• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پاکستان کے حالات کی تصویر کشی کی جائے تو انتہائی مایوس کن منظر نامہ ابھرتا ہے ۔ یہ معلوم ہی نہیں ہو رہا کہ ملک کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چند کہیں کہ اداروں کے مابین کوئی ٹکراؤ نہیں ہے لیکن بہت سے معاملات میں سب ادارے ایک صفحے پر نظر نہیں آتے ۔ سیاسی بے یقینی میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے ۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ملک بہت بڑے معاشی بحران کی طرف جا رہا ہے اور اس جانب کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورت حال میں بھی پاکستان اپنی سمت کا تعین نہیں کر سکا ہے اور خارجی محاذ پر درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے دانش مندانہ اور اجتماعی قومی پالیسی کا فقدان ہے ۔ ان حالات کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا ؟ کوئی سنجیدگی سے اس سوال پر غور نہیں کر رہا ۔
عدالت کی طرف سے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے فیصلے پر ایک حلقے کی یہ رائے تھی کہ پاکستان میں اوپر کی سطح پر طاقتور لوگوں کے احتساب کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ لہٰذا اب ملک میں حالات بہتر ہو جائیں گے اور احتساب کی وجہ سے جمہوریت بھی مستحکم ہو گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ قبل ازیں عدالت کی طرف سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا تو ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے تھے ، جو اس وقت ہیں ۔ اس سے بھی پہلے عدالت کے ایک فیصلے کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی نااہل قرار پائی تھیں اور پاکستان پیپلز پارٹی نہ صرف الیکشن کمیشن کی رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی فہرست سے خارج ہو گئی بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کسی بھی پارٹی کی سربراہ نہیں بن سکتی تھیں ۔ الیکشن لڑنے کیلئے ایک اور سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز رجسٹر کرائی گئی اور مخدوم محمد امین فہیم کو اس کا سربراہ بنایا گیا ۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کی سربراہ نے عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم کیا ۔ اگرچہ ان کے پاس بھی ان فیصلوں کو ’’ Undo ‘‘ کرنے کے سیاسی راستے موجود تھے ۔ میاںمحمد نواز شریف نے وہ سیاسی راستے اختیار کرنا شروع کئے ہیں ۔ پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات بل منظور کراکے وہ اپنی پارٹی کے دوبارہ سربراہ بن گئے ہیں۔ اس طرح انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک حصے کو ’’ Undo ‘‘ کر دیا ہے ۔ فیصلے کے باقی حصوں کے بارے میں بھی وہ مزید سیاسی راستے اختیار کر سکتے ہیں ۔
میاں محمد نواز شریف کے پاس اگرچہ اس وقت پارلیمنٹ کی طاقت ہے لیکن پاکستان کا اقتدار کس کے پاس ہے ؟ یہ سوال بھی حالات نے پیدا کر دیا ہے ۔ ہر چند کہیں کہ شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن وہ خود کہتے ہیں کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ہیں ۔ خود نواز شریف بے بسی کے عالم میں احتساب عدالتوں میں ملزم کی حیثیت سے پیش ہو رہے ہیں ۔ احتساب عدالت میں وفاقی وزیر داخلہ کو رینجرز والے اندر داخل نہیں ہونے دیتے اور وفاقی وزیر داخلہ احتجاجاً مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ ریاست کے اندر ریاست ‘‘ کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ حقائق کچھ بھی ہوں لیکن ان واقعات کی وجہ سے دنیا یہ سوال کر رہی ہے کہ اتھارٹی کس کے پاس ہے ؟
