• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہائے ری جمہوریت! تیرے لئے کیا جتن تھے جو نہ کئے۔ کیا آزمائشیں تھیں کہ جن سے نہ گزرے۔ تیرا وصل ملا بھی تو کبھی کبھار اور وہ بھی گہنایا ہو، خستہ خستہ، اور شب خونوں کے وسوسوں میں گھرا ہوا۔ تیرے لئے جاں سے گئے کوئی اور، لے اُڑے تجھے وہ جو تیری عصمت کو تار تار کرنے میں غاصبوں کے حواری رہے۔ تجھ پہ کیا تہمتیں تھیں کہ نہ لگیں اور تیری عصمت دری کے لئے کونسے جتن تھے کہ نہ آزمائے گئے۔ جنتا کی کیا کیا آسیں تھیں جو کبھی گلنار نہ ہو سکیں۔ تیری لیلاؤں کے سنہرے خواب بس چکنا چور ہوتے رہے۔ کبھی ہم ایک روحانی قوم تھے لیکن مملکت کے بغیر، اور جب جمہوری منشا خون کے دریاؤں سے گزر کر مملکت بنی تو خداداد کہلائی، اور جنتا اقتدار کی غلام گردشوں کو دُور سے تکتی تکتی رہ گئی۔ حقِ خود ارادیت ملا بھی تو ایک بار اور وہ بھی فرقہ وارانہ آتش نمرود میں گھرا ہوا۔ کسی نے سوچا تھا کہ پنجاب اور بنگال تقسیم ہوں گے اور آبادیوں کا ایسا وحشت ناک انخلا بھی۔ طاقت کا سرچشمہ تو عوام ہی کبھی کہلائے تھے لیکن پھر اِس چشمے سے رائے دہندگان بوند بوند کو ترستے رہ گئے۔ اور وہ نارسائی کی چادر اوڑھ کر زندگی کرنے کی سعی میں گردشِ ایام کے ہاتھوں جاں گُسل! جب دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں، بچے بھوک سے بلک رہے ہوں، بوڑھے دوائی کے بغیر ایڑیاں رگڑ رہے ہوں، اور آہیں آسمانوں پہ چھائی کثافتوں میں گم ہو کر رہ جائیں تو پھر کیا جمہوریت اور کیسی مملکت؟؟ کیسے کیسے مغنی، شاعر، دانشور، سماج وادی قوم پرست اور آزادئ جمہور کے پروانے کیا کچھ تھا کہ وہ نہ کر گزر پائے۔ لیکن حقِ خود حکومتی ملا بھی تو اُنھیں جنہیں غارت گری میں کمال حاصل تھا۔ اقتدارِ اعلیٰ سنا تھا اور کہیں آئین میں بھی لکھا تھا کہ اللہ کے بعد عوام اور اُن کے منتخب کردہ نمائندوں کو تفویض ہونا تھا۔ لیکن کبھی کبھار وقفوں سے منتخب نمائندہ کو ملا بھی تو مقتدرہ کے پالے ہوئے بے کس کارندوں کو، جنہیں بس فکر تھی تو اپنی ناطاقتی کے بھرم کو قائم رکھنے کی۔ روایتِ اطاعت ٹوٹی بھی تو فقط ایک بار جب مملکت کے دونوں حصوں میں عوام تاریخ کی کایا پلٹنے باہر نکلے اور فیلڈ مارشل کو دُم دبا کر بھاگنے ہی میں عافیت ملی۔
دوسری بار، جی ہاں 23 برسوں میں پہلی بار جب حقِ رائے دہی ملا تو کیا کیا بُت تھے کہ جو زمیں پہ نہ آ رہے۔ مشرقی حصے میں تو ایسا انقلاب بپا ہوا اور عوام کی مزاحمتی فصل تیار ہوئی جسے کاٹتے کاٹتے کاٹنے والوں کے ہاتھ قلم ہوئے۔ لیکن پھر بھی اقتدار اپنوں کو منتقل کرنے کی بجائے، ہتھیار ڈالے بھی تو دشمن کے سامنے۔ مغربی حصے میں بھی کچھ کم سماجی بغاوت نہ تھی اور کون کونسے بُرج تھے جو نہ گرائے گئے۔ جسےا سٹیٹس کو (Status Quo) کہا جاتا ہے، وہ دونوں حصوں میں فنا کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ جسے غدار کہہ کر جیل ڈالا گیا، وہ بنگلہ بندھو بن بنگلہ دیش روانہ ہوا اور جس نے عوامی راج کا نعرہ لگایا تھا، اُسے منتوں سے واپس بلا کر مارشل لا کی مسند پہ بٹھا دیا گیا کہ جمہوری مسند تو تھی ہی نہیں جس پہ عوام کا محبوب لیڈر بیٹھتا۔ 23 برس کی جمہوری مزاحمت اور عوامی بغاوت کے بعد ہی مشرقی حصہ جمہوریہ بنا تو مغربی حصہ میں مملکت بے آئین کو اس کا پہلا متفقہ آئین نصیب ہوا۔ اور لاکھوں لوگوں کا نذرانہ دے کر۔ اور اس جمہوریت کے لیے جس پر آج ہر طرف سے تبرے بھیجنے والے ظرفِ انسانی کو شرمسار کرنے پہ تُلے بیٹھے ہیں۔ بے غیرتوں کی غیرت، اللہ معافی! اور فکری فحاشاؤں کی دیدہ دلیری اتنی کہ بھلے مانسوں کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ جائیں!!
