• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل آج بہت بوجھل ہے خیالات خدشات میں بدلتے جارہے ہیں، اداسی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آتی۔ حالات ہیں کہ سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ توبہ استغفار ہر طرف سازش ہی سازش نظرآرہی ہے۔ کبھی میمو گیٹ ، کبھی پاناما کیس ، کہیں جے آئی ٹی اور ڈان لیکس اور اب تازہ ترین انتخابی اصلاحات کی آڑ میں تحفظ ختم نبوت پر ایمان لانے کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کرنے کی سازش، ہمارے حکمراںاور سیاست دان آج کس ڈگرپر چل نکلے ہیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی، کسی کو سمجھ نہیں آرہاکہ اس نے عوام کے ساتھ ساتھ اپنے رب کو بھی جواب دینا ہے کہ نہیں۔ ایسے لگتا ہے سب مرنا بھول گئے ہیں۔ یہ ہمارے سیاست دان کیسی کیسی گھنائونی حرکتوں پر اتر آئے ہیں۔ سیاست کی گندی دکانداری میں اپنا دین اپنا نظریہ ، آبائو اجداد کی فکر و سوچ سے کس طرح آنکھیں پھیرلی ہیں صرف اورصرف دنیاوی خدائوں کو خوش کرنے کیلئے کیسے کیسے گھنائونے کھیل کھیل رہے ہیں۔ انتقام اور مفادات کی اس گندی سیاسی دکانداری میں اپنا اصل بھی بیچنے پر آگئے، اللہ کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے۔ آج نہیں تو کل سب ایک ایک کرکے بے نقاب ہوں گے۔ یہ کیسی سفارت کاری ہے کہ آپ کاوزیرخارجہ امریکہ کے اہم دورے پر جارہا ہو اور اپنے اصل رب کو راضی کرنے کی بجائے دنیاوی آقائوں کو خوش کرنے کی خاطر پارلیمان کے ذریعے انتخابی اصلاحات کی آڑ میں تحفظ ختم نبوت پر ایمان لانے کا حلف اقرار نامے میں تبدیل کر دیا جائے۔
جی جناب! یہ ایک سوچی سمجھی واردات تھی جس میں پارلیمان میں بیٹھے نام نہاد ہمارے عوامی نمائندے مکمل طور پر شریک تھے۔ ماسوائے چندایک کے۔ حیرت ہے پارلیمان میں موجود مذہبی جماعتیں بھی اس سنگین غلطی پر پُر اسرار طور پر خاموش رہیں۔ آفرین ہے عوام کے دلوں کی دھڑکن شیخ رشید پر جو اکیلا ہی ناموس رسالتؐ پر مرمٹنے کو تیار تھا۔ وہ دہائیاں دیتا رہا کہاں ہیںسید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانافضل الرحمٰن، لیکن مجال ہے کہ کسی اور سیاسی جماعت کے کسی ایک بھی رکن نے اس کا ساتھ دیا ہو۔ اس سازش کی کڑیاں کہاں جاکے ملتی ہیں اور کس نے یہ گھنائونی حرکت کی اس کا مقصد کیا تھا اور اتنی سنگین غلطی کیسے ہوئی۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد جومتنازع شق کی منظوری کے بعد اگلے روز میڈیا کے سامنے وضاحتیں کرتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے اور توبہ استغفار کررہے تھے ۔ بہتر تو یہی تھا وہ کانوں کو ہاتھ لگانے کی بجائے سر عام کان پکڑتے یا انکے کان پکڑائے جاتے سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ نااہل سابق وزیراعظم اور اسی روز نومنتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے صدر قبلہ محترم میاں محمد نواز شریف مدظلہ اس بارے میں خاموش کیوں رہے۔چلئے مان لیتے ہیں کہ اس دن مسلم لیگ ن کے نو منتخب صدر بننے کی خوشی میں وہ سب بھول گئے۔ لیکن اگلے روز لاہورمیں ن لیگ کے کنونشن میں ان کے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمدشہبازشریف ببانگ دہل میاں صاحب سے کہہ رہے تھے کہ ایسے وزیر کو فوراً وزارت سے ہٹایا جائے مگر کمال ہے کہ میاں صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے انہوں نے اس سنگین غلطی پر اپنے کلمات کا اظہار کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ اسی طرح تاحال میاں صاحب کی قیادت میں موجودہ حکمراں جماعت نے بھی کوئی قدم اٹھایا نہ اس اقرار نامے کے تخلیق کاروں کو گرفت میں لیا۔ سوال میرا عمران خان سے بھی ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر مکمل خاموشی کیوں اختیار کئے رکھی۔ نتیجہ کیا ہوا حق سچ کی آواز کبھی دبائی نہیں جا سکتی۔ سو سیاست دانوں کا نامہ اعمال بھی عوام کے سامنے آگیا۔ پھر آپ کہتے ہیں وہ مداخلت کرتے ہیں آخر کب تک وہ خاموش رہیں گے۔ سب کے سمجھ میں آرہا ہے مگر آپ کےنہیں آپ کو ہر طرف سابق ڈکٹیٹر مشر ف ہی نظر آتا ہے آپ ٹھیک کہتے ہیں پارلیمان نے انتخابی اصلاحات کا بل سابق ڈکٹیٹروں کے منہ پر دے مارالیکن اسے ذرا اُلٹا پڑھیں اور تحفظ ختم نبوت کی شق کو ذہن میں لائیں تو جواب ٹھیک ملے گا۔ حضور والا! پیغام بڑا واضح ہے وہ تصادم نہیں چاہتے ٹھوس رابطہ درکار ہے۔ پاناما کیس ان کا مسئلہ نہیں مگر انصاف کے منتظر ہیں۔ آئین کے دائرے میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مارشل لاکو آپ دعوت دے رہے ہیں۔ الزام تراشیاں انہیں پسند نہیں، ایک روشن پاکستان کا مستقبل ان کا بیانیہ ہے۔ رینجرز کی احتساب عدالت کے باہر تعیناتی پر کسی کو کیوں اعتراض ہوسکتا ہے اگر انہیں ایک اہم شخص کی حفاظت کی فکر نہ ہو۔ وہ خاموش ہیں مگر زیادہ دیر تک نہیں۔ جہادہی پاک فوج کا ایمان ہے، ناموس رسالتؐ پر مر مٹنے کو وہ بھی ہردم تیار ہے۔ وہ کسی دشمن سے نہیں ڈرتے۔ ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کرنا انہیں خوب آتا ہے لیکن سیاسی انتشار سے تقسیم ہوتی قوم کےبار ے میں وہ شدید فکر مند ہیں۔ خارجہ پالیسی آپ کے بس کی بات نہیں یہ کام تو وہ خود ہی نبھاتے رہیں گے۔ وہ مشرقی و مغربی سرحدوں پر دن رات جاگ رہے ہیں مگر اندرونی و بیرونی دشمنوں،پاکستان توڑنے اور گالیاں دینے والوں کو چاہے وہ کوئی بھی ہوں، نہیں چھوڑیں گے۔ دہشت گردوں سے نمٹنا اچھی طرح جانتے ہیں مگر انکے سہولت کاروں کےبارےمیں فکر مند ہیں۔ انہیں عوام کا بھرپور اعتماد تو حاصل ہے البتہ سیاستدانوں کا نہیں۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ امت مسلمہ کیلئے پاکستان کو کیا کردارادا کرنا ہے۔ آپ یہ بھول گئے کہ پاکستان کی اساس لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ پر قائم ہے اور پاکستان کو یہ کردار بخوبی نبھانا ہے۔ مگر کیا کروں میرا دل آج بہت بوجھل ہے میرے خیالات خدشات میں بدلتے جارہے ہیں وہ آنا نہیں چاہتے مگر آپ انہیں زبردستی لارہے ہیںاوریہی بڑا خاموش پیغام ہے ۔
ذرا سوچئے!وطن عزیز جس نازک موڑ پر کھڑا ہے اس کا احساس سیاست دانوں خصوصی طور پر حکومت کو نہیں، ہر کوئی اپنی بانسری بجارہا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بول کر ریاست کا بیانیہ تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قومی ادارے کے خلاف بیانیہ ترتیب دیا جارہا ہے ۔ حالات کے مطابق ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام ریاستی ادارے مل کر بیٹھتے، قومی سلامتی اور ملکی دفاع پر سیر حاصل بحث کرتے، ایک دوسرے کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے اور انہیں دور کرتے۔ پیدا ہونے والے حالیہ خوف ناک حالات کے تناظر میں ماضی کے تلخ تجربات کے پیش نظر ملک کا نیا بیانیہ رقم کرتے اور ایسا حتمی فیصلہ کرکے اُٹھتے جو ملک و ملت کی خوش حالی اور سلامتی کا ضامن ہو مگر افسوس کہ حساس معاملات پر بھی کسی ایک کی رائے دوسرے سے نہیں ملتی۔ اس صورت حال کے پیش نظر ان سیاسی رہنمائوں کی ذہنیت اور سطحی سوچ پر رونا آتا ہے جو ہمارے آقا بن بیٹھے ہیں، جو ستر سال سے ترقی، خوش حالی اور عوام دوستی کے نام پر پانی کے بلبلے بنارہے ہیں۔ تازہ پیغام ایک اور موقع ہے جونہایت نازک حالات میں فراہم کیا جارہا ہے۔ اس نازک موڑ پر جو یک جہتی اور باہمی تعاون اداروں کے درمیان ہونا چاہئے وہ سرے سے غائب ہے۔ بالکل ٹھیک پیغام ہے کہ اگر اس مرحلے پر باہمی تعاون نہ ہوااور بیرونی دبائو لیا تو معاملات کو ریورس گیئر لگ سکتا ہے یہ محض ایک بیان نہیں بلکہ بہت بڑی حقیقت ہے۔ دشمن کامقابلہ کرنے کیلئے تمام اداروں، سیاست دانوں اور عوام کی تائید و حمایت اور معاونت درکار ہے مگر افسوس کہ کچھ لوگ بیرونی قوتوں کے معاون کار بننے کے راستے پر چل نکلے ہیں اور انہیں خاموشی کو الفاظ دینا پڑے۔

تازہ ترین