• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کارخانہ قدرت میں ’’بقا کی جنگ‘‘ کا اصول اس قدر استوار ہے کہ اس سے مفر ممکن نہیں۔ حیاتیاتی زندگی پر اس اصول کا اطلاق اب ایک سائنسی حقیقت ہے لیکن سائنس کے دیگر شعبے اور سوشل سائنسز بھی اس کے پابند نظر آتے ہیں۔ انسان کے اندر تو بقا کی جنگ جاری رہتی ہی ہے، انسان کی بنائی ہوئی ریاستوں کا عروج و زوال بھی اسی اصول سے مآخذ محسوس ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے پانچ مستقل ارکان کے بعد بھارت، پاکستان اور اسرائیل ایٹمی صلاحیت کے حامل بنے۔ کچھ عرصہ قبل شمالی کوریا اس کلب میں نہ صرف شامل ہوا بلکہ اس نے اتنے تجربات کئے ہیں اور اپنی ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کو اتنی تیزی سے فروغ دیا ہے کہ دنیا حیران ہو گئی ہے۔ اسی طرح ایران ایٹمی صلاحیت کے قریب قریب ہے۔ کل ملا کر یہ دس ملک بنتے ہیں۔ ان تمام ریاستوں کے ایٹمی پروگرامز کے پیچھے بقا کی جنگ کا اصول کارفرما ہے۔ امریکہ، روس، برطانیہ، چین اور فرانس کے ایٹمی پروگرام تو دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آنے والے ورلڈ آرڈر میں بڑی قوتوں کے درمیان طاقت کے توازن کا نتیجہ تھے۔ بھارت کا ایٹمی پروگرام اسکی سپر پاور بننے کی خواہش اور کسی حد تک چین کے ساتھ کشیدگی اور چین کے ایٹمی پروگرام کے ردعمل کا نتیجہ ہے جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھارت کی طرف سے ریاستی بقا کے خطرے کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل کے نیوکلیئر ڈاکٹرائن میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے جو یہ ہے کہ ایٹمی صلاحیت ریاستی بقا کی ضامن ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ اگر سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان ایٹمی صلاحیت پیدا نہ کرتا توبھارت پاکستان کو یا تو توڑ چکا ہوتا یا ضم کر چکا ہوتا۔ بھارت کے مذہبی تعصبات اور علاقائی جارحانہ عزائم کے بارے میں اگر کسی کو کوئی شک تھا بھی تو وہ مودی حکومت کے وجود میں آنے اور اسکی پالیسیوں سے دور ہو گیا ہو گا۔ امریکہ کی سربراہی میں مغربی دنیا نے عراق اور لیبیا کی طرح پاکستان کو بھی ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے بدلے کئی قسم کی مراعات دینے کا حربہ آزمایا لیکن اس وقت کے درست فیصلوں نے ہمیں عراق اور لیبیا کے انجام سے بچائے رکھا۔ اس ضمن میں دوسری مثال شمالی کوریا کی ہے۔ عراق اور لیبیا کے برعکس اس نے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک نہیں کیا لیکن بدترین دھمکیوں اور تضحیک کے باوجود امریکہ نے ابھی تک شمالی کوریا پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کی۔ جب ٹرمپ انتظامیہ جیسی حکومت جو ہر ایک کو دھمکاتی پھرتی ہے، شمالی کوریاپر حملہ کرنے کی بجائے اس کے لیڈر کم جونگ آن کو ایک ’’سمجھدار انسان‘‘ (rational actor) قرار دیتی ہے تو عراق اور لیبیا کی مثال ذہن میں آتی ہے جنہوں نے ’’بقا کی جنگ‘‘ کے اصول کی خلاف ورزی کی، نتیجتاً امریکہ نے ان پر حملہ کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی۔
ہر لحظہ بدلتی ٹیکنالوجی کی دنیا میں کوئی چیز حتمی نہیں رہی، ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل تو کر لی ہے لیکن مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے مجھے خدشہ ہے کہ دن بدن ہماری ایٹمی صلاحیت بوسیدہ اور متروک ہوتی جا رہی ہے، گویا ہم بقا کی جنگ کے اصول کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اول، سائنس اور ٹیکنالوجی اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ جو ملک اپنی ایٹمی صلاحیت کو جدید ترین نہیں بنا رہا وہ اسے دن بدن کھوتا جا رہا ہے۔ ایٹمی صلاحیت کے حامل نو ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جو اپنی ایٹمی صلاحیت کو جدید تر تو کیا جدید بھی نہیں بنا رہا بلکہ وہ استعدادکار ہی پیدا نہیں کر رہا جو ایٹمی صلاحیت کو جدید تر بنا سکے۔ بھارت سمیت دیگر تمام ایٹمی ممالک پرانے تصورات یعنی ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد اور کارکردگی بڑھانے، انکے ڈلیوری سسٹم کو جدید بنانے، چند منٹ کے اندر زمینی، فضائی اور بحری تینوں طریقوں سے ایٹمی ہتھیار فائر کرنے، اور اس سارے عمل کو جدید ترین محفوظ کمیونیکیشن سسٹم والے مرحلے کو مکمل کر کے اب اگلے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور اب یہ ممالک سارا زور سائبر وار فیئر پر لگا رہے ہیں۔
حال ہی میں الفرڈ میک کائے کی کتاب (In the shadow of the American Century) کے اقتباسات بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہوئے ہیں جن میں امریکہ اور چین کے درمیان ممکنہ تیسری عالمی جنگ کے منظر نامے کے حوالے سے وار گیمز بیان کی گئی ہیں۔ انکا لبِ لباب یہ ہے کہ چین اپنی جدید ترین سائبر،ا سپیس اور کمیونیکشن ٹیکنالوجی کی بدولت امریکہ کے کمپیوٹر اور ڈیجیٹل سسٹمز کو کرپٹ کر کے غیر فعال بنا دے گا جسکے نتیجے میں امریکہ کے لڑاکا طیارے، بحری جہاز، آبدوزیں، جدید ترین مسلح ڈرونز اور میزائل چین پر حملے کرنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔ اسی منظر نامے کو اگر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کوامریکہ و بھارت کی طرف سے مشترکہ خطرات کے پس منظر میں رکھ کر دیکھیں تو خوفناک صورتحال سامنے آئے گی۔ سائبر، اسپیس اور کمیونیکشنز ٹیکنالوجی میں پاکستان امریکہ اور بھارت کی مشترکہ ٹیکنالوجی سے اسقدر پیچھے ہے کہ خدانخواسطہ بغیر فوجی حملہ کئے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو غیر فعال بنائے جانے کا خطرہ موجود ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کیلئے سائبر، اسپیس اور کمیونیکشنز ٹیکنالوجی کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ماہرین پیدا کرنا ہونگے ۔ دوم، شمالی کوریا کے برعکس ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات کا وسیع ذخیرہ امریکہ کے پاس موجود ہے جو بوقت ضرورت اسے بھارت کے ساتھ شیئر کرنے سے شاید گریز نہ کرے۔ ماضی میں مختلف حیلوں بہانوں سے جس طرح امریکی جاسوسوں کو پاکستان میں کھلی چھوٹ دی گئی، ’’اب پچھتائے کیا ہوت‘‘ والا معاملہ ہو چکا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر اس خطرے کا درست طور پر ادراک ہو جائے تو ایٹمی اثاثوں کو مزید محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ سوم، پورے ملک میں جاسوسوں کا جال بچھا کر بے پناہ وسائل اور خطرات مول لے کر انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنا ایک طرف اورپرویز مشرف، راحیل شریف یا جنرل پاشا جیسے فرد واحد کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے غیر محسوس طریقے سے انٹیلی جنس ڈی بریفنگ و مانیٹرنگ سے حاصل حساس ترین ایٹمی معلومات ایک طرف۔ کسی بھی دوسرے ایٹمی ملک میں ایسی شخصیات کے ملک سے باہر رہنے، یا نوکری کرنے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی شخصیات کا بیرون ملک قیام جہاں دشمن ایجنسیاں انکے سانس تک گن سکتی ہیں، ایک بڑا سیکورٹی رسک ہے جو فوری اقدامات کا متقاضی ہے۔
بھارتی خطرے کے پیش نظر ایٹمی صلاحیت ریاستی بقا کی واحد ضامن ہے۔ ناقابلِ تسخیر ہونے اور امریکہ و بھارت کا قبرستان بننے جیسے خیالی نعروں کی وجہ سے پہلے آدھا ملک ہم گنوا چکے ہیں، بقیہ ملک بچانے کیلئے غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ ’’بقا کی جنگ‘‘ کے آفاقی اصول سے جس ریاست نے بھی صرف نظر کیا، اسکے انجام کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔

تازہ ترین