• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل ضیاء الحق کے بعد جب دوبارہ جمہوری دور شروع ہوا تو لوگوں کا خیال تھا کہ سیاستدان اس جمہوریت کا فائدہ اٹھا کر عوام کی تکالیف دور کریں گے اور ملک میں آمریت یعنی فوجی حکومت نہیں آسکے گی۔ مگر ہر مرتبہ ڈھائی 3سال بعد حکومت کرپشن کے نام پر توڑ دی جاتی ہے پھر الیکشن کروائے جاتے ہیں اور عوام پھر دونوں بڑی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی میں سے کسی ایک کو دوبارہ منتخب کروا دیتے ہیں ۔ ہارنے والی جماعت ، جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام لگا دیتی ہے۔ پھر اسمبلیوں میں خرید و فروخت شروع ہوجاتی ہے ۔ فلور کراسنگ یا توڑ جوڑ سے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی یا پھر توڑ دی جاتی ہیں۔ کبھی سپریم کورٹ بحال کرتی ، کبھی ہائی کورٹ ۔ الزام یہ ہوتا ہے کہ سیاستدان کرپٹ ہیں ۔ مگر الیکشن میں عوام پھر سے ان کو چن لیتے ہیں ۔ 3تین ادوار دونوں بڑی جماعتوں کو مل چکے ہیں ۔ کرپشن عروج پر ہے، ہمارا ملک کرپشن میں دوسرے نمبر پر ہے ، نائیجریا کا پہلا نمبر ہے ۔ غالباً نائیجرین صدر نے کرپشن کا تعین کرنے والوں کو بھی رشوت کی پیشکش کر دی ہوگی اور چونکہ ہماری حکومتوں کو پتہ تھا کہ ہم سے زیادہ اور کرپٹ کون ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا انہوں نے کرپشن کا تعین کرنے والوں کو غالباً رشوت کی پیشکش نہیں کی ہے ۔ اسی وجہ سے پہلے نمبر پر آنے سے رہ گئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کو کرپشن کی عادت کس نے ڈالی؟ سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے 50لاکھ روپے فی ایم این اے کی صوابدید پر ترقیاتی فنڈ کے نام پر ان غیر جماعتی سیاستدانوں کو استعمال کیا اور ہر بڑی پوسٹ پر ریٹائرڈ جنرل لگا دیئے تھے اور تمام صوبائی گورنر فوجی تھے ۔ بعد میں تو کچھ پر منشیات کی مبینہ اسمگلنگ کے الزام لگے اور ایک گورنر نے جام صادق علی مرحوم کو چپکے سے فرار کر وا دیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دبدبے میں تمام کرپشن دبی رہی۔ بعض سیاستدان 50لاکھ والے بجٹ کو 25سے 30فیصد تک کمیشن لے کر کھاتے گئے اور بعد میں یہ تمام غیر جماعتی سیاستدان سب کے سب مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو گئے ۔ کرپشن کی عادتیں بڑھتی گئیں ، پھر ضیاء الحق کی حکومت ختم ہوئی تو پی پی پی کی حکومت بنانے میں بڑی توڑ جوڑ ہوئی۔ کیونکہ کسی پارٹی کے پاس اکثریت نہیں تھی ، نہ ہی اکیلے مسلم لیگ (ن) اور نہ پی پی پی حکومت بنا سکتی تھی۔ لہٰذا اس توڑ جوڑ نے کرپشن کی ابتداء کی ۔ کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں آنے والے کس طرح کرپشن سے دور رہ سکتے تھے۔ آخر کار انہوں نے اپنا جو بھی سرمایہ الیکشن میں لگایا تھا وہ واپس وصول تو کرنا تھا۔ لہٰذا دھڑا دھڑ فلور کراسنگ شروع ہوئی۔ فاٹا کے آزاد اُمیدواروں نے بھی کا م دکھایا اور اس طرح مختلف خیالات کے لوگ حکومت میں شامل ہوگئے ۔ تب جا کر پی پی پی کی پہلی حکومت بنی اور جلد ہی پی پی پی کے ووٹوں سے آنے والے صدر غلام اسحق خان نے خود پی پی پی کی حکومت پر کرپشن کا الزام لگا کر ڈھائی سال میں چلتا کر دیا۔ جتوئی صاحب کو عارضی وزیر اعظم بنا کر الیکشن کروایا، اس طرح مسلم لیگ واپس آگئی۔ جتوئی صاحب پر بھی الزام لگا کہ الیکشن میں دھاندلیاں ہوئیں ، کس نے دھاندلی کروائی اور کس نے منصوبہ بندی کی ۔ اکثریت نے ایجنسیوں کو موردِ الزام ٹھہرایا اور مسلم لیگ کی حکومت بھی قبل از میعاد ختم کر دی گئی۔ ان پر بھی کرپشن کا الزام لگا پھر سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور مسلم لیگ کی حکومت بحال ہو گئی۔ صدر غلام اسحق خان نہیں مانے ، آخر کار دونوں صدر اور وزیر اعظم مستعفی ہو گئے ۔ معین قریشی صاحب کو امریکہ سے بلوا کر نگران وزیر اعظم بنایا گیا۔ الیکشن کروائے گئے ، الیکشن کمیشن کا رزلٹ اب پی پی پی کے حق میں گیا۔ نئے صدر پھر پی پی پی کے ووٹوں سے فاروق لغاری صاحب بنے ، مگر انہوں نے بھی اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو آدھی میعاد سے پہلے ختم کر دیا۔ گویا پی پی پی دوسری مرتبہ اپنے لائے ہوئے صدر کے ہاتھوں ختم ہوئی ، الزام وہی کرپشن کا تھا۔ وزیر اعظم پر کم اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر زیادہ لگایا گیا۔ تمام وزراء ، بیوروکریٹس پی پی پی کے دور میں زبردست کرپشن میں ملوث بتائے گئے ۔ پھر الیکشن ہوئے ، مسلم لیگ نے اگرچہ صرف 14فیصد ووٹ حاصل کئے ، بقایا جماعتوں نے 12فیصد ووٹ حاصل کئے ، مگر 2تہائی اکثریت مسلم لیگ کو ملی۔ جس کو تاریخ میں سب سے بڑے مینڈیٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تمام حکومتیں کرپٹ تھیں تو پہلے نگران وزیر اعظم جتوئی صاحب اور دوسرے نگران وزیر اعظم معین قریشی نے ان کرپٹ سیاستدانوں کا محاصرہ کیوں نہیں کیا ، انہیں کیوں کھلے رہنے دیا۔ خالی الزامات سے کیا فائدہ ہوا ، علاج کرنے کے بجائے مرض کو بڑھایا گیا جس سے ان کے حوصلے بلند ہوتے گئے ۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ۔ عوام مہنگائی سے تنگ اور پسے جارہے ہیں۔ اس وجہ سے وہ خاموش رہے اور کرپٹ سیاستدانوں کو بار بار اسمبلیوں کے لئے منتخب کرتے گئے ۔عوام کا اس میں کیا قصور ہے ۔ قوم مایوسی میں غرق پڑی ہے ، اس کو سکتہ ہو چلا ہے ۔ بزنس مین کے پیچھے سروے کی دوڑ اور غریب کو بجلی اور پانی سے محروم رکھا ہے ۔ بجلی والوں نے ریکوری کے نام پر رشوت اور ظلم کا بازار پورے ملک میں برپا کر رکھا ہے ۔ جس کو چاہتے ہیں جتنے کا بل بھیجیں ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ روز روز بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے ہر کوئی پریشان ہے ، جبکہ بڑی بڑی سڑکوں پر دن میںبھی بلب روشن رہتے ہیں۔ مہذب دنیا میں تو ٹیکس اور بل کی وصولیابی پر مراعات دی جاتی ہیں ۔ ہم ٹیکس اور بلوں کی وصولیابی کو عذاب بنا چکے ہیں ۔ ہر معاملے میں بیوروکریسی اپنا Upper Handرکھنا چاہتی ہے کہ عوام ان کی صوابدید کے محتاج رہیں۔ آسان قواعد اگرچہ حکومت کی کوشش ہوتی ہے ، مگر وہ حکومت کو ڈرا کر فیصلہ اپنے حق میں منوالیتی ہے ۔ سیاستدانوں کو کرپشن میں سزائیں ہو رہی ہیں ، مگر اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ یہ لوگ بڑی عدالتوں میں اپیل میں بری ہوجاتے ہیں۔ قانون کی شقوں سے دوسری طرف کاغذی کارروائیوں میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ۔ احتساب کے ججوں کو تو معمولی معمولی کمروں میں بٹھا رکھا ہے ،اسٹاف بھی پورا نہیں ہے ۔ سارے سیاستدان کرپٹ نہیں ہوتے ۔ اچھی شہرت رکھنے والوں کو اقتدار دے دیا جائے اور ان کو مانیٹر کیا جائے ، ان کی غلطیوں کا ازالہ کریں اور درست سمت دکھائیں۔ قبل اس کے کہ دیر ہو جائے اور قوم کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے، کیونکہ آگے مزید اندھیرا بڑھ رہا ہے ۔ اللہ خیر کرے ۔

تازہ ترین