اگرچہ حکومت اور مختلف ریاستی اداروں کے ترجمانوں کی طر ف سے مسلسل یہ بیانات دیئے جا رہے ہیں کہ اداروں کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہے لیکن اپوزیشن کے سیاسی رہنما بھی مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اداروں میں تصادم کرانا چاہتے ہیں ۔ عمران خان تو یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف مارشل لا لگوانا چاہتے ہیں ۔ اس طرح کے تردیدی اور خدشات پر مبنی بیانات کی وجہ سے ملک میں سیاسی بے یقینی پیدا ہو رہی ہے ۔ میاں محمد نواز شریف پر بے شک اداروں کے مابین ٹکراؤ کے حالات پیدا کرنے کا الزام عائد کیا جائے لیکن کوئی انہیں سیاسی راستہ اختیار کرنے سے روک بھی نہیں سکتا ۔ سینیٹ میں انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کے دوران پیپلز پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے سینیٹر کی پراسرار غیر حاضری کے بعد ان سیاسی جماعتوں کے قائدین کے بیانات کے بارے میں بھی سوالات پیدا ہو گئے ہیں ۔ سینیٹ کی ایک سب کمیٹی نے اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی تقرری کا اختیار پارلیمنٹ کو دینے سے متعلق مسودہ قانون تیار کر لیا ہے ۔ اس مسودے کی تیاری میں بھی ساری پارلیمانی جماعتوں کے سینیٹرز نے حصہ لیا ۔ ججز اور جرنیلوں کے احتساب کیلئے بھی قانون سازی پر غور کیا جا رہا ہے ۔ ہر چند کہیں کہ میاں نوا زشریف کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ ملک جمہوریت کی پٹری سے اتر جائے لیکن میاں نوا زشریف کے اس اقدام کو بلا جواز قرار دینے کیلئے ملک میں بلا امتیاز احتساب بھی تو شروع نہیں ہو سکا ہے ۔ گو کہ عدالت میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دے چکی ہے لیکن ابھی اور بہت سے معاملات نیب عدالتوں کو طے کرنا ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف کے پاس سیاسی آپشنز استعمال کرنے کی مہلت بھی تو موجود ہے ۔ وہ اپنے بچاؤ کیلئے کچھ بھی کریں گے اور دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی مستقبل کے حوالے سے اپنی پالیسیاں بنائیں گی ۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت اداروں کے ٹکراؤ کے خدشات تو ظاہر کر رہی ہے لیکن اس حوالے سے تدارک کیلئے کوئی بھی کردار ادا کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے اس وقت پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے ۔
ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں پر الزامات عائد کر رہی ہے ۔ امریکہ اس خطے کیلئے ایک نئی حکمت عملی وضع کر رہا ہے کیونکہ اسے نہ صرف ابھرتی ہوئی ایشیائی معیشتوں اور پنپتے ہوئے نئے اقتصادی بلاکس کا مقابلہ کرنا ہے بلکہ اس خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانا ہے ۔ پاکستان نہ صرف بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی نئی خارجہ پالیسی نہیں بنا سکا بلکہ پاکستان کی سویلین حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ بھی ایک نہیں ہے ۔ اس امر کی مزید وضاحت بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ اس میں کئی داخلی اور خارجی عوامل کارفرما ہیں ، جنہیں ہماری کمزوری کے طورپربہت اچھے طریقے سے ہمارے مخالفین ہمارے خلاف استعمال کر سکتے ہیں ۔ اتھارٹی کس کے پاس ہے ؟ اداروں کے مابین تعلقات کی کیا نوعیت ہے اور آئندہ کیا ہونے والا ہے ؟ ان سوالوں میں الجھ کر ہم بڑھتے ہوئے معاشی بحران کی طرف توجہ نہیں دے پا رہے ۔ ملک میں قرضوں کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور اس حد سے کہیں زیادہ ہے ، جس حد تک کوئی ملک قرضے اتارنے کے قابل ہوتا ہے ۔ قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضوں کی ضرورت ہے ۔ قومی ادارے انحطاط کا شکار ہیں اور سبسڈیز کے ذریعے انہیں زندہ رکھا جا رہا ہے ۔ تجارتی خسارہ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے ۔
سرکاری اور نجی اداروں میں پھیلاؤ ختم ہو گیا ہے ۔ رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک ایکسچینج کی سٹے والی معیشت بھی اب ’’ معجزے دکھانے کے قابل نہیں رہی ۔ کوئی معاشی اشاریہ ایسا نہیں ، جس سے حالات کی بہتری کا امکان پیدا ہو ۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ نہ تو معیشت پر کسی کی توجہ ہے اور نہ ہی ان حالات کے منطقی نتائج کے بارے میں کوئی فکر مند ہے ۔ سول اور عسکری قیادت دونوں کو اس پر توجہ دینی چاہئے ۔

تازہ ترین