• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نون لیگ کا سربراہ منتخب ہونے کے یاد گار موقع پر نوازشریف اور شہبازشریف کی جو تصویر میڈیا میں وائرل ہوئی وہ بھارتی فلم ’’بھائی بھائی ‘‘ کا پوسٹردکھائی دیتی ہے۔مذکورہ فلم میں بنگال سے تعلق رکھنے والے بنگالی ا ورحقیقی بھائیوں اشوک کمار نے بڑے بھائی اور کشورکمار نے چھوٹے بھائی کا کردار خوب نبھایاتھا۔ سیاست ،ثقافت ،صحافت اورتجارت سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھائیوں کی جوڑیاں چھائی رہی ہیں۔ سیاست کے لالی وڈ میں نوازاورشہباز کی جوڑی بھی پچھلے 32سال سے چھائی ہوئی ہے لیکن اقامے اور بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنے کے الزام میں بڑے میاں صاحب نااہل کردئیے گئے جس سے ان کی’’ باکس آفس پوزیشن‘‘( سیاسی مقبولیت) متاثر تو نہیں ہوئی تاہم انہیں اقتدار کی سلور اسکرین سے غائب کردیا گیا ہے۔ وجہ یہ سمجھی جارہی ہے کہ میاں صاحب ہمیشہ باری لیتے ہوئے ’’کیری پیکروں ‘‘کی پسند ناپسند کا خیال نہیں رکھتے اور باہر جاتی ہوئی گیندیں بھی کھیلنے لگتے ہیں۔اس ضمن میں چھوٹے میاں اقتدار کے ’’رائل پارک ‘‘( پاکستان فلم انڈسٹری کے تجارتی گڑھ) کی ضرورتوں اور تقاضوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اسلئے گیم میں پوری طرح ’’ان ‘‘ ہیں۔چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہٰی جنہیں چوہدری برادران بھی کہاجاتاہے سیاست میں میاں برادران سے پہلے متعارف ہوئے لیکن سیاست کے شوبز میں بہت آگے نکل گئے ۔حالانکہ دونوں جوڑیوں نے اپنیپہلی فلم ایک ہی ’’پروڈکشن ہائوس‘‘ کی سائن کی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اقتدار کے شوبزنس میں چھائے ہوئے پچانوے فیصد فنکار اسی ’’اکیڈمی ‘‘ سے فارغ التحصیل ہیں لیکن سبھی کو جمہوری کلاکار کہلانے کا شوق ہے۔
برصغیر کی تاریخ پرنگاہ ڈالیں تو بھائیوں کی معروف جوڑیوں میں سب سے پہلے علی برادران یاد آتے ہیں۔ تحریک پاکستان کے دو کردار مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی ۔مولانا جوہرکا ایک ہی شعر زمانوں پر بھاری ہے
قتل حسینؓ اصل میں مرگِ یزید تھا
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلاکے بعد
فن پہلوانی میں رستم زمان گاما اور رستم ہند امام بخش پہلوان کی جوڑی رستم اور سہراب سے کم نہ تھی۔پہلوانان گرامی میاں نوازشریف کے سسرالی بزرگوں میں سے تھے۔گامااور امام بخش پہلوان کے خاندان نے اس فن کو جو سپوت عطا کئے وہ بھولو برادران سے معروف ہوئے۔ یہ پہلوان گھرانہ بھابی کلثوم نواز کا رشتہ دار ہے ۔کلاسیکی موسیقی میں شام چوراسی اورپٹیالہ گھرانوں کے استاد نزاکت سلامت اورامانت علی فتح علی کی جوڑیوں نے برصغیر کی فضائوں کو سریلاکئے رکھا۔قوالی کی دنیاکو مبارک علی فتح علی اور بعدازاں استاد نصرت اور فرخ فتح نے مہکائے رکھا۔پاکستانی کرکٹ میں لٹل ماسٹر حنیف محمد اور مشتاق محمدجبکہ آسٹریلیاسے گریک چیپل آئن چیپل اور اسٹیوا اینڈ مارک وا کی جوڑیوں نے بھی راج کیا ہے۔ ہمارے ہاں سنتوش کمار اور درپن ،ظریف اور منور ظریف کے علاوہ بھٹی برادران کا طوطی بولتارہاہے۔ سیاست میں میاں برادران کی طرح شوبزنس میں بھٹی برادران کی حیثیت ایک قیمتی برینڈ کی تھی۔ عنایت حسین بھٹی اور کیفی کی جوڑی پرمشتمل فلمی ادارے کا نام ’’بھٹی پکچر‘‘ تھا۔ اس ادارے کے زیر اہتمام 15ستمبر 1972کو ریلیز ہونےوالی پنجابی بلیک اینڈ وائٹ فلم ’’ظلم دا بدلہ ‘‘( ظلم کا بدلہ ) پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم ثابت ہوئی۔فلم کی اسٹارکاسٹ میں عالیہ ،غزالہ ،اسد بخاری ، شہنشاہ ظرافت منورظریف ،جگی ملک اور کیفی خود شامل تھے جبکہ عنایت حسین بھٹی مہمان اداکار کے طور پر جلوہ گر ہوئے تھے۔ڈائمنڈ جوبلی منانے پر ریڈیو لاہور نے کیفی سے انٹرویو کیاجو یاد گار تھا۔میزبان نے سوال کیاکہ ’’ظلم دا بدلہ ‘‘ کی کامیابی کا کریڈٹ کسے دیں گے؟
