• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہار اور جیت کسی بھی کھیل کا حصہ ہوتی ہے مگر سری لنکا سے 2ٹیسٹ میچز کی سیریز میں وائٹ واش پاکستانی ٹیم کیلئے ہی نہیں بلکہ کرکٹ منتظمین کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔یہ پاکستان کی کسی بھی ہوم سیریز میں دوسری وائٹ واش ناکامی ہے، آخری مرتبہ اسے آسٹریلیا نے 2002-03میں تین ٹیسٹ میچوں کی سریز میں وائٹ واش شکست دی تھی۔دوسرے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 482 رنز بنائے جس کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم محض 262 رنز بنا سکی۔ دوسری اننگز میں سری لنکن ٹیم 96 رنز بنا کر آوٹ ہو گئی اور گرین شرٹس کو جیت کیلئےمجموعی طور پر 317رنز کا ہدف دیا گیا۔ چوتھے دن کے کھیل کے اختتام تک جیت پاکستانی ٹیم کے پلڑے میں تھی ،مگر آخری روز کے کھیل میں پاکستانی بیٹنگ پھر مشکلات کا شکار رہی اور پوری ٹیم 248 رنز بنا کر آئوٹ ہو گئی۔ایسی شکست منتظمین کو بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتی ہے۔ ابو ظہبی اور دبئی پاکستان کا ہوم گرائونڈ ہے۔وہاں اپنی مرضی کی پچ تیار کروانی چاہئےتھی مگر ایسی پچ تیار کروائی گئی جو بیٹنگ کیلئے بالکل ساز گار نہیں تھی۔ ایک دن کے کھیل کے بعد ہی پچ اتنی خراب ہوگئی کہ پاکستانی ٹیم رنز کا ہدف حاصل نہ کر سکی۔دوسری اننگز میں اسد شفیق اور کپتان سرفراز احمد نے اسکور کو باوقار مقام تک پہنچایامگر فتح نہ دلا سکے۔اس وقت ٹیسٹ ٹیم کی تعمیر نو کیلئے ٹیم میں نئے کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ پرانے اور تجربہ کار کھلاڑی ریٹائر ہو چکے ہیں،ٹیم کا مڈل آرڈر بالکل کمزور ہے۔نئے کھلاڑیوں کے غیر محتاط شاٹس، خراب پچ اور تجربہ کار کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو وائٹ واش شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ٹیسٹ رینکنگ میں بھی ٹیم ایک درجہ تنزلی کیساتھ ساتویں نمبر پر آ گئی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ منتظمین کھلاڑیوں میں ٹیسٹ کرکٹ کا ٹمپرامنٹ پیدا کرنے کیلئے اُنکی تربیت کا اہتمام کریں اور سری لنکا کیساتھ ون ڈے اور ٹی 20 سیریز میں کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے کھلاڑیوں کے اعتماد کو بحال کریں۔ ان غلطیوں کو نہ دہرایا جائے جو ٹیسٹ میچوں میں شکست کا باعث بنیں۔

تازہ ترین