• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سال سپریم کورٹ میں پانامہ کیس شروع ہونے کے فوری بعد میری ایک ملاقات ایک جج صاحب سے اُن کی رہائش گاہ پر ہوئی اور آف دی ریکارڈ ہونے والی گفتگو کے درمیان میں نے کوشش کی کہ جان سکوں عدلیہ اس تمام معاملےپر کیا سوچ رہی ہے بعد ازاں ان ہی صفحات پر میں نے اُس ملاقات کا ڈھکا چھپا احوال بھی تحریر کیا اور قوم کو محتاط انداز میں بتانے کی کوشش کی کھیل کس طرف جارہا ہے۔ اب جبکہ بلی مکمل طور پر تھیلے سے باہر آچکی ہے تو اُسی تحریر کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے وہ حقائق بھی بیان کرنا چاہتا ہوں جن کا قوم کے لئے جاننا بہت ضروری ہے۔
کہانی شروع ہوتی ہے مئی دو ہزار سولہ میں عمران خان کے اچانک عمرے پر جانے سے جہاں اُن کی مدینہ منورہ میں ایک انتہائی طاقتور شخصیت سے ملاقات ہوئی اور اُس کے بعد واپس آتے ہی عمران خان کی کے پی حکومت نے ایک مدرسے کے لئے تیس کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کردیا یہ دراصل آغاز تھا نواز شریف کی حکومت کے خلاف مذہبی جماعتوں کو یکجا کرکے اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اسلام آباد میں چند مذہبی جماعتوں کے ایک وفد کی عمران خان سے ملاقات بھی کرائی گئی جس کی تصویریں موجود ہیں۔ اسی دوران عمران خان نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کی کال دے دی اور اسلام آباد لاک ڈاؤن سے دو روز قبل چند مذہبی جماعتوں نے راولپنڈی میں ایک جلسہ کیا اور حکومت کو متنبہ کیا کہ اپنا قبلہ ٹھیک کرلے بصورت دیگر وہ سڑکوں پر آکر دھرنے دیں گے۔ اسی دوران پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے شاہ زیب خانزادہ کے شو میں کہا کہ اسلام آباد کو ایسی قوتوں کے ذریعے گھیرنے کی تیاری ہوچکی ہے جو ہفتوں نہیں مہینوں صرف پستہ بادام کھاکر گزارہ کرسکتے ہیں ۔ اکتوبر کے مہینے میں یہ سارا سماں تخلیق کرکے قوم کو تقریباً مفلوج کردیا گیا اور خوف اور سراسیمگی کی کیفیت طاری کردی گئی۔ یہ پہلے سے طے تھا کہ اسلام آباد کو لاک ڈاؤن نہیں کیا جائیگا بلکہ ایسا سماں پیدا کرکے عدلیہ کو ایکشن لینے پرمجبورکیا جائیگا اس کا اقرار عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی کیا ۔
بہرحال سپریم کورٹ میں کیس کا آغاز ہوگیا کیونکہ سپریم کورٹ کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں صرف شواہد کی روشنی میں فیصلہ دینے کا مجاز ہے اسی لئے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار پانامہ سے متعلق ہی کیس سننے تک تھا لہذا اور بہت سارے گڑےمُردے اکھاڑنے کے لئے جے آئی ٹی کا کردار بھی تخلیق کیا گیا اور بالآخر جے آئی ٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں نواز شریف کو آرٹیکل 62-63 کے تحت نااہل قرار دے دیا گیا۔ اب اگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مثال بنادیا جائیگا تو سیاست کی دنیا کے تقریباً سارے بڑے نام اس کی زد میں آتے نظر آتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے کہ پرویز مشرف نے کسی بھی اسمبلی کا رُکن بننے کے لئے کم از کم تعلیمی قابلیت بیچلرز مقرر کی تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لوگ جعلی ڈگریاں بناکر الیکشن لڑیں گے لہذا آرٹیکل 62-63 کو بھی ساتھ لے کر چلا گیا اور کئی بڑے بڑے نام یا تو الیکشن میں حصہ ہی نہ لے سکے یا پھر جعلی ڈگری کے الزام میں بعد ازاں نا اہل قرار دے دئیے گئے۔ شایدویسے ہی کھیل کا پھر آغاز ہوچکاہے ۔ جلد ہی کئی بڑے بڑے نام آرٹیکل 62-63 نگلنے والا ہے اور پھر دوبارہ سے 2002 والا منظربننے والا ہے جب سیاسی بونے ایک دم سے بڑے بنادئیے جائینگے۔ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرپائے گی اور ایک سال کے لئے حکومت پسندیدہ شخصیات کو دے دی جائیگی ایک سال بعد موجودہ صدر مملکت کا دورانیہ بھی پورا ہوجائیگا اور گزشتہ سال ریٹائر ہونے والے بڑے ناموں کی سیاست میں حصہ نہ لینے کی آئینی پابندی بھی ختم ہوجائے گی۔ ایک سال بعد یہ سیاسی بونے اسمبلیوں میں آکر کسی ڈمی وزیر اعظم کو منتخب کرکے مسند اقتدار کا اصل اختیار صدر مملکت کو سونپ چکے ہونگے۔ سینیٹ بھی تب تک اپنی مدت پوری کرچکی ہوگی اور جو چند سینیٹرز رہ جائیں گے اُن کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ سندھ میں پرویز مشرف کامیابی کے ساتھ ایم کیو ایم متحدہ کا جھنڈاتھام چُکے ہونگے اور اندرون سندھ سے بڑے بڑے مُہرے اور مہر مشرف کے پیچھے آچکے ہونگے۔ نواز شریف آصف زرداری عمران خان یا تو مُلک سے باہر ہونگے یا پاکستان کی جیلوں میں۔ بظاہر یہ ایک فرضی کہانی لگتی ہے مگر جب آپ سارے تانے بانے ملاتے ہیں تو یہ کہانی حقیقت لگنے لگتی ہے اور اگر نہیں تو دئیے گئے سوالات کے جواب ڈھونڈیے اور نتیجے تک خود ہی پہنچیں ۔