آج پھر ہم مشکل سے ملے نو سالہ جمہوری عبور کی گاڑی کو ہچکولے کھاتے ناہموار راہ پہ لڑھکتا اور ہچکولے کھاتا دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف سے سازشوں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اور جمہوریت کے گورکنوں کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ کوئی ’’گنوار عوام‘‘ کے حقِ رائے دہی پہ ناک بھوں چڑھا رہا ہے، تو کوئی ’’کرپٹ جمہوریت‘‘ کی تدفین کی دہائی دینے میں جانے کیا کیا جنتر منتر بکے جا رہا ہے۔ ایسی دھول اُڑائی جا رہی ہے کہ کوئی چہرہ دھول سے بچا نہیں اور کسی بھی ادارے کا پلو آلودگی سے بچا نہیں۔ سب دست و گریباں اور اپنی اپنی صلیب اُٹھائے ہوئے، کہ آخر میں صرف آہنی ہاتھ بچ رہیں۔ اس وقت تو آہنی ہاتھ بھی، حالات کی نئی سنگینیوں کی ہتھکڑیوں میں جکڑے دکھائی پڑتے ہیں، ورنہ اس کرم خوردہ جمہوریت کا کورٹ مارشل کرنے میں بھلا کیا دیر لگتی۔ نئے خطرات ہیں کہ چہار سو چھائے جاتے ہیں اور آہنی ہاتھوں کو بھی کہیں کہیں سویلین نرم خو دستانوں کی ضرورت ہے اور بلڈی سویلین کی باریک بینی اور اخلاقی دہائی کی۔ باہر کے خطرے الگ اور اندر کی صفائی الگ۔ جبکہ بیرونی ہاتھ کو تھامنا بکل کے آخری چور کو نکالے بنا ممکن دکھائی نہیں پڑتا۔ بُکل کے چور ہیں کہ ہر سو پھیلے ہیں۔ کس کس کی نشاندہی کریں، کس کس کی صفائی۔ کتنے ہی دہشت گرد ہیں جو جانے کہاں کہاں گھات لگائے بیٹھے ہیں، بھلے ہم کیسی ہی ڈفلی بجائیں کہ فتح ہو چکی۔ انتہاپسندوں کی کمیں گاہیں ہیں کہ حدِ نگاہ سے آگے جانے کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ روحوں اور ذہنوں کی صفائی اور قلب ماہیت کے لئے نہ نظریاتی فزیشن ہیں نہ بحالی کے ادارے۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ فرقہ واریت کے عفریتوں کی اتنی بھرمار کہ کسی ایک کی دھمکی پہ ساری پارلیمنٹ سر کے بل کھڑی ہو گئی۔ عوام کی منشا کی حکمرانی پہ کوئی نکلا بھی تو اعلیٰ ترین عدالت سے جھوٹے اور لعین کا داغ لے کر۔ اور عوام کی عدالت سے مُکتی پا کر گھر آیا بھی تو خاندانی حکمرانی کے وارثوں کے سر پھٹول میں۔
اب ہم کریں تو کیا؟ جمہوری آئینہ دکھائیں بھی تو کسے؟ جمہوریت تو قائم ہی افراد کی آزادی اور رعئیتی غلامی کے خاتمے پر ہوتی ہے۔ ہماری جمہوری محبوبہ کو لے اُڑے بھی تو وہ جنہیں عوام کی سماجی و معاشی منشاؤں سے کوئی سروکار نہیں۔ کیا اب عوام بس اس لیے رہ گئے ہیں کہ تین چار قصابوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ ہر طرف اگر حکمران اور استحصالی طبقوں کی سیاست گری ہونی ہے اور انتہائی عوام دشمن نظریات کا طوطی ہی بولنا ہے تو وہ ایسی جمہوریت کے لیے قربانی کا بکرا کیوں بنیں؟ لیکن سماجی جمہوریت کا خواب اگر ابھی دور ہے تو راستہ تو اِسی چالو جمہوریت ہی سے جاتا ہے۔ اور اگر عوام طوہاً و کرہاً اس جمہوریت کا تر نوالہ بنیں بھی تو کیا انھیں بھی کچھ بنیادی انسانی، سماجی و معاشی حقوق ملیں گے بھی کہ نہیں۔ کیا کوئی عوام کا حقِ حاکمیت اور خود حکومتی بھی مانتا ہے کہ نہیں۔ سول ملٹری تعلقات کی نابرابری اگر سویلین حکمرانی میں بدلے جو کہ اس ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے تمام سلامتی کی شرائط میں سے بڑی شرط ہے تو اس میں سے عوام کی متناسب نمائندگی کا بھی تو کوئی بندوبست نکلے۔ عوام کے نام پر جمہوریت کا وہ کھیل جس میں فقط چند سو اُمرا کے خاندان ہر جماعت میں حاوی ہوں اور ہر حکومت پہ قابض ہوں تو ایسی سول حکمرانی ہوا میں لٹکی تو رہ سکتی ہے اور عوام کی قوت کے بغیر مقتدرہ کے سامنے پر نہیں مار سکتی۔ 70 برس سے وزرائے اعظم کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی صرف اور صرف عوامی ناطاقتی کے باعث ہوئی۔ عوامی شرکت کے بغیر اقتدارِ اعلیٰ سویلین کو منتقل ہونے سے رہا۔ پھر عوام کا ایک اچھی زندگی گزارنے کا حق، تعلیم و صحت کا حق، حقِ روزگار، حقِ اظہار، حقِ تنظیم سازی اور رنگ و نسل اور عقیدہ و مذہب کی تفریق کے بنا سارے شہریوں کی مساوی شرکت اور برابری کے بنا ایک مہذب سماجی اور ترقی پسند قومی زندگی کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے؟ جو مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسلیاتی نفرتوں کے بیج بوئے گئے ہیں اور جو طوائف الملوکی آج ہر سو پھیلتی نظر آتی ہے، وہ ایک جمہوری، انسانی اور ترقی پسند نظریے اور بیانیے کی پذیرائی کے بنا کیسے ختم ہو سکتی ہے۔ نواز جائے، نواز آئے، عمران آئے، عمران روئے، زرداری بھاری ہو یا ہوا ہو۔
اس سے عوام کو کیا غرض۔ جرنیلوں کے تمام نمونوں کی حکمرانی بھی ہم دیکھ چکے اور جعلی جمہوریتوں کے سراب بھی ہماری اُمیدوں کو نہ بر لائے۔ تو پھر کیا ہو؟ حقِ حکمرانی دو گے تو اچھی خدمت لوگے۔ اچھی حکومت دو گے تو ٹیکس لو گے، عمرانی معاہدے کا احترام کرو گے تو لوکائی کا احترام لو گے۔ آئین و قانون کی بالادستی ہوگی تو اداروں کی بھی توقیر ہوگی۔ شہری کے حق کا احترام ہوگا تو ریاست کا بھی احترام ہوگا۔ ورنہ بیچاری جمہوریت اپنی اور مملکت کی بُکلوں کے چوروں کے ہاتھوں یونہی بے حال ہوتی رہے گی۔ اور ہم یونہی آزادئ جمہور کے خواب لئے سدھار جائیں گے!! ہائے ری جمہوریت اور مملکت، تیری بُکل کے چوروں کا ناس ہو!

تازہ ترین