیا ۔ اپنی تخلیق کے وقت سے لے کر اب تک یہ عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب نہیں ہوئی ، اور نہ ہی یہ دنیا کی دیگر تنظیموں کی طرح خطے کی ترقی اور امن کے فروغ کے لیے کوئی پلیٹ فارم مہیا کرسکی ۔ خطے ، خاص طور پر پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے درمیان امن کا تعلق ان تینوں ممالک کے تنازعات کے حل سے ہے ۔ ان کے تعلقات پر حل طلب سرحدی تنازعات ، افغان طالبان اور ان کے معاونین کی دہشت گردی، پناہ گزینوں کا بحران، اسمگلنگ اور منشیات کی نقل و حمل وغیرہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ سرحد کے دونوں طرف موجود مافیاز کے مفادات بھی ان مسائل سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ ان مسائل کے باہم ادغام نے ان کے حجم اور حرکت میں اضافہ کردیا، یہاں تک کہ اس نے دہشت گردی کے عفریت کی شکل اختیار کرلی ۔ اس کے بعد وسیع تر کشمکش اور سیاسی جغرافیائی مفادات بھی ان پر اثر انداز ہوتے گئے ۔ مندرجہ بالا صورت ِحال سے مزید پیچیدہ مسائل نمودار ہوئے ، لیکن آخر کار ہم نے آگے بڑھنے کا ایک راستہ تلاش کرلیا، خاص طور پر جب امریکہ اپنی تمام تر فوجی طاقت اور اربوں ڈالر صرف کرنے کے باوجود افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام ہوگیا ۔ اقوام ِ متحدہ نے اس پر کوئی فعالیت نہیں دکھائی ، اور کسی حل تک پہنچنے میں ناکام ہوگئی ۔ او آئی سی محض ایک کاغذی تنظیم بن چکی ہے ۔ اس نے اب تک مسلم امت کو متحد کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔ چنانچہ یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ یہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی کردار ادا کرے گی۔ اسی طرح بھارت کے زیر ِاثر سارک بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہم آہنگی اور امن قائم نہیں کرے گا۔دنیا کے معاملات اور امن پر نگاہ رکھنے والی عالمی تنظیمیں بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیڈلاک ختم کرانے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ تو پھر ان دونوں ممالک کو ایک میز پر لانے کے لیے کیا آپشن اختیار کیا جائے ؟ میں اپنے ذاتی تجربے ، انٹیلی جنس اور دستیاب معلومات تک رسائی کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری تنائو اور ان کی داخلی کشمکش نے ایک ایسی پیچیدہ صورت ِحال کو جنم دیا ہے جو ان کے تعلقات کو مزید بگاڑ رہی ہے۔ اس خراب ہوتی ہوئی صورت میں مجھے صرف حرمین شریفین کی مقدس سرزمین کی طرف سے ہی امید کی ایک کرن دکھائی دے رہی ہے ۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ سعودی عرب ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور وہ ایک بڑے بھائی کا کردارادا کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے تنازعات کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہے ۔ چنانچہ ضروری ہے کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ثالث کا کردارادا کرے ، اور پھر اﷲ رب العزت کا بھی یہی حکم ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے…’’ اگر مسلمانوں کے دوفریق آپس میں لڑپڑیں تو ان کے درمیان صلح کرادیا کرو۔‘‘

تازہ ترین