• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کے مضمرات

پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کے اس بیان پر پورے ملک میں یہ بحث ہورہی ہے کہ کیا واقعی ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہے ۔غالباًیہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے زمینی حقائق کے مطابق یہ بیان دیا ہے کہ ہمیں کالعدم تنظیموں سے جان چھڑانے کے لئے کچھ وقت دیا جائے۔سلیم صافی نے اپنے 30ستمبر جنگ کے کالم میں کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کے عمل کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کام نہایت احتیاط اور حکمت کا متقاضی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست سے مذہب کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ تنظیمیں اگر سیاست میں آئیں گی تو یقینا ًمذہب ان کی سیاست کا اہم ترین عامل ہوگا۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ بدقسمتی سے لاہور کے ضمنی انتخاب میں بہت بری طرح مذہب اور فرقے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا انہوں نے مختلف کالعدم تنظیموں کے نام لے کر لکھا ہے کہ کسی زمانے میں خود ریاستِ پاکستان نے ان کو قائم کیا ،اسلحہ تھمایااور اب تک ان کی کھلی یا خفیہ سرپرستی کسی نہ کسی شکل میں کی جاری ہے۔ان کا مزیدکہنا ہے کہ جن لوگوں کو خود ریاست نے اس راستے پر لگایا ،ان کو اگر قومی دھارے میں لایا جا رہا ہے تو اس پر ہر طرف سے چیخ و پکار کیوں کی جارہی ہے اورمزید یہ کہ جو لوگ مذہبی تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کے عمل کی مخالفت کر رہے ہیں ان کے پاس کوئی متبادل منصوبہ نہیں ہے ۔
اگر اس تمام عمل کو عمیق نظروںسے دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ریاستی اداروں کا یہ عمل کسی اعلیٰ و ارفع قومی مفاد یا دور رس حکمتِ عملی کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف سول اداروں کی بالادستی کو چیلنج کرنا ہے جس کی کشمکش ستر سالہ پاکستانی تاریخ سے عیاں ہے۔ ضیاء الحق کے دورمیں بھی سندھ میں مختلف لسانی تنظیموں کی سرپرستی کی گئی تاکہ بھٹو ازم کا سیاسی طورپر خاتمہ کیا جاسکے اور یہ سمجھا گیا کہ جن تنظیموں کی پذیرائی ریاستی ادارے کرتے ہیں ان کی افادیت ختم ہونے کے بعد ان سے چھٹکارہ بھی حاصل کیا جاسکتاہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ان تنظیموں نے ریاستی سرپرستی کی بدولت سماج میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرلیں جس کی وجہ سے پاکستانی سماج ایک سیاسی تنزلی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔
جہاں تک متبادل منصوبہ لانے کا تعلق ہے تو یہی ریاستی ادارے متبادل بیانیے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔پاکستان کے بننے کے بعد لبرل اور بائیں باز و کے بیانیہ کو نظریہ پاکستان کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اس مکتب ِ فکر کے دانشوروں اور سیاسی ورکروں کے خیالات و افکار کوشاہی قلعہ اور دوسرے عقوبت خانوں میںتشدد کے ذریعے دفن کردیا گیا۔آج پاکستانی میڈیا میں ڈاکٹر مبارک علی ،پرویز ہود بھائی ،سبطِ حسن ،علی عباس جلالپوری ،ڈاکٹر اقبال احمد ،حمزہ علوی، ارشد محمود اور بہت سارے لبرل و بائیں بازو کے دانشوروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے جس کی وجہ بھی یہی ریاستی ادارے ہیں جنہوں نے ہر قسم کے متبادل بیانیہ کو عوام تک پہنچنے سے روک رکھا ہے اور یوں پاکستان میں پیدا ہونے والی نسلیں فرقہ واریت،بنیاد پرستی اور مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھتی جارہی ہیں۔کسی بھی تنظیم کوملکی مفاد کے تحت قومی دھارے میں لانے کا کوئی بھی مخالف نہیں ہو سکتا مگر یہ عمل جس مقصد کے تحت کیا جارہا ہے وہ نہایت خطرناک ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی ایسی تنظیموں کو قومی دھارے میں لایا جاتا ہے تو یہ حکمتِ عملی پورے سماج کی ایک متفقہ رائے ہوتی ہے اور ایسے میں عوام اس کے مضمرات سے بھی واقف ہوتے ہیں ۔مگر یہاں تو بظاہر اس پالیسی کا مقصد صرف یہی نظر آرہاہے کہ نوازشریف کو پنجاب کی سیاست کا واحد محرک نہ بننے دیا جائے اور یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب دائیں بازو کے ووٹوں کو مزید تقسیم کردیا جائے جس کا عملی مظاہرہNA120کے الیکشن میں 41امیدواروں کو سامنے لاکرکیا گیا۔
اس پیش منظر سے تو لگتا ہے کہ ریاستی اداروں نے نہ صرف اپنی ستر سالہ غلطیوں پر نظر ثانی نہیں کی بلکہ انہوں نے یورپی تاریخ سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔کیونکہ آج کے پاکستانی معاشرے اور قرون ِ وسطیٰ کے یورپی سماج میں بہت ساری قدریں مشترک ہیں مثلا آج سے چار سو سال پہلے وسطِ یورپ بھی پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں میں بٹاہوا تھا جن کے درمیان 1618ء سے 1648ء تک خوفناک فرقہ وارانہ جنگ لڑی گئی جس میں نہ صرف یہ کہ دونوں اطراف سے بہت بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے بلکہ املاک کو بھی بہت نقصان پہنچا۔یورپ کو شدید قحط اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا،جرمنی اور اٹلی کی ریاستیں بقیہ یورپین ریاستوں سے تقریبا سو سال پیچھے رہ گئیں۔چاہئے تو یہ تھا کہ ان مثالوں سے کوئی سبق حاصل کیا جاتا کہ جب فرقوں اور سیاست کے امتزاج کے نتیجے میں جو استبدادی سیاسی نظام ابھر کر آتا ہے وہ نہ صرف اس معاشرے کی تخلیقی صلاحیتوں کو سلب کر کے رکھ دیتا ہے بلکہ اس کے ساتھ وہ ریاست کو اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور کچلنے کے لئے مذہبی و اخلاقی جواز بھی مہیا کرتا ہے اور یوں ریاست پر فرقوں کا کامل تسلط ہوجاتا ہے ۔طالبان کے دور میں افغانستان میں ہر جدید نظریے نے دشمنی کا روپ دھار لیا اور معاشرہ اپنی ہی قدیم روایات میں سکڑتا چلاگیا۔اسلامی تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جیسے ہی سیاست پر فرقہ واریت کا زور کم ہوا تو اس معاشرے میں علم و فنون کو ترقی حاصل ہوئی۔اسی طرح اکبر کے دور میں فکری و ادبی نظریات کا فروغ ہوا۔آج یورپ میں جتنی بھی معاشی ،سماجی اور سائنسی ترقی نظر آتی ہے وہ انہیں فرقوں اور سیاسی اداروں کی ازسرِ نَو تشکیل سے ہی ممکن ہو پائی ہے۔
آج کے پاکستانی معاشرے میں کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے کی حکمت عملی سے زیادہ خطرناک کوئی اور حکمت عملی نہیں ہوسکتی اور وہ بھی اس معاشرے میں جہاں پہلے ہی فرقہ وارانہ تعصب کی وجہ سے قتل و غارت گری عروج پر ہو ، ہر مکتب ِفکر کے درمیان نفرت ہی پروان چڑھ رہی ہو جس سے پورا معاشرہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا ہو وہاں اس حکمت ِ عملی پر نئی سیاسی پارٹیوں کی تشکیل نو ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ہونا اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ چاہئے تو یہ کہ قوم کو فرقہ واریت ،بنیاد پرستی اور جنونیت کے خلاف متحد کرکے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جاتا تاکہ ادب، شاعری، موسیقی ،مصوری ،مجسمہ سازی ،عورتوں اور اقلیتوں کی آزادی کے بارے میں نئے افکار اجاگر ہوتے اور سماج کی تخلیقی صلاحیتیں ابھرتیں نہ کہ پھر ہمیں ایک بنجر معاشرے کی طرف دھکیلا جاتا جہاں قرونِ وسطیٰ کی یادوں کے علاوہ اور کچھ نہیں رکھا ہوا۔اگر آج ہم اپنے معاشرے سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے جلد عقل کے ناخن لینے ہونگے ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

تازہ ترین