• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے بارے میں نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو متنبہ کیا ہے پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف پاکستان کے روایتی بیا نیے کو پورے زور شور سے بیان کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں جب وہ امریکی وزیر خارجہ رک ٹلرسن کے ساتھ ملاقات کے لئے واشنگٹن آئے تو انہوں نے پاکستان کے موقف کے بارے میں کافی بیباکی سے کام لیا: انسٹیٹیوٹ آف پیس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے امریکی پالیسیوں کے خوب لتے لئے اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو خوب اجاگر کیا۔ واشنگٹن کے حلقے ان کی بیباکیوں سے کافی محظوظ ہوئے لیکن امریکی رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی: امریکی خواجہ آصف کی مبینہ صاف گوئی پر مسکراتے ہیں لیکن ان کو اس میں کوئی نئی جہت دکھائی نہیں دیتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خواجہ آصف کا زور دار بیانیہ محض پاکستانیوں کے لئے تھا۔
جب خواجہ آصف واشنگٹن میں امریکیوں کے ذہن تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اسی دوران جھل مگسی بلوچستان میں ایک صوفی درگاہ پر حملہ ہوا جس میں اب تک چوبیس بے گناہ شہید ہوئے ہیں۔ انہی دنوں میں سیکورٹی فورسز نے لاہور اور کراچی میں متعدد دہشت گردوں کا صفایا کردیا لیکن کراچی میں خواتین پر چاقو سے حملہ کرنے والا دہشت گرد ابھی تک نہیں پکڑا گیا۔ ملی مسلم لیگ اور لبیک پارٹی کا سیاست کے مرکزی دھارے میں داخل کیا جانا بھی اسی منظر نامے کا حصہ ہے۔ گویا کہ پاکستان میں انتہا پسند بیانیے کا غلبہ جاری ہے اور خواجہ آصف کی حکومت بے بس ہے۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ جس حکومت کے وزیر اعظم کو معمولی بے ضابطگی پر فارغ کر دیا جائے اس کے وزیر خارجہ کے صاحب اختیار ہونے پر کس قدر یقین کیا جا سکتا ہے۔ خواجہ آصف کی گھر کی صفائی والا بیان کافی پرکشش تھا لیکن اس کو عملی جامہ کون پہنائے گا؟ ان وجوہات کی بنا پر امریکی پالیسی ساز وں کا پاکستان کے بارے میں رویہ تبدیل نہیں ہوا۔
غلط یا صحیح امریکیوں کو یقین واثق ہے کہ اول، پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف بیانیہ تبدیل نہیں ہوا۔ دوم پاکستان حقانی نیٹ ورک کو مبینہ محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔پاکستان سے تھوڑی ہمدردی رکھنے والے امریکی دانشور بھی سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان کی لیڈر شپ مبینہ طور پرپاکستان میں موجود ہے۔ سوم، پاکستان کے کچھ لوگوں کے دہشت گردوں سے قریبی روابط ہیں۔ چہارم پاکستان کی سویلین حکومت بے بس ہے اور اس سے مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ عمومی طور پر امریکی حلقے پاکستان کی پالیسیوں کے بارے میں مایوس ہیں اور اس سلسلے میں کسی کو کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ وہ اسلام آباد کے ساتھ کس طرح کا طرز عمل اختیار کریں۔
امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے کانگریس میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک اور آخری موقع دینا چاہتے ہیں کہ کوئی قابل عمل لائحہ عمل نکالا جا سکے۔ لیکن افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر نے ایک پاکستانی ایجنسی پر الزام لگایا کہ اس کے انتہاپسند تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے ناقد امریکی دانشوروں کے ایک حلقے کو یقین کامل ہے کہ پاکستان کسی بھی صورت میں اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرے گا اس لئے اس پر سخت قسم کی پابندیاں عائد کی جائیں۔ ان کے خیال میں پاکستان کی امداد بند کرنا کوئی موثر پالیسی نہیں ہے۔یہ وہ ذہنی تناظر ہے جس میں اس ماہ کے آخر تک امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پاکستان کا دورہ کریں گے۔
امریکہ کی بدلتی ہوئی پالیسی سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں کسی حد تک تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی لئے خواجہ آصف کو روس، چین اور ایران کے دورے پر بھیجا گیا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ افغانستان بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ اب جبکہ افغانستان کے صدر اشرف غنی بھی پاکستان کا دورہ کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں تو اس سے امید پیدا ہو چکی ہے کہ شاید پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے اور افہام و تفہیم کا ماحول پیدا ہوسکے۔ جنرل باجوہ کے کابل کے دورے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ افغانستان کے صدر دو مرتبہ پاکستان کے دورے کی دعوت ٹھکرا چکے ہیں لیکن لگتا ہے کہ جنرل باجوہ ان کو پاکستان کی پالیسی تبدیلی کے بارے میں یقین دلانے میں کامیاب رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اب پاکستان کا دورہ کرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جنرل باجوہ نے طالبان کے بارے میں پاکستانی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیوں کا عندیہ دیا ہوگا۔
لگتا یہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز ادارے دو سطحوں پر عمل پیرا ہیں۔ ایک طرف تو خواجہ آصف جیسے سویلین رہنما ہیں جو پاکستان کے پرانے بیانیے پر اصرار کر رہے ہیں اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ ہے جو کہ افغان پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو علم ہے کہ چین اور روس بھی پاکستان کے اس رویے کے سخت مخالف ہیں : برکس کے اعلامیے میں انتہا پسند تنظیموں کے خاتمے کے مطالبے سے یہ ظاہر تھا کہ چین اور روس بھی پاکستانی بیانیے کے حامی نہیں ہیں۔ پاکستان کے سویلین حکمران بہت سے ایسے بیانات دیتے ہیں جن کا مقصد پاکستانی عوام کو خوش کرنا ہوتا ہے اور خواجہ آصف واشنگٹن میں اسی رویے کی ترجمانی کر رہے تھے۔ ان کے دھواں دار بیانات سے کسی امریکی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی البتہ پاکستانی حلقوں میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔

تازہ ترین