کیوں تمام تر کوششوں کے باوجود نواز شریف کے لہجے کی تلخی ختم نہیں ہورہی ہے۔ کیوں آصف زرداری اب نواز شریف کا ساتھ دینے کے لئےتیار نہیں ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر نظام کو اُلٹا جاتا ہے تو اس کا فائدہ نواز شریف کو ہوگا کیونکہ نواز لیگ الیکشن سے ڈر رہی ہے۔ اس لیے وہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوکر مقتدر حلقوں کو زیادہ غضب ناک نہیں کرنا چاہتے۔ متحدہ قومی موومنٹ ابھی تک کیوں تنہا گھوم رہی ہے اور پرویز مشرف کی طرف کیوں اتنا زیادہ جھکاؤ رکھتی ہے۔ کیا الطاف حسین کو سیاست ترک کرنےاور خاموش رہنےکی شرط پر پرویز مشرف عام معافی دلادیں گے۔ کیا متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پرویز مشرف کے اشارے پر تحریک انصاف سے ملی۔
نواز شریف کو کرپشن کے لاتعداد الزامات ہونے کے باوجود ایک ایسے الزام میں کیوں نا اہل کیا گیا جس کا شکار دوسرے کئی سیاست دان بھی ہوسکتے ہیں ۔
کیوں عمران خان کے سر پر بھی نااہلی کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے کیا جلد ہی عمران خان بھی نوازشریف کی لائن میں آکر کھڑے ہوجائیں گے اور پاکستان کی سیاست کے تینوں بڑے پارلیمانی سیاست سے دور کردئیے جائیں گے اور شاید یہ ہی وجہ تھی کہ سینیٹ اجلاس کے وقت پی پی پی اور پی ٹی آئی کے سینیٹرز ایوان میں نہ آئے اور الیکشن بل 2017 پاس ہوگیا جس کا ابھی تک فائدہ صرف نواز شریف کو پہنچا ہے مگر جلد ہی عمران خان اور آصف زرداری بھی اس سے مستفیض ہونگے۔ کیوں مردم شماری کے ثمرات کو عوام تک نہیں پہنچنے دیا جارہا اور آئندہ انتخابات پُرانی فہرستوں کے تحت ہی کرانے کا اعلان کیا گیا۔ صاف ظاہر ہے الیکشن وقت پر ہونا ہی نہیں اس لئے یہ وجہ الیکشن کے ملتوی ہونے کا سبب بنے گی۔ اسی لیے مردم شماری کو متنازع بھی بنادیا گیا۔
کیوں جنگ گروپ کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جارہی ہے ۔ دراصل یہ جنگ گروپ نہیں بلکہ اگلے ایک سال کے دوران سارے نیوز میڈیا کی طاقت اور اعتبار کو ختم کرنے کے پلان کا حصہ ہے ۔ کیوں ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ ایک انتہائی قریبی دوست اسلامی ملک نواز شریف کو اب مزید دوست رکھنا نہیں چاہتا۔ کیا کوئی اور پاکستانی اب اُن سے قریب ہوگیا ہے جو مستقبل میں حکمران بن سکتا ہے۔ کیوں نواز شریف بار بار گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی بات کررہے ہیں اور کیوں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اس بات پر مکمل طور پر متفق ہیں کہ اداروں کے درمیان ٹکراؤ جلد شدت اختیار کرجائیگا۔ کیوں پرویز مشرف نے بے نظیر اور مرتضی کا قاتل آصف زرداری کو قرار دیا ۔ صرف اس لیے کہ جلد اس نعرے پر سندھ کے بڑے بڑے وڈیرے مشرف کے ساتھ آملیں اور قومی حکومت کی راہ ہموار ہو۔ اور سب سے مضبوط دلیل کہ کیوں بار بار گھر کو ٹھیک کرنے کے نعرے لگائے جارہے ہیں اگر جواب چاہیے تو اوپر ان ہی سطور میں پڑھ لیجئے کہ حامد میر صاحب نے ٹی وی پر کیا بیان دیا۔
ان سارے سوالوں کے جب آپ کو جواب مل جائیں گے تو آپ بھی میری طرح اس مبینہ پلان کو جان جائیں گے جو کہ صرف اس لئے قابل عمل بنایا جارہا ہے کہ پاکستان کو مستقل طور پر روایتی سیاست دانوں کے چُنگل سے آزاد کرکے طاقت کا مرکز صدر ہاؤس کو بنادیا جائے۔ اگر آپ ماضی میں جائیں تو صدر ایوب ضیا اور مشرف کے دور آپ کو کم و بیش ایسے ہی لگیں گے جہاں طاقت کا محور صدر مملکت ہی تھا۔ بس صرف فرق یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دیکھتے ہوئے اور بین الاقوامی دباؤ کو راضی کرنے کے لئے کان کو پیچھے سے پکڑا جارہا ہے سامنے سے نہیں۔

تازہ ترین