• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناروے کا ’’آئی کان‘‘ کی ایٹمی اسلحہ سے متعلق تجویز کی حمایت سے انکار

Norway Refuses To Support The Icon Nuclear Weapons Proposal

جوہری اسلحہ کے انسداد کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے لیے نوبل انعام نے ناروے کی حکومت کے لیے مشکل پیدا کردی ہے۔ حکومت ایک طرف ایٹمی اسلحے کے مکمل خاتمے کی حمایت کرتی ہے لیکن اس بارے میں اس تنظیم کی طرف سے اقوام متحدہ میں پیش کئے جانے والے معاہدے کی توثیق کرنے کے لیے تیار نہیں۔

ناروے کی نوبل امن کمیٹی نے جمعہ کے روز اعلان کیاتھا کہ اس نے فیصلہ کیاہے کہ اس سال کا نوبل انعام ’’آئی کان‘‘ نامی اس تنظیم کو ملے گا جو ایٹمی اسلحے کے خاتمے کی جدوجہد کررہی ہے۔

آئی کان یعنی ایٹمی اسلحہ کے خاتمے کی بین الاقوامی مہم نے ایٹمی اسلحہ کے مکمل خاتمے کے لیے ایک معاہدہ اقوام متحدہ میں پیش کر رکھا ہے جسے اب تک پچاس ممالک حمایت حاصل ہوچکی ہے۔

ناروے اور ایٹمی اسلحہ رکھنے والے طاقتیں اور بہت سے دیگر ممالک نے اب تک اس معاہدے کی توثیق نہیں کی۔ اسی وجہ سے نارویجن نوبل امن کمیٹی کی طرف سے اس تنظیم کے لیے نوبل امن کے اعلان نے ناروے کی حکومت کو مشکل میں ڈال دیاہے۔

ناروے کی وزیراعظم ایرنا سولبرگ کا کہناہے کہ وہ ایٹمی اسلحے کے خاتمے کی حمایت کرتی ہیں لیکن اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں پیش کئے جانے والی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گی۔

واضح رہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں ہرقسم کا ایٹمی اسلحہ بنانے، اس کی خریدو فروخت، ذخیرہ کرنے اور اس کی توسیع پر پابندی ہوگی۔ناروے کی وزیراعظم کے بقول، جب تک ایٹمی اسلحہ رکھنے والے ممالک ہیں، نیٹو کی تنظیم بھی ایٹمی اسلحہ کے حق میں رہے گی۔

انھوں نے کہاکہ انسداد ایٹمی اسلحہ کی کوشش ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلاو کے معاہدے کے دائرے میں ہونا چاہیے جس میں ایٹمی صلاحیت رکھنے والے پانچ بڑے ممالک بھی شریک ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ دراصل ایٹمی اسلحہ رکھنے والے ممالک کو ساتھ لے کر ہی ایٹمی اسلحے خاتمے کی عملی کوشش ہوسکتی ہے اور اس اسلحہ کی توسیع کو روکا جاسکتاہے۔

نارویجن وزیراعظم نے حکومت کی طرف سے آئی کان کو نوبل انعام دیئے جانے پر شروع ہونے والی تنقید سے لاعلمی کا اظہارکیا۔ان کا کہناہے کہ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے کہ تو حکومت نے اس تنظیم کو نوبل انعام دیئے جانے کی حمایت کی ہے۔ میں ایٹمی اسلحہ سے پاک دنیا کے حق میں ہوں اور میرے خیال میں آئی کان نے ایک اچھی کوشش کی ہے۔

اسی اثناء میں نارویجن وزیرخارجہ بورگے بریندے نے وضاحت کی ہے کہ ناروے ایٹمی اسلحہ کے خاتمے کی معاہدے پر دستخط کیوں نہیں کررہا؟ان کے بقول، ایٹمی اسلحہ کے خاتمے کے عمل میں اگر ایٹم بم رکھنے والے ممالک شامل نہیں ہوں گے تو اس سلسلے میں پیشرفت نہیں ہوسکتی۔

اگر آپ مکمل پابندی کا نام لے کر شروع کریں گے تو حمایت حاصل نہیں ہوگی اور مقصد میں کامیابی نہیں ہوگی۔ بلکہ اس سے ایٹمی اسلحہ کے خاتمے کا کام مزید مشکل ہوجائے گا۔

اس ساری صورتحال کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ نوبل کمیٹی نے آئی کان کے لیے نوبل انعام کا اعلان کرکے نارویجن حکومت کے لیے پریشانی میں اضافہ کردیاہے۔آئی کان تنظیم کئی سالوں سے کوشش کرتی رہی ہے کہ وہ کسی طرح ناروے کے وزیرخارجہ کو اس معاہدے پر دستخط کے لیے آمادہ کرسکے لیکن وہ اس کام میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

بعض ماہرین کا کہناہے کہ نارویجن حکومت کی طرف سے اس معاہدے سے جان چھڑانے کا بہانہ کافی نہیں۔ ان کے بقول، بڑی عجیب بات ہے کہ حکومت ایک طرف کہہ رہی ہے کہ ایٹمی اسلحہ کے مکمل خاتمے کا کام اچھا ہے لیکن وہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں پیش ہونے والے معاہدے کی توثیق کرنے کے لیے تیار نہیں۔

آئی کان نے بہت کم وسائل سے ایک سو بائیس ممالک کی تنظیموں کے ساتھ مل کر ایٹمی اسلحے کے خلاف اتحاد قائم کیاہے اور ایٹمی اسلحے کے خاتمے کے معاہدے کے لیے پچاس ممالک کی حمایت بھی حاصل کرلی ہے۔

نوبل کمیٹی ناروے نے بھی اس تنظیم کے لیے نوبل انعام کا اعلان کرکے یہ ظاہرکیاہے کہ وہ بھی ناروے اور کئی دیگر ممالک کے ساتھ متفق نہیں جو اس معاہدے کے حق میں نہیں۔بعض ماہرین کے بقول، نوبل کمیٹی نے اس انعام کا اعلان کرکے درحقیقت اس معاہدے کی توثیق کے لیے دباو ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

اس کے علاوہ یہ ایک طرح سے نیٹو اور ایٹمی اسلحہ رکھنے والے اور دیگر ایسے ممالک پر تنقید بھی ہے جو ایٹمی اسلحہ کے خاتمے کے معاہدے کے حق میں نہیں۔

ان ماہرین کا کہناہے کہ بعض ممالک اپنے ایٹمی اسلحہ کو ڈھال کا نام دیتے ہیں لیکن دراصل انکا یہی نظریہ ایٹمی اسلحے کے خاتمے کے راستے میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔

بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایٹمی اسلحہ کے خاتمے کے معاہدے کے حق میں جدوجہد کرنے والے تنظیم کے لیے نوبل انعام نے ناروے کی حکومت کے لیے ایک نئی مشکل اور پریشانی پیدا کردی ہے۔

ایک طرف دنیا میں ایٹمی اسلحے کے خاتمے کے لیے یہ معاہدہ ہے اور دوسری طرف ایٹم بم رکھنے والے بااثر ممالک ہیں جن کے ساتھ تعلقات بھی ناروے کے لیے ضروری ہیں۔

 

 

تازہ ترین