• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوب صورت نظاروں سے لبریز ۔۔ایوبیہ اور ہمارا سنو مین

انسان کے اندر ہمیشہ نئی نئی جگہوں پر جا نے اور اس کے بارے میں جا ننے کا تجسس رہتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ انسان نے اسی تجسس کی بنا پر غا روں سے باہر قدم نکا لا اور دنیا کو کھو جنا شروع کیا حتیٰ کہ اس نے چاند کو بھی مسخر کر لیا ۔

ہمارے ایک دوست عماد عزیز  کےچنددوست کچھ عرصہ قبل مری کا سفر کر کے آئے اور اس کی خو ب صورتی کے قصے سنانا شروع کر دیئے۔  ہمیں بھی وہاں جانے کا شوق ہوا اور پھر ہم نے بھی ابن بطوطہ اور واسکو ڈی گاما کا سا ارادہ باندھا ۔زاد راہ تیار کیا ، جہاز کی طنابیں کھینچیں اور ہوا کے دوش پر تیرتے ہوئے کراچی سے تقریباًڈیڑھ ہزار کلومیٹر دور موجود دنیا کے خوبصورت ترین شہرو ں میں سے ایک یعنی اسلام آباد میں پہنچ گئے۔یہ پورا پروگرام  عماد نے بنایاتھا ۔

ہم نے ائیرپورٹ کے باہر قدم رکھا تو شاید کسی نے پہلے ہی سے ہماری آمد کی اطلاع جاری کردی تھی کیوں کہ سارے ٹیکسی والے ہماری طرف لپکے۔ عماد نے بڑی مشکل سے ایک ٹیکسی والے سے کرایہ طے کیا اورپھر ہم مری کی جانب روانہ ہو ئے ۔

مری اسلام آباد کے جنوب مشرق میں تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جسے انگریز حکومت نے اپنے بیمار ہوجانے والے فوجیوں کی صحت یابی کے لیے 1851 عیسوی میں قائم کیاتھا۔1853 میں یہاں چرچ بنایا گیا جبکہ اس کے کچھ عرصہ بعد پوسٹ آفس اور دیگر اہم عمارتیں تعمیر کیں۔یہ سب عمارتیں ایک مشترکہ روڈ پر موجود ہیں جسے مال روڈ کہا جاتا ہے۔

اسلام آباد سے مری تک کے راستے میں بہت سے خوبصورت چشمے آتے ہیں جن کا خوبصورت منظر اور ٹھنڈا ٹھار پانی انسان کی طبیعت خوشگوار بنادیتے ہیں۔مری پہنچنے پر سخت سردی اور باسی برف نے ہمارا استقبال کیا ۔مارچ کا مہینہ تھا اور برف باری کاموسم ختم ہوچکا تھاالبتہ پرانی برف اب بھی موجود تھی ،سو ہم نے ڈٹ کر کھانا کھایا ۔پورا دن مال روڈ کی سیر کی۔یہاں ہر طرف ملکی و غیرملکی سیاح نظر آتے ہیں۔اگلے دن ہم نے مری کو خیرباد کہا اور ایوبیہ کا رخ کیا۔

ایوبیہ سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع نیشنل پارک ہے جس کا رقبہ آٹھ ہزار ایک سو چودہ ایکڑ ہے ۔اسے 1984 میں تعمیر کیا گیا جبکہ 1991 میں اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔اس کا نام پاکستان کے دوسرے صدر ایوب خان کے نام پر ایوبیہ رکھا گیا۔

مری سے ایوبیہ کا فاصلہ ایک گھنٹے میں طے کرکےہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ کچھ سیاح چیئر لفٹ کے مزے لے رہے ہیں۔سو ہم نے بھی ٹکٹ خریدااور اس پر سوار ہو گئے ۔شروع میں تو ہمیں بہت ڈر لگا مگر پھر انتہائی خو ب صورت منا ظر دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہو گئے اور اللہ کی تعریف و شکرادا کیے بنا نہ رہ سکے، وہاں سے ہم دوسرے کنارے پراترے تو وہاں برف باری شروع ہوگئی تھی ۔

مارچ کے مہینے میں ہو نےوالی برف با ری نے وہاں کی ہر چیز کو سفید کر دیا تھا جبکہ برف کی سلا ئیڈز بھی بنی ہو ئی تھیں ، اس کے علاوہ بہت سے لوگوں کو برف سے مختلف چیزیں بنا تے ہوئے بھی دیکھا ۔ عماد تو یہ منظر دیکھ کر خو شی سے نہال ہو گئے تھے اور انہوں نے بھی ایک خو ب صورت سا ’سنو مین‘ بنا یا ۔

ہم وہاں کچھ دیر گھومے اور پھر واپسی کا رخ کیا۔ اب گھر بیٹھے ایوبیہ کا احوال تحریر کر رہے ہیں ۔ آپ لوگوں کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ پاکستان میں خوبصورتی بکھری پڑی ہے اگر موقع ملے تو لازمی گھومیں پھریں ۔۔۔۔اور ہاں۔۔ اگر ایوبیہ کا رخ کریں تو لازمی ہمارے ’سنومین‘ سے بھی ملاقات کیجئے گا۔

 

 

تازہ ترین