• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انفرااسٹرکچر اور توانائی کے شعبے میں بہتری ہوئی، سلامتی اور معیشت جڑواںتجارتی توازن بہتر نہیں، آرمی چیف

Todays Print

کراچی (احسن چوہدری / اسٹاف رپورٹر) چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ آج سلامتی اور معیشت ایک دوسرے سے منسلک ہیں، تمام قومیں پرانی سوچ پر نظرثانی کرتے ہوئے اقتصادی استحکام اور قومی سلامتی کے درمیان توازن پر توجہ دے رہی ہیں، سوویت یونین کے پاس ہتھیار کم نہ تھے لیکن کمزور معیشت کے سبب ٹوٹا، ہمیں معیشت اور سلامتی کے درمیان قابل عمل توازن کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے، اسی صورت میں ہم ایک ایسا مستقبل حاصل کر سکیں گے جس میں ہمارے لوگوں کے لئے پائیدار امن اور مسرت یقینی ہو، ملکی ترقی بڑھی ہے تو قرضے بھی آسمان پر چلے گئے ،انفرااسٹرکچر اور توانائی میں نمایاں طور پر بہتری آئی لیکن تجارتی توازن بہتر نہیں ،جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کم ہے جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عام آدمی کو ریاست کی جانب سے مدد اور مساوی سلوک کی یقین دہانی کی بھی ضرورت ہے، نان اسٹیٹ ایکٹرز سیکورٹی ترجیحات کنٹرول کرنا چاہتےہیں ، ریاست کی رٹ چیلنج کرنیوالوں کو شکست دیدی، ہمارا خطہ ڈوبے گا تو سب ڈوبیں گے، معاشی استحکام کیلئے عدم استحکام دور کرنا ہوگا، ہمارے مشرق میں جھگڑالو بھارت ، مغرب میں غیر مستحکم افغانستان ہیں لیکن ہم نئی دہلی سے دوستی چاہتے ہیں تاہم تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے ، یقین دلاتا ہوں کراچی محفوظ رہے گا، معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ وہ منگل کو کراچی میں معیشت اور سلامتی کے درمیان ربط کے موضوع پر منعقد سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔

آرمی چیف نے کہا کہ معیشت ہماری روزمرہ زندگی کے معیار، کسی قوم کی دولت و صحت کے ساتھ ساتھ اس کے اداروں کی مضبوطی اور عوام کے اعتماد کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرد جنگ کے اختتام پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب یہ بات کہی جاتی تھی کہ انسانی تہذیب ایسے نقطہ پر پہنچ چکی ہے جہاں صرف اقتصادی مفادات کی ’سرد منطق‘ قومی سلامتی کا تعین کرے گی۔

آرمی چیف نے کہا کہ آج سلامتی اور معیشت جڑواں ہیں۔ تمام قومیں پرانی سوچ پر نظرثانی کرتے ہوئے آج اقتصادی استحکام اور قومی سلامتی کے درمیان توازن پر توجہ دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کے سب سے زیادہ کشیدہ خطوں میں سے ایک میں رہتے ہیں اور ہمیں ابتداءسے ہی متعدد بحرانوں کا سامنا رہا ہے لیکن گزشتہ چار دہائیوں کے دوران اس میں اضافہ ہوا ہے۔

آرمی چیف نے کہا کہ ہمیں معیشت اور سلامتی کے درمیان قابل عمل توازن کو مسلسل یقینی بنانا ہے۔ اسی صورت میں ہم ایک ایسا مستقبل حاصل کر سکیں گے جس میں ہمارے لوگوں کیلئے پائیدار امن اور مسرت یقینی ہو سکے۔ آرمی چیف نے کہا کہ قومی سلامتی آج ایک وسیع موضوع ہے۔ دنیا بھر کے رہنما واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ سیکورٹی مختلف عوامل بشمول سیاسی، اقتصادی، فوجی، سماجی، انسانی و ماحولیاتی عوامل کے ربط کا نتیجہ ہے۔ یہ صورتحال سیکورٹی کو ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اندرونی طور پر ہماری سیکورٹی کی صورتحال بہت بہتر ہے۔

ریاست کی رٹ کو درپیش چیلنجز کو شکست دی جا چکی ہے۔ اگرچہ کچھ مسائل اب بھی ہیں لیکن مجموعی صورتحال مستحکم ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ ہمیں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمدکیلئے جامع کوشش کی ضرورت ہے۔ اگر متعین کردہ اقدامات بروقت نافذ کر دیئے جائیں تو اس سے اقتصادی اور حتیٰ کہ سیاسی استحکام میں مدد ملے گی۔ اس حوالے سے پولیس اور جوڈیشل ریفارمز واضح مثالیں ہیں۔ مدرسہ اصلاحات بھی ضروری ہیں۔ ہم اپنے نوجوانوں کے بڑے حصے کے لئے محدود آپشنز نہیں چھوڑ سکتے۔ مدرسوں کو اپنے طلباءکو معاشرہ کے مفید ارکان بننے کے قابل بنانا ہوگا تاکہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں پیچھے نہ رہ پائیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے بیرونی محاذ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مشرق میں جھگڑالو بھارت اور مغرب میں غیر مستحکم افغانستان ہیں۔ ہم مغربی سرحد کو سفارتی، فوجی اور اقتصادی اقدامات کے ذریعے پرامن رکھنے کے لئے سنجیدہ اور ٹھوس کوششیں کر رہے ہیں۔ فاٹا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں انسانی سیکورٹی کو بڑھایا گیا ہے۔ دراصل فاٹا میں جو ہم کر چکے ہیں اور بلوچستان میں شروع کیا ہے، وہ سیکورٹی سے متعلق ہماری سوچ کی بہترین مثال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ پرامن اور معمول کے تعلقات کے لئے اپنی حقیقی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ملک میں سیکورٹی کے ماحول میں بہتری کے سلسلے میں کھیل و ثقافت کے بڑے ایونٹس کے انعقاد اور سی پیک کے منصوبوں کے لئے سیکورٹی کی فراہمی کے بارے میں بھی شرکاءکو آگاہ کیا۔

آرمی چیف نے کہا کہ ملکی معیشت ملے جلے اشاریئے پیش کر رہی ہے۔ گروتھ بڑھی ہے لیکن قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انفراسٹرکچر اور توانائی میں نمایاں طور پر بہتری آئی ہے لیکن جاری کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس ہمارے حق میں نہیں۔ جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کم ہے جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عام آدمی کو ریاست کی جانب سے مدد اور مساوی سلوک کی یقین دہانی کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ ہم اقتصادی نمو اور پائیداریت کو اعلیٰ ترین ترجیح بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں معیشت پر بھی بات ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے مشکل فیصلے لینے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں ٹیکس کی بنیاد میں وسعت، مالیاتی ڈسپلن اور اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل یقینی بنانا ہوگا۔

تازہ ترین