کیفی نے جو اب دیا یہ سب میرے مولیٰ کاکرم اور بھائی جان(عنایت حسین بھٹی) کی تربیت کا نتیجہ ہے۔سوال کیاگیاآپ کا فیورٹ سنگر؟ کیفی نے جھینپے بغیر جواب دیا ایلویس پریسلے ،محمد رفیع اور بھائی جان۔میزبان نے سوال کیااداکار کون کون پسند ہیں؟کیفی نے جواب دیارچرڈ برٹن ،مارلن برانڈو اور بھائی جان۔آخر ی سوال تھافیورٹ ڈائریکٹر کون ہے ؟جواب ملا’’کیوں شرمندہ پئے کردے او‘‘(کیوں شرمندہ کررہے ہیں)۔واضح رہے کہ کیفی اس فلم کے ہیروہونے کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر بھی تھے۔کیفی نے کامیابیوں کا سہرااگرچہ بھائی جان کے سرباندھا لیکن وہ اپنے کریڈٹ سے بھی دستبردار نہیں ہوئے۔یہی حسن اتفاق نواز اورشہباز کی جوڑی اورورکنگ ریلیشن شپ میںبھی پایاجاتاہے۔ نااہلی کے بعد لالی وڈ سیاست کے تجزیہ نگاریہ کہہ رہے تھے کہ میاں صاحب کی فلم اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ڈبوں میں بند ہوگئی ہے لیکن انہوں نے پارٹی کی صدارت دوبارہ سنبھال لی۔ بڑے میاں نے فاتحانہ خطاب کرتے ہوئے کہاکہ’’ وہ مجھے نااہل کرتے جائیں اور آپ مجھے اہل کرتے جائیں‘‘ تاہم اس موقع پر چھوٹے میاں نے پہلی مرتبہ سرعام بڑے میاں سے اختلا ف کرتے ہوئے کہاکہ میاں صاحب آپ ان نئے مشیروں کے مشوروں پر کان نہ دھریں جن کا مطمح نظر ایک وزارت اور جھنڈے والی گاڑی ہے۔چھوٹے میاں نے پارٹی ورکروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ میاں صاحب آپ اپنے کنبے کی بات مانیں تو کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا۔ بعض لوگ کہتے ہیںکہ شہبازشریف اور چوہدری نثار کی سوچ ،نوازشریف کی اپروچ سے مختلف ہے۔دونوں میاں صاحب سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اداروں سے تصادم جاری رہا تو بات بگڑے گی۔ دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ میاں صاحب اگر ان کی بات مان کر چپ سادھ لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ مجرم ہیں،کرپٹ ہیں اورانہیں قانون کے مطابق نااہل کیاگیا۔میاں صاحب خاموش ہوگئے تو عوام کیاکہیں گے، ووٹر کیاسوچے گا، اس سے ان کا سیاسی اسٹارڈم متاثر ہوگا؟
ذاتی طور پر کبھی بھی میاں نوازشریف کی سیاست کا Die hard fan نہیں رہا ۔ ہیوی مینڈیٹ کے زمانے میں بھی ان کے بارے میں یہ نہیں لکھاتھاکہ میاں صاحب سیاست کے مائوزے تنگ ہیں یا وہ کارل مارکس جیسے انقلابی ہیں ۔( حالانکہ ایسے کہنہ مشق مارکیٹ میں موجود ہیں جو میاں صاحب کو درج بالا شخصیات کے جملہ اوصاف کی گل قند خیال کرتے ہیں)سیاست اور صحافت کا چولی دامن سے آگے کا یہ ساتھ اپنی جگہ لیکن ان کیری پیکروں کی نااہلی کو بھی نظر انداز کرنا بددیانتی ہوگی جنہوں نے یہ آئٹم مینوفیکچرکیا۔آج اگرجنرل اقبال ،جیلانی ،حمیدگل ،اختر عبدالرحمان اور ضیاالحق زندہ ہوتے تو بصد احترام اپنے محافظوں اور آقائوں سے پوچھتے کہ حضور آپ کے سیاسی جانشینوں پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں ، آپ کی دیدہ بینی سے قوم کو فائدہ کی بجائے نقصان اٹھانا پڑاہے ۔لیکن معروض کی اس کہانی میں تضادات پائے جاتے ہیں ۔ نوازشریف اور اہل خانہ کے پاس منی ٹریل نہیں دوسری طرف قبلہ پرویز مشرف مبلغ ایک عدد میڈیکل سرٹیفکیٹ مہیاکرکے انصاف اور قانون کی حدود سے دور صحرا میں سفاریاں کررہے ہیں۔ہم اس وقت تک ملی ترانوں میں ہی اپنے آپ کو زندہ اورپائندہ قوم ثابت کرتے رہیں گے جب تک انصاف ،قانون اورمیرٹ کا نفاذ نہیں کریںگے۔مراد یہ ہے کہ قانون اور انصاف کی نظر میں اقامہ اور میڈیکل سرٹیفکیٹ کے فوائد اور مضمرات میں زمین اور آسمان کا فرق نہیں ہونا چاہیے وگرنہ مدعی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ مظلوم ہے اور اس کے ساتھ ظلم کیاگیا ۔ بھٹی پکچر اور ظلم دابدلہ کا ٹائٹل گیت بھی بھائی جان یعنی عنایت حسین بھٹی نے گایاتھا جو فلم کے بعض مناظر میں بیک گرائونڈ میوزک کے طور پر استعمال کیاگیاتھا۔ کبھی لگتاہے کہ چھوٹے میاں ،بڑے میاں کو نازش کشمیری کے لکھے اس المیہ گیت کی استھائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیںکہ ’’ہونٹاں اتے جندھرے لالے مونہوکج نہ کوہ،ملے گا ظلم دا بدلہ ‘‘ ( ہونٹوں پہ تالے لگا لو ،مونہہ سے کچھ نہ کہو،ملے گا ظلم دا بدلہ )

تازہ ترین