• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست کے 70سالہ طویل و پر مغز ’جہاد‘ کے طفیل آج اِس اسلامیہ جمہوریہ میں جہاں بڑی بڑی انقلابی جماعتیں ٹھس پھس بلکہ مر کھپ گئی ہیں، تو مسلم لیگ کے اجلاس میں اگر برف ماندہ سرخ و سفید چہروں کے توسط سے فضا میں جوش و ولولہ بکھیرنے کی خاطر آتش نوا تقریریں اور جذبات و گداز برسرِ ہوا کرنے والی شاعری سننے کو ملے، تو کیا اسے صور محشر سے کم کوئی پکار قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ تو قیامت کی نشانی ہی لگتی ہے۔
مسلم لیگ تو جانتی ہے کہ اس راہ میں کسی کا بھی انجام بہ خیر نہ ہوا۔ اگر کوئی دو بدو دائو پیچ سے بچ جاتا ہے، تو کو بہ کو نظام عدل کی سیج پر سج جاتا ہے، گویا صورت احوال ہو بہو یہی بنتی ہے۔
میکدے سے جو بچ نکلتا ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
یہ تو ابھی کل ہی کا واقعہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی انقلابی جماعت پیپلز پارٹی کا سیاسی جنازہ این اے 120لاہور سے خوب دھوم دھام سے نکلا۔ دھوم دھام شاید دما دم سے نکلا ہے۔ بعض اہلِ علم کہتےہیں کہ یہ دُم سے نکلا ہے۔ خیر ہم کم فہم اس علمی بحث کا توان نہیں رکھتے۔ لگتا مگر یہ ہے کہ دونوں سے نکلا ہوگا! کیوں کہ بے نظیر شہید کی حیات تک اس جماعت میں دمادم مست قلندر ہوتا تھا، اب سنا ہے باقی پیپلز پارٹی تو پاکستانی سیاست سے آئوٹ ہوگئی ہے اور صرف دُم باقی رہ گئی ہے.....حیرانی و پریشانی مگراس امر پر ہوئی کہ شاعر نے تو پکار پکار کر کہا تھا۔
چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
مگر افسوس صد افسوس! کہ این اے 120لاہور میں اَدی فریال تالپور کی جماعت کے سیاسی جنازے کی پہلی صف بھی پوری نہ ہوسکی۔
کہاں 1986کہاں 2017! لاہور میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لئے جیالے دیوانہ وار گھروں سے نکلے، تو وقت کے سب سے بڑے ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔ انہیں دلاسہ دیتےہوئے اسٹیبلشمنٹ کے دیوتا غلام اسحٰق کی بولتی بند ہوگئی تھی۔ ٹھاٹھیں مارتا عوامی سمندر دہر کے متکبر کے جملہ باقیات کو لے بہانے کے لئے رواںتھا۔ دیکھئے! لوٹ مار کی کہانیاں، ڈیل، این آر او اور عہد و پیماں کے پیمانوں کی پامالی کے واقعات محترمہ کے دور اقتدار کو بھی دامن گیر رہے۔ لیکن جب وہ وقت کے آمر کے نہ چاہتے ہوئے بھی قبل از انتخابات آئیں۔ سانحہ کار ساز کے بعد بھی یہ دیکھتے ہوئے کہ جان بھی جاسکتی ہے، وہ ایک آمر کے سامنے مانند جبل کھڑی رہیں، تو اس جرات لازوال نے ان پر لگائے گئے تمام الزامات صاف بلکہ شفاف کردئیے ، یہی وجہ ہے کہ ان کی موت تاریخ کے باب شہدا کو یادگار بناگئی۔
عشرت ِقتل گہ اہلِ تمنا مت پوچھ!
عیدِ نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
اب بے ریا قمرزمان کائرہ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ معروضی حالات میں اسٹیبلشمنٹ کی قدم بوسی سے پی پی کی ڈوبتی کشتی بھلا کہاںبچ سکتی ہے۔ پی پی کے اکابر کاواحد مقصد مال غنیمت بچانا تھا،غنیمت یہ ہے کہ وہ بچ گیا۔
خیر مسلم لیگیوں کی نصیحت بلکہ وصیت کے لئے ایک اور انقلابی پارٹی ، جماعت اسلامی کی مثال بھی دیتےہیں۔ یہاں یہ امر خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ یہ جماعت جنرل یحییٰ خان کے دور آمریت سے پرویز مشرف کی 17ویں آئینی ترمیم تک اسٹیبلشمنٹ کی حلیف کے طور پر مشہور رہی ہے، لیکن اس کا انجام بھی پی پی ہی کی طرح ہوا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے’ منصف مزاج‘ کے تحت دوست دشمن میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سو انصاف کا بول بالا ہے.....خیر اپنے انجام بہ خیر پر جماعت اسلامی کہہ سکتی ہے۔
’’Friends not Masters‘‘ ایک جگہ البتہ ڈنڈی ماری ہوئی نظر آتی ہے کہ غیروں، جیسا کہ پیپلز پارٹی کے عیوب کو عیاں رکھا گیا ہے اور اپنوں کے تمام عیوب یہاں تک کہ نام نہاد افغان جہاد میں خورد برد تک کو ہوا نہیں لگنے دی گئی ۔
بنابریں کہنا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسی این اے 120لاہور میں جب انتخابات ہورہے تھے، تو فضا یوں ماتم کناں تھی کہ لاہور پر گیسوئے علم و فضل دراز کئے مجدد عصر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی جماعت سے جیسے اہالیانِ لاہور نکلنے کے لئے بے تاب و بے قرار بیٹھے تھے۔بس اعلانیہ ایک بزم سجانے کی دیر تھی! راقم کے جو فکری دوست ہیں ایک تو وہ حضرت مودودی کی فکر کے حوالے سے ہم سے اتفاق نہیں کرتے، دوئم وہ کشمیر پر راقم کی رائے کے ناقد ہیں۔ ایک عام شہری کی حیثیت سے ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ مذاکرات سے کبھی حل نہیں ہوسکتا! مذاکرات نام ہے لین دین کا، اور ہندو بنئے سے اس کاروبار میں کوئی جیت نہیں سکتا۔ 70سال گزر گئے مزید 70گزر جائیں گے،کروڑوں عوام یونہی غیر یقینی کی کیفیت سے دو چار غربت، بھوک و بیماری میں مبتلا رہیں گے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرنے کے لئے ہمیںایک اور پانی پت کا معرکہ برپا کرنا ہوگا...... اس طرح یہ طالب علم یہ سمجھتا ہے کہ تفہیم دین و تبلیغ دین کے لئے مولانا مودودی صاحب کی خدمات گراں قدر ہیں۔ ہماری علمی استطاعت کچھ بھی نہیں، پھر بھی اتنا جانتے ہیںکہ زمانے کی جدت و حدت کو مد نظر رکھتے ہوئے جو فکر مولانا صاحب نےعام کی، وہ جامد نہیں، ایک جدید فعال اسلامی فلاحی معاشرے و نظام کے لئے مینارہ نور ہے۔ ظاہر ہے حدیث کے حوالے سے آپ کی فکر پر مجھ جیسا کم خواندہ بھلا کیا گفتگو کرسکتا ہے، کہنا مگر یہ ہے کہ جب کوئی تفہیم القرآن سے استفادہ کرتا ہے، تو بے اختیار مودودی صاحب کے حق میں دعائے خیر کے لئے ہاتھ بلند کرلیتا ہے۔
مولانا صاحب تفہیم القرآن کے دیباچےمیں تحریر فرماتےہیں ’’میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لئے ممکن نہیں ہے، انہی کی ضروریات کو میں نے پیش نظر رکھا ہے‘‘، مسلم لیگ کے ہوتے ہوئے جماعت اسلامی کی تشکیل بھی ایک تاریخی واقعہ تھا۔ وقت نے یہ ثابت بھی کیا کہ فکری ، نظریاتی اورتنظیمی حوالے سے مسلم لیگ اس جماعت کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکی۔ آج کا سوال مگریہ ہے کہ اتنی عظیم تحریک کیوں سکڑ کر رہ گئی ہے۔یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ مولانا مودودی کی رحلت کے بعد کی جماعت اسلامی گویا فکرِ مودودی مخالف ’بدعتوں‘ سے بھرپور ہے۔ میاں طفیل محمد کی جانب سے نام نہاد افغان (امریکی) جہاد میں صف اول میں جانے سے لے کر قاضی حسین احمد صاحب کے ظالمو! قاضی آرہا ہے.... کے اسلامی فرنٹ تک، کیا کوئی عمل مولانا مودودی صاحب کی تعلیمات سے میل رکھتا ہے؟ رہی سہی کسر لیلائے اقتدار سےہم آغوش رہنےکی تگ ودو میں مگن عمران خان کی صف میں بے تاب کھڑے جناب سراج الحق نے پوری کردی ہے۔ حضرت اقبال نے کہا تھا۔
خداوندا !یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
ایک عرض یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی کے دوست ہم پر تبرا بھیجنے سے قبل اس پر غور ضرور فرمالیں کہ برصغیر پاک و ہند کی یہ بڑی جماعت اپنے مرکز لاہور میں صرف 592 ووٹوں تک کیونکر پہنچی !
سو اپنی بات پر واپس آتے ہوئے عرض یہ ہے کہ جس ملک میں سیاست روز ائول سے ہی شجرِ ممنوعہ ہو، اور اس حق کی خاطر لڑنےوالے ایک ایک کرکے کنارے لگا دئیے گئے ہوں، اُس ملک میں یہ پاکستان کی بانی جماعت( جسے اب میاں نواز شریف جیسا اولوالعزم قائد بھی ملا ہو )ہوسکتی ہے، جو مملکت خداداد پاکستان کی تقدیر بدل دے۔محترمہ مریم نواز، خواجہ آصف، پرویزرشید جیسےآزمودہ اصحاب کی کیا بات ! خدشہ مگر یہ ہے کہ کل کلاں اقتدارپسند مسلم لیگ کا جم غفیر کہیں یہ کہتا ہوا نہ پایا جائے۔
جاگ رہے ہیں خواب میں بھی
نیند میں بھی ہے نیند حرام

تازہ